• Wed, 10 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

پیدائشی طور سے ہاتھوں سے محروم گلشن لوہار نے اپنی ذہانت، حوصلے اور عزم سے’معذوری‘ کو ہرادیا

Updated: December 10, 2025, 4:09 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

۲۰۱۱ء سے ایک ہائی اسکول میں کانٹریکٹ پر پڑھارہے ہیں، پیروں میںچاک دباکر تختہ سیاہ پر جب وہ ریاضی کے فارمولے لکھتے ہیں تو علم کے ساتھ وہ حوصلے اور ہمت کا درس بھی دیتے ہیں۔

A math teacher with no hands writes with chalk in Gulshan Lohar Peer. Picture: INN
ہاتھوں سے محروم ریاضی کےٹیچر گلشن لوہار پیر میں چاک رکھ کر لکھتے ہوئے۔ تصویر:آئی این این
جھارکھنڈ کے رہنے والے گلشن لوہار کی کہانی ’جہاں چاہ وہاں راہ ‘کی عملی مثال ہے۔ ۳۹؍ سالہ گلشن لوہار دونوں ہاتھوں سے محروم ہیں، لیکن وہ  اپنی ذہانت اور بلند حوصلے کا لوہا منواکر لوگوں کے لئے تحریک کا ذریعہ بن گئے ہیں۔آئیے ان کے متعلق جانتے ہیں۔ گلشن لوہار ریاست کے ضلع مغربی سنگھ بھوم کے بارانگا میں واقع اتکرامِت ہائی اسکول میں ریاضی کے معلم ہیں اور گزشتہ ۱۱؍ برسوں سے تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ہر روز وہ غیر متزلزل جذبے کے ساتھ کلاس روم میں داخل ہوتے ہیں اور کھریے کو اپنے پیروں کی انگلیوں کے درمیان دبا کر تختہ سیاہ پر ریاضی کے فارمولے لکھتے ہیں۔نیو انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق  بارانگا گاؤں میں جہاں وہ پڑھاتے ہیں، وہ علاقہ سرانڈا کے گھنے جنگلات کے اندر واقع  ہے، یہ علاقہ بدامنی اور بنیادی سہولیات کی کمی کیلئے جانا جاتا ہے۔ یہاں تعلیم و سہولیات کی رسائی بہت مشکل ہے، اور اکثر اس دور دراز، خطرناک سفر کی وجہ سے استاد یہاں آنے سے گھبراتے ہیں۔ ایسے حالات میں گلشن کی لگن قابل ستائش ہے۔
گلشن کیلئے ٹیچر بننے کا سفرآسان نہیں رہا۔  انہوں نےاپنی تعلیم کیلئے خیرخواہوں سے قرض لیا، مسلسل کئی کلومیٹر جنگل کے ناہموار راستوں پر پیدل چلے اور بی ایڈ مکمل کرنے کیلئےریاست سے خصوصی گرانٹ بھی حاصل کی۔ ان کی ہمت اور جدوجہد ثابت کرتی ہے کہ اصل استاد وہ ہوتا ہے جو ہر حال میں بچوں کے مستقبل کو ترجیح دیتا ہے۔ سات بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے گلشن کو یاد ہے کہ زندگی کا سفر مایوسی سے شروع ہواتھا ۔ اُن کی والدہ نے دیکھا کہ بچہ پیدائشی طور پر ہاتھوں  سے محروم ہے تو وہ بہت دل برداشتہ ہوئیں، لیکن بعد میں یہی ماں انہیں پاؤں سے لکھنے کی مشق کرواتی رہیں۔ اسکول کی تعلیم کے بعد گلشن نے بی ایڈ اور ایم ایڈ چکرادھرپور سے مکمل کیا، جو ان کے گاؤں سے تقریباً۶۵؍ کلومیٹر دور ہے۔ وہ روزانہ ٹرین سے کالج جایا کرتے تھے۔ پوسٹ گریجویٹ ہونے کے بعد انہوں نے مغربی سنگھ بھوم کے اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر سے ملازمت کیلئے رابطہ کیا۔ ڈپٹی کمشنر کی سفارش پر انہیں۲۰۱۱ء میں اسٹیل اتھارٹی آف انڈیا لمیٹڈ کی مدد سے بارانگا اتکرامِت ہائی اسکول میں ریاضی کے عارضی استاد کی ملازمت ملی۔ آج بھی ان کی ملازمت مستقل نہیں ہوئی ہے لیکن اپنے پیشے کے تئیں ان کا جذبہ کم نہیں ہوا ہے۔ گلشن نہ صرف پڑھاتے ہیں بلکہ بچوں کے اندر آگے بڑھنے اور زندگی کے چیلنجوں سے لڑنے کا حوصلہ بھی پیدا کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے گاؤں والے انہیں ’حوصلے کا ستون‘ کہتے ہیں اور بچے محبت سے انہیں ’گروجی‘کر پکارتے ہیں۔ 
وہ ہاتھوں کے بغیر پیدا ہوئے، پاؤں سے لکھنا سیکھا، اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور ہر مرحلے میں دوسرے طلبہ سے آگے رہے۔گلشن کہتے ہیں ’’میری زندگی کا واحد مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ معذوری کسی کو خواب پانے سے نہیں روک سکتی۔خاندان نے ساتھ دیا تو انہوں نے اپنی کمزوری کو ہی مقصد بنا لیا اور واپس اپنے گاؤں آکر ان بچوں کو تعلیم دینا شروع کی تعلیم سے محروم تھے۔ وہ چاہتے ہیں کہ کوئی بچہ تعلیم سے محروم نہ رہے۔ بقول گلشن لوہار ’’آج میری کمزوری ہی میری طاقت ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر بچہ تعلیم یافتہ ہو اور خودمختار زندگی گزارے۔‘‘ طلبہ بھی اپنے استاد سے بے حد متاثر ہیں۔ ایک دسویں کلاس کے طالب علم نے بتایا’’گلشن سر بہت اچھا پڑھاتے ہیں۔ اُن کے پڑھانے کے انداز سے کبھی محسوس نہیں ہوتا کہ وہ معذور ہیں۔ اُن کے کانسپٹ بہت واضح ہیں اور وہ ریاضی بہت آسان بنا دیتے ہیں۔ وہ بار بار سوال پوچھنے پر بھی ناراض نہیں ہوتے۔‘‘ ساتھی اساتذہ بھی گلشن کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ ان کی ایک کولیگ سنیتا کانتھ نے کہاکہ ’’گلشن سر کی جسمانی حالت ہماری جیسی نہیں، مگر اس کے باوجود وہ ہم سے بہت آگے ہیں۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK