عورت معاشرے کی عمارت کا انتہائی مضبوط پتھر ہے اور یہ پتھر انفرادی طور پر انتہائی کمزور ہے ، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے لہٰذا ایک عورت ہم جنس کو حوصلہ دے اور اس سے متعلق منفی جذبات کو پروان نہ چڑھائے ، اس پتھر کو مستحکم بنانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس سلسلے میںہر خاتون کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے۔
ہر نسل کی خواتین میں تال میل پرسکون خاندان اور معاشرے کیلئے ضروری ہے۔ تصویر:آئی این این
کہتے ہیں کہ ماں کی گود بچوں کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ ایک بچے کی پرورش اور اس کی تعلیم و تربیت ماں ہی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ پھر وہ اپنی تر بیت کے ذریعہ اپنے بچے کو بنائے یا بگاڑے ، یہ پوری طرح اسی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ یہ ماں ہی ہوتی ہے جو بچے کو زندگی گزارنے کااصول اور ضابطہ سکھاتی ہے۔ والدین کے حقو ق اور دوسرے رشتوں کے حقوق سمجھاتی ہےلیکن جب حقوق نسواں کا معاملہ اٹھایا جاتا ہے تو ہم مردوں کو یوں مورد الزام ٹھہراتےہیں ، جیسے مردوں ہی نے عورتوں کے حقوق سلب کر رکھے ہوں جبکہ حقیقت تویہ ہے کہ عورتیں ہی عورتوں کی سب سے بڑی دشمن ہیں ۔ عورت سے عورت کی پر خاش کا یہ مسئلہ ہمیں صرف گھروں یا خاندانوں میں نظر نہیں آتا بلکہ اداروں اور تنظیموں میں بھی یہ مسئلہ نظر آتا ہے۔
یادرکھئے کہ عورت معاشرے کی عمارت کا ایک مضبوط پتھر ہے اور ایک یہ بھی حقیقت ہے کہ عورت کا ہر کردار اہمیت کا حامل ہے۔چاہے وہ ماں کا ہو ، یا بہن ، بیٹی اور بہوکا۔
اکثر خواتین مختلف اداروں یا خاندانوں میں اپنا بیشتر وقت باہمی رقابت ، رسہ کشی اور کھینچا تانی میں گزاردیتی ہیں۔ تعمیری کاموں کے بجائے تخریبی کاموں میں اپنی اچھی خاصی توانائی صرف کر دیتی ہیں۔ یہ بات صد فیصد درست ہےکہ ہمارا معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عورتوں پر ظلم میں مردوں کا ساتھ ہمیشہ عورتیں ہی دیتی ہیں۔ بعض دفعہ تو وہی اکساتی بھی ہیں۔
ساس ، نند اور بہو عورتیں ہی ہوتی ہیں لیکن ان کی آپسی چپقلش سے شاید ہی کوئی گھر محفوظ ہوگا۔ شادی بیاہ کے موقع پر لڑکی دیکھنے سے لے کر جہیز مانگنے تک میں عورتوں ہی کا ہاتھ ہوتا ہےاور اگرکچھ کمی بیشی ہوجائے تو طعنے دینے والی بھی ہم عورتیں ہی ہوتی ہیں۔ آئے دن ہمارے یہاں اس طرح کی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں کہ کم جہیز لانے پر لڑکی کو جلا دیا گیا یا کسی نے جہیز کے مطالبے سے تنگ آکر خودکشی کر لی، کسی کی طلاق ہوگئی۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ان سب کے پیچھے اکثرعورتوں ہی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ اولا د کی پیدائش کا دارومدار باپ پر ہوتا ہے نہ کہ ماں پر لیکن بیٹی کی پیدا ئش کا ذمہ دار ماں ہی کو قرار دیا جاتا ہےاور بیٹی کے پیدا ہونے کے ساتھ ہی اس کے ساتھ ناانصافی شروع ہوجاتی ہے ، حیرت انگیز طور پر یہ ناانصافیاں کرنے والی بھی عورت ہی ہوتی ہے۔ ماں اپنے بچوں کے ساتھ سے زیادہ وقت گزارتی ہے۔ وہ اگر چاہے تو بچوں کو راہ راست پر لاسکتی ہے لیکن یہ ماں ہی ہوتی ہے جو بچوں کو منفی جذبات کےا ظہار پر آماد ہ کرتی ہے ۔ یہی ماں جب اپنے بیٹے کی شادی کرتی ہے اور بہو گھر لاتی ہے تو اپنے ہی جیسی ایک لڑکی سے حسد کرنا شروع کردیتی ہے اور بہو بھی اپنے دل میں ساس کیلئے بغض وعناد پال لیتی ہے۔ یہاں پر بھی قصوروار مرد نہیں بلکہ عورتیں ہیں جو ایک مرد کو اپنے ’بس ‘میں کرنے کیلئے لڑنے لگتی ہیں ، حالانکہ میاں بیوی کا رشتہ بر ابری کا رشتہ ہے جس میں عورت پر شوہر اور بچوں کی خدمت کے ساتھ ساتھ گھر کی دیکھ بال کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن ہمارے یہاں لڑکی سے پہلے سسرالیوں کی خدمت کی توقع کی جاتی ہے۔ شوہر کے حقوق بہت بعد میں یاد آتے ہیں۔ سچ پوچھئے تو ہمارے یہاں بیٹوں کی شادیاں اسی مقصد کے تحت کی جاتی ہیں کہ گھر میں کو ئی خدمت کرنے والا آجائے اور اگر وہ یہ سارے کام نہ کرے تو اسے زمانے بھر میں بدنام کردیا جاتا ہے۔ باربار اس کے ماں باپ کو ناقص ترتیب کا طعنہ دیا جاتا ہے اور یہ سب کرنے والی بھی عورت ہی ہوتی ہے۔ او ل تو شوہر کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی کو اس کا جائز حق دلوائے لیکن افسوس کہ اس کی تربیت بھی اسی نہج پر ہوتی ہے کہ وہ صحیح غلط کی تمیز ہی نہیں کر پاتے۔ ہمارے یہاں لڑکیوں کو صرف لڑکوں کے حقوق کے بارے میں بتایا جاتا ہے اور لڑکوں کو بھی صرف لڑکوں کے حقو ق کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ اگر ایک لڑکی اپنا حق استعمال کرتے ہوئے الگ رہائش کا مطالبہ کرے تو ہم اسے ہی برا بھلا کہنے لگتے ہیں جبکہ عورتوں کو ہمارے مذہب نے یہ حق دیا ہے مگر اسے ہم ’جوائنٹ فیملی‘ کی فوائد اور برکات بتانے لگتے ہیں جبکہ ہمارے مذہب میں جوائنٹ فیملی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ پھر جانے کیوں بیوی کو پورے کنبے کے درمیان رکھا جاتا ہے اور یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ فرض پورا ہوگیا ہے اور خود کو یہ تسلی دی جاتی ہے کہ جوائنٹ فیملی سسٹم ( مشترکہ خاندانی نظام) میں برکت ہوتی ہے جبکہ سب سے زیادہ ’دُرگت‘ اسی نظام میں ہوتی ہے اور یہ سب کرنے والی ہم عورتیں ہی ہوتی ہیں جو پہلے خود ساری چیزیں بھگت چکی ہوتی ہیں اور یہ چاہتی ہیں کہ اب ان کی بہو بھی ان تمام مشکلات کا سامنا کرے جن کا وہ خود سامنا کر چکی ہیں۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں ، ان کا احاطہ مشکل ہے۔ اس گفتگو کا مقصد عورتوں کو عورتوں کی اہمیت کا احساس دلانا ہے۔ جو عورتیں سڑکوں پر حقوق نسواں کیلئے آواز اٹھاتی ہیں اور مردوں سے حقوق نسواں کا تقاضا کرتی ہیں، انہیں چاہئےکہ وہ’ گھروں‘ پر بھی توجہ دیں۔ عورتوں کے حقوق سلب کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ عورتوں کا ہوتا ہے اور مردوں کو ظلم کرنے پر عورتیں ہی آمادہ کرتی ہیں ، کیونکہ مردوں کی تربیت میں بھی عورتوں ہی کا ہاتھ ہو تا ہے۔