Inquilab Logo

بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن کا مقصد خواتین کیلئے سماجی انصاف کو یقینی بنانا ہے

Updated: March 08, 2023, 9:18 AM IST | saeed Ahmed | Mumbai

۱۹۹۵ء میں باندرہ میں قائم ہونے والی یہ تنظیم ’خواتین کیلئے اور خواتین کے ذریعہ‘ کے اصول پرکام کرتی ہے اور فی الحال مہاراشٹر، کرناٹک ، تمل ناڈواورراجستھان سمیت ۱۱؍ ریاستوں میںسرگرم ہے

During a meeting with women police officers in charge of Bharatiya Muslim Mahila Andolan.
بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن کی ذمہ دار خواتین پولیس افسران کے ساتھ ایک میٹنگ کے دوران۔

بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن ، خواتین کی  ان بہت سی تنظیموں میں سے ایک ہے جو ’’خواتین کیلئے اور خواتین کے ذریعہ‘‘ کے اصول پر کام کرتے ہوئے سماجی انصاف کو یقینی بنانے کیلئے سرگرم ہیں۔ تنظیم کا  بنیادی مقصدخواتین کو مدد فراہم کرنا اور ان کے مسائل کو حل کرنا ہے مگر یہ سماج کے دیگر مسائل کو بھی نظر انداز نہیں کرتی۔  ۱۹۹۵ء میںمہیلا شکتی منڈل کے نام سےشروع ہونے والی یہ تنظیم اب ’بھارتیہ مسلم مہیلا مورچہ‘   کے نام سے جانی جاتی ہے جو اس وقت  مہاراشٹر، کرناٹک، تمل ناڈو اور راجستھان سمیت  ملک کی  ۱۱؍ ریاستوں میں سرگرم ہے۔ 
  ۱۹۹۵ء میں ’مہیلا شکتی منڈل‘  کے نام سے   اس کا آغاز ہوا، اس کے بعد متعدد موڑآئے جب اس کی الگ الگ ناموں سے شناخت ہوئی۔ ۲۰۰۳ء میں حقوق نسواں مہیلا سنگھٹن بنایا گیا اور۲۰؍ ممبران کو ٹریننگ دے کرالگ الگ علاقوں میں ۲۰؍مہیلا منڈل قائم کئے گئے ۔ ۲۰۰۷ء میں اس کانام بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن رکھا گیا ۔ اس کے بعدسے تاحال یہ اسی نام سے اپنی سرگرمیاں انجام دے رہی ہے۔ اس کے ذریعے ۲۰۰۷ء میںدارالعلوم نسواں قائم کیا گیا اور۳۰؍ خواتین کوقاضی کی تربیت دی گئی  جو اب   اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ 
 ا س تنظیم کے قیام سے اب تک اس کی صدر زبیدہ خاتون عرف خاتون غفور شیخ ہیں۔    نور جہاں صفیہ نیاز رکن تاسیسی  ہیں جو تنظیم سے وابستہ ہونے سے قبل انجمن اسلام گرلزہائی اسکول میںکوآرڈنیٹر تھیں ۔ تنظیم کی صدرکی ان سے ملاقات بھوئیواڑہ پولیس اسٹیشن میںناری نوارن کیندر چلانے والی ناہیدہ نام کی خاتون کے توسط سے ہوئی ،تب سے آج تک مل جل کرکام کیا جا رہا  ہے۔
 اس تنظیم کا قیا م باندرہ میںعمل میں آیا ۔قیام کے تعلق سے تنظیم کی صدر خاتون شیخ بتاتی  ہیںکہ باندرہ میں اس وقت جھوپڑپٹی اور بھی زیادہ گھنی  ہوا کرتی تھی ،بلند عمارتیں کم تھیں۔  جھوپڑپٹی میں مختلف باتوں  پر اکثر جھگڑے ہوجایا کرتے تھے۔ چند گھرانے توایسے تھے جہاں  میاں بیوی کے درمیان مارپیٹ اورلڑائی جھگڑا ایک طرح سے معمول بن گیا تھا، روز روز کے ان جھگڑوں سے لوگ تنگ آگئے تھے۔  چنانچہ یہیںمقیم چند خواتین نے ان جھگڑوں سے عاجز آکریہ طے کیا کہ کیوںنہ اس کی روک تھام کیلئے مل جل کرکوشش کی جائے۔اسی جذبے کے تحت مہیلا شکتی منڈل کی شکل میں تنظیم کی بنیاد ڈالی گئی۔خاتون شیخ  بتاتی ہیں کہ یہ بھی عجب اتفاق ہی تھا کہ منڈل کے قیام کے بعد  جوپہلا کیس آیا وہ  خود ان کی نند کاتھا ۔
   باندرہ میں قائم ہونے والی یہ تنظیم  اس وقت ۱۱؍ریاستوں میں سرگرم ہے۔کرناٹک ،مہاراشٹر ، تمل ناڈو،راجستھان اور دیگر  میںشرعی ضابطوں کے تحت فیصلے اوررہنمائی کی جاتی ہے۔ خاتون شیخ نے بتایا کہ ان ریاستوں میں ایسی خواتین تنظیم کاحصہ ہیں جو شرعی اصول وضوابط سے واقف ہیں۔جن مسائل پر اس تنظیم کےبینر تلے آوازبلند کی جاتی ہے اس کے تعلق سے خاتون شیخ نے چندمثالیں دیں ۔ انہو ں  نےبتایا کہ عورتوں کے حقوق جیسے حاجی علی درگاہ میںخواتین کاداخلہ ، طلاق ثلاثہ ، راشن کے مسائل ، لڑکے لڑکیوں کی شادی میںان کی ذہن سازی اور سادگی سے نکاح ، ڈرگس کے خلاف ، اسکول نہ جانے والے طلبہ کی ذہن سازی ، فیس کے ذریعے مدد ، صحت سے متعلق   مسائل  اور محلہ کمیٹی کی مدد سے علاقے کے مسائل پر توجہ وغیرہ پر تنظیم نے کام کیا ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی۔ انہوں  نے بتایا کہ محض طلاق اورنکاح کے معاملات تک ہی اس تنظیم کی خدمات محدود نہیں ہیںبلکہ سماجی مسائل پر بھی نگاہ رکھی جاتی ہے۔ان مسائل کے خلاف احتجاج کرنے سے لے کرحکومت پر تنقید اور عدالت کا بھی سہارا لیا جاتا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ دیگرطریقوں سےبھی خواتین کے حقوق پامال کئے جاتے ہیں چنانچہ اس کی جانکاری اورخواتین کی رہنمائی بہت ضروری ہے۔
 اس ضمن میںبھارت نگر میںحنا صدیقی اورفرحین مزمل سید لڑکے اورلڑکیوں کوتربیت دیتے ہیںاور انہیںاس بات کی بطو رخاص معلومات فراہم کرواتے ہیںکہ ایک شہری کے ناطے ان کے کیا حقوق ہیں اوراگرحقوق پامال کئے جائیں تو کن کن طریقوں سے اس کے خلاف آوازبلند کی جاسکتی ہے یا کیاقانونی طریقہ اپنایاجاسکتا ہے۔ 
  کام کے دوران ممکنہ دشواریوں سے متعلق سوال کے جواب میں  بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن کی صدر نے بتایا کہ کبھی کبھار دبنگ لوگوں کی جانب سے دھمکی دی جاتی ہے کہ تم لوگ کیوں آگئے ، تم کوکس نے بلایا؟ اسی طرح کچھ علاقوں میں پولیس اہلکار زیادہ توجہ نہیں دیتے ہیں بلکہ ٹال مٹول کارویہ اپناتے ہیں اورعورتوںکے کیس کو اس طرح سے سنجیدگی سے نہیںلیا جاتا ہے جس طرح توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
 خاتون شیخ نے ۲۰۲۲ء میںبھارتیہ مسلم مہیلا آندولن کے دفتر میں لائے جانے والے کیسز کی تفصیلات اعداد وشمارکی روشنی میںبتائی۔  انہوں نے بتایاکہ گزشتہ سال گھریلو تنازعات کے ۸۹؍کیس آئے جن میں سے  ۶۱؍حل ہوئے۔ اسی طرح خلع کے ۱۱؍ کیس ، فسخ نکاح کے  ۹؍کیس آئے جن میں سے۴؍کورٹ میں گئے۔ ۷۱؍ خواتین کو خرچ دلوایا گیا ۔دوسری شادی کے ۱۲؍کیس اوربھائی بہن کے جھگڑے کےدو کیس لائے گئے ، دونوں کو حل کیا گیا۔
  یوم خواتین کی مناسبت سے اپنے پیغام میں    خاتون شیخ  نے کہا کہ ’’ خواتین کو اپنے حق سے دستبردار نہیں ہونا چاہئے  بلکہ حاصل کرنے کیلئے  نا انصافی کے خلاف میدان میں آنا چاہئے۔  ہماری بہنیں نہ توکسی سے مرعوب ہوں، نہ مایوس ہوں بلکہ جدوجہد کریں، و ہ ضرور کامیاب ہوںگی۔‘‘n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK