تی امتحانات وقت کی ضرورت بن گئے ہیں ، میڈیکل ہو یا انجینئرنگ، بارہویں کے بعداعلیٰ تعلیم کے لئے بیشتر شعبوں میں داخلہ امتحانات لازمی ہوگئےہیں۔
EPAPER
Updated: September 27, 2023, 12:29 PM IST | Jabeen Irshad Makandar | Mumbai
تی امتحانات وقت کی ضرورت بن گئے ہیں ، میڈیکل ہو یا انجینئرنگ، بارہویں کے بعداعلیٰ تعلیم کے لئے بیشتر شعبوں میں داخلہ امتحانات لازمی ہوگئےہیں۔
مقابلہ جاتی امتحانات وقت کی ضرورت بن گئے ہیں ، میڈیکل ہو یا انجینئرنگ، بارہویں کے بعداعلیٰ تعلیم کے لئے بیشتر شعبوں میں داخلہ امتحانات لازمی ہوگئےہیں۔ جے ای ای مین، نیٖٹ وغیرہ سے تو آپ واقف ہی ہوں گے۔ ان مقابلہ جاتی امتحانا ت کی پہلی سیڑھی اسکولی سطح کے جماعت پنجم اور ہشتم کے اسکالرشپ امتحان ہیں ۔ آج کے اس مقابلہ جاتی دور میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے طلبہ کا ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی طور سے مضبوط ہونا بھی ضروری ہو گیا ہے۔ کیونکہ اس طرح کے امتحانات کی تیاری مہنگی کلاسیز سے کرنا ہربچے کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔ طلبہ ذہین بھی ہوں تو معاشی دشواریوں کی وجہ سے وہ ان مہنگی کلاسیز میں نہیں جا سکتے اور نہ ہی بڑے بڑے کالجز کی بھاری بھرکم فیس ادا کر سکتے ہیں ۔
ایسے میں انہیں اپنے آپ کو ثابت کرنے کے لئے ’کامپیٹیٹو ایگزامز(مقابلہ جاتی امتحان ) بہت مفید ثابت ہو سکتے ہیں ۔ اگر وہ یکسوئی ، دلجمعی اور منصوبہ بندی کے ساتھ تیاری کر لیں تو یقینا وہ اعلیٰ مقام حاصل کرسکتے ہیں ۔ معاشی طور سے پسماندہ طلبہ کیلئے ایم پی ایس سی اور یو پی ایس سی جیسے امتحانات میں کامیاب ہو کر اعلی عہدے پر فائز ہونے کے کئی مثالیں ہم ہمارے سامنے موجود ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں ہم نے دیکھا ہے پان دکان والے، آٹو رکشا چلانے والے ، سبزی کا ٹھیلہ لگانے والوں کے بچے صرف اور صرف اپنی ذہانت کے بل بوتے پر ایم پی ایس سی اور یو پی ایس سی میں کامیابی حاصل کر چکے ہیں ۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ بچے کے پاؤں جھولے میں دیکھے جا سکتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ بچے کا مستقبل بچپن میں ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ایسے مستقبل کی بنیاد بچے کی اسکولی زندگی میں ہی رکھی جاتی ہے، اسلئے اصل امتحان ایک مثالی استاد کا ہے۔ استاد ،استاد ہوتا ہے لیکن مثالی استاد وہ کہلاتا ہے جو ان بچوں کی کامیابی کے لئے عملی اقدام اٹھائے۔ ملک کا کثیر حصہ غربت میں ڈوبا ہوا ہے اس غربت میں رہنے والے غریب بچوں میں کئی بچے ذہین بھی ہے جو تعلیم حا صل کر کے ہی اپنے حالات سے نکل کر ترقی کر سکتے ہیں ۔
اگر معلم اسکولی سطح سے ہی طلبہ میں ’مقابلہ جاتی امتحانات‘ کے تئیں دلچسپی اورلگاؤ بڑھانے کی کوشش کریں تو یقیناً اس میں کامیابی ملے گی۔ ایسا نہیں ہے کہ اساتذہ یہ کام بالکل نہیں کرتے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک بڑی تعداد اس کام کو اپنا مشن بنائے۔ چونکہ’کامپیٹیٹیوایگزام‘ کی پہلی سیڑھی اسکولی سطح پر لئے جانے والےا سکالرشپ امتحانات ہے ، لہٰذا ٹیچروں کو چاہیے کہ ذہین طلبہ کو اس امتحان میں حصہ لینے کی ترغیب دیں ۔ پنجم جماعت کے اسکالرشپ کیلئے چہارم جماعت سے ہی ان کی تیاری شروع کریں اور ہشتم جماعت کے طلبہ کی ہفتم جماعت سے ہی اسکالر امتحان کی تیاری شروع کریں ۔
اسکالرشپ امتحان میں کامیابی کے حصول کے لئے اساتذہ کے تعاون کے ساتھ بچوں کے والدین کا تعاون بھی بہت اہم ہے۔ طلبہ کو کامیاب بنانے کے اس عمل میں استاد کا مقام، رہنما کا ہے۔ والدین کا تعاون اسے رفتار دے گا اور طلبہ کی محنت سے یہ نتیجہ خیز بنے گا۔
(مضمون نگارمعلمہ ہیں اورغیبن شاہ نگر میونسپل اردو اسکول کرلا سے وابستہ ہیں۔)