Inquilab Logo

اترا کھنڈ کی عائشہ فرحین نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اب جج بنیں 

Updated: December 29, 2020, 1:16 PM IST | Azhar Mirza

بائیس دسمبر کو اترا کھنڈ جوڈیشل امتحان (جونیئر ڈویژن) ۲۰۱۹ء کے نتائج کا اعلان ہوا ، ریاست کے شاہ پور گاؤں کی عائشہ فرحین نے نواں رینک حاصل کیا ہے ،انقلاب سے ان کی خصوصی بات چیت کے اہم اقتباسات

Ayesha Farheen
عائشہ فرحین

 اتراکھنڈ جوڈیشل سروس امتحان ۲۰۱۹ء (جونیئر ڈویژن)  میں ریاست کے چھوٹے سے گاؤں شاہ پور کی عائشہ فرحین نے  نویں رینک سے کامیابی حاصل کی ہے۔  خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ امتحان پہلی ہی کوشش میں بغیر کسی کوچنگ کے کامیاب کیا ہے ۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان کی والدہ طبیعت کی ناسازی کے سبب گھر کے کام کاج نہیں کرپاتیں تھیں اس لئے عائشہ فرحین نے اس صورتحال کو بھی بخوبی سنبھالا اور گھریلو امور بھی  انجام دئیے اور اتنی مصروفیات و کام کے باوجود اپنی  پڑھائی پر بھی توجہ دی ۔ 
 شاہ پور کی اس ہونہار بیٹی  عائشہ فرحین سے ٹیلی فونک انٹرویو کیلئے  جب ہم نے رابطہ کیا تو سب سے پہلے ان کے  والد شرافت علی سے بات ہوئی، گفتگوکے آغاز میں انہوں نے اپنی ہونہار بیٹی کی امتیازی کامیابی پر کہا کہ’’ بہت ہی خوشی محسوس ہورہی ہے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میری بیٹی کو یہ شاندار کامیابی عطا کی ۔  میرے نصیب میں تو  اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا نہیں تھا لیکن بچے  خوب پڑھ رہے ہیں ۔ ‘‘بعدازیں عائشہ فرحین نے انقلاب سے گفتگو کی جس کے اہم اقتباسات درج ذیل میں پیش کئے جارہے ہیں:
عائشہ آپ نے  ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم تک کا یہ سفر کیسے پورا کیا؟
عائشہ فرحین:میں نے اپنے گاؤں کے ہی سرکاری ہندی میڈیم اسکول سےپانچویں تک کی پڑھائی کی ، اس کے بعد پاس کے گاؤں میں آٹھویں تک کی تعلیم پائی اور اس کے بعد کنیا پاٹھ شالا سے بارہویں مکمل کی۔ دسویں میں میرا نتیجہ ۶۴؍فیصد اور بارہویں آرٹس ۶۵؍فیصد تھا۔  اس کے بعد۲۰۱۳ء میں   بی اے روڑکی کے بی ایس ایم کالج سے کیا۔ اس کے بعدمیں نے  ایل بی بی انگریزی میڈیم سے ۲۰۱۶ء میں مکمل کیا۔ رزلٹ میں تاخیر کے سبب میرا  ایک سال ضائع ہوا۔ بعد ازیں میں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  میں ایل ایل ایم میں داخلہ لیا اور ۲۰۱۹ء میں ۸۳؍فیصد نمبرات سے یہ مکمل کیا۔  آپ دیکھئے کہ میں کہاں سے نکل کر آئی ہوں اور درج بدرجہ  ترقی کی ہے۔ اندازہ لگائیے کہ  دسویں کے ۶۴؍فیصد سے ایل ایل ایم کے  ۸۴؍ فیصد تک کے سفر میں کس طرح تعلیمی ریکارڈ  میں بہتری کیلئے  میں نے محنت کی ۔ 
آپ نے اس دوران کن مسائل کا سامنا کیا؟
عائشہ فرحین:گھر میں چونکہ سب سے بڑی تھی لہٰذا ذمہ داری تو تھی ہی ۔ والدہ کی طبیعت خراب رہتی تھی لہٰذا مجھے گھر کے کام بھی کرنے پڑتے تھے۔ میں چھٹی جماعت سے ہی ذمہ دار بن گئی تھی۔میں صبح پانچ بجے اٹھ جاتی تھی ، چھوٹے بھائی بہنوں کا ناشتہ تیار کرکے انہیں اسکول بھیجتی تھی۔ پھر اپنی تیاری کرتی اور اسکول جاتی ۔ اسکول سے لوٹنے کے بعد گھر کا پورا کام کرتی تھی۔  یہ معمول میرا بارہویں جماعت تک رہا۔ ظاہر ہے کہ گھر کی مصروفیات کے سبب مجھے دن میں پڑھنے کا وقت نہیں ملتا تھا۔ میری بہن اور میرا کمرہ الگ تھا  لہٰذا میں رات کے اوقات میں پڑھائی کرتی تھی۔  ایک او ربات بتادوں کہ  معاشی مسائل تھے تو لیکن میرے والدین نے ہم بھائی بہنوں کو کبھی محسوس نہیں ہونے دیا۔ کبھی ہمیں کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی ۔ پیسوں کی بچت کیلئے والدہ مہنگی سبزیاں نہیں بناتی تھیں ، خود کیلئے کچھ نہیں خریدتیں،  کاٹ کسر سے کام لیتیں تاکہ یہ بچت ہماری تعلیم کے خرچ کے کام آئے۔ 
شعبہ قانون میں کریئر بنانے کا خیال کیسے آیا؟
عائشہ فرحین:میرے والد کورٹ میںمنشی تھے ، اس لئے ان کا رجحان لاء کی جانب تھا۔ ان کا خواب تھا کہ جس کورٹ میں میں کام کرتا ہوں وہاں میری بیٹی افسر بن کر آئے۔ انہوں نے مجھ سے دسویں کے وقت ہی کہا تھا بیٹی میں چاہتا ہوں کہ تم گریجویشن کے بعد  جوڈیشیری امتحان کوالیفائی کرو۔ میرے اب تک کے سفر میں انہوں نے بڑی مدد کی اور بہت ساتھ دیا ہے۔  ایل ایل بی سے لے کر ایل ایم اور پھر جوڈیشیل امتحان تک وہ پڑھائی کے وقت  میرے ساتھ بیٹھتے اور میری رہنمائی کرتے ۔ 
جوڈیشیل امتحان کی تیاری کیسے کی؟
عائشہ فرحین: ستمبر ۲۰۱۹ء میں ادھر میرا  ایل ایل ایم مکمل ہوا اور ادھر اتراکھنڈ جوڈیشل امتحان کا اعلان ہوا۔  میں نے پرلیم دیا اور مجھےٹھیک ٹھاک نمبرات ملے۔پرلیم ۲۰۰؍ مارکس کا تھا جس میں ۱۵۰؍مارکس کا لاء اور ۵۰؍ مارکس کا کرنٹ افیئر ہوتا ہے۔  اس کے بعد میں نے سیلف اسٹڈی کے ذریعہ ہی مینس کی پڑھائی کی۔ میں نےپڑھائی کیلئے  اپنی حکمت عملی بنائی۔ یوپی اور اتراکھنڈ کے جوڈیشل امتحان کے ۱۰؍سال کے پچھلے پرچے ڈاؤن لوڈ کئے اور ان کے ذریعہ شارٹس نوٹ بنائے اور گھر پر رہ کر ہی تیاری کی۔ مینس کے پانچ پرچے ہوتے ہیںلیکن کمپیوٹر کے پیپر کو کوالیفائی کرنا ضروری ہے اگر یہ کوالیفائی نہیں ہوتے ہیں تو باقی کے پرچے چیک نہیں ہوتے ہیں۔ ان پانچ پرچوں  میں کمپیوٹر، پرزینٹ ڈے جس میں لیگل کرنٹ افیئرس ہوتا ہے ،  انٹرنیشنل لاء،  کانسٹی  ٹیوشنل لاء اور جیورسپروڈنس شامل ہے۔ میری محنت رنگ لائی اور مجھے  اپنے پہلے  ہی اٹیمپٹ میں یہ کامیابی ملی ہے اور اب میں سول جج جونیئر  ڈویژن بننے جارہی ہوں۔
سماج اور قوم کے طلبہ کو کوئی پیغا م دینا چاہیں گی؟
عائشہ فرحین:جی میں کہوں گی کہ ہمارے سماج میں تعلیم کے تئیں مزید بیداری کی ضرورت ہے ۔ ہمارے والدین میں بچوں کو زیادہ سے زیادہ تعلیم دلانے کیلئے جنون ہونا چاہئے۔ جیسا کہ میرے والدین نے کیا، والدنے کم تعلیم حاصل کی تھی ، والدہ ناخواندہ تھیں لیکن انہوں نے ہم سبھی بھائی بہنوں کو خوب پڑھایا۔ مجھے لگتا ہے کہ بچے کی کامیابی و ترقی میں گھروالوں کا تعاون بہت ضروری ہے۔ ماں باپ کا بچوں کیلئے معاون  ہونا بہت اہم ہوتا ہے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK