Inquilab Logo

تعلیم کو ترجیحات میں شامل کرکے ہی موجودہ چیلنجزکا مقابلہ کیا جاسکتا ہے

Updated: August 04, 2022, 12:29 PM IST | Agency | Qutbuddin Shahid

جامعہ محمدیہ منصورہ کے اہم رکن راشد مختار کے مطابق آج کے مسابقتی دور میں صرف تعلیم سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ معیاری تعلیم حاصل کرنا ہوگا

Qutbuddin Shahid (member of the revolution) and Rashid Mukhtar, Secretary of Maulana Mukhtar Ahmed Nadvi Technical Campus, Malegaon..Picture:INN
قطب الدین شاہد (رکن انقلاب) اورمولانا مختار احمد ندوی ٹیکنیکل کیمپس، مالیگاؤں کے سیکریٹری راشد مختار ۔ تصویر:آئی این این

تعلیم نامہ کے اس سیشن میں آج ہم تعلیم اور سماج پر پڑنے والے تعلیم کے اثرات کا جائزہ لیں گے ۔تعلیم کے حصول میں کیا کیا دشواریاں پیش آتی ہیں؟ اور  ان دشواریوں پرکس طرح قابو پایا جاسکتا ہے؟  اس موضوع پر گفتگو کریں گے۔  علاوہ ازیں  ڈگری اور تعلیم کے فرق پر بھی ہم اپنے مہمان کی رائے جاننا چاہیں گے۔ آج کے ہمارے مہمان ہیں ہندوستان کے معروف تعلیمی ادارے  جامعہ محمدیہ منصورہ کے تحت جاری مولانا مختار احمد ندوی ٹیکنیکل کیمپس، مالیگاؤں کے سیکریٹری راشد مختار صاحب۔ مالیگاؤں کے علاوہ بنگلور اور مئو میںبھی  اس ادارے کی شاخیں قائم ہیں جہاں تعلیم کا بہت معیاری نظم ہے۔    راشد مختار  اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، عصری  اور دینی تعلیم پر  اچھی دسترس رکھتے ہیں اور ان سے بھی زیادہ اہم یہ کہ ایک ایسے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں ہم مولانا مختار احمد ندوی کے نام سے جانتے ہیں۔
 راشد صاحب! سب سے پہلے ہم آپ سے یہ جاننا چاہیں گے کہ ہماری قوم آج جن تعلیمی مسائل سے جوجھ رہی ہے، اس کا بنیادی حل کیا ہے؟ 
راشد مختار:  ہم جنہیں مسائل کہہ رہے ہیں، بنیادی طور پر وہ مسائل ہی نہیں ہیں بلکہ ہماری عدم توجہی کا نتیجہ ہیں۔  یہ ایک سچائی ہے کہ ہماری قوم نے تعلیم کو اپنی ترجیحات میں شامل ہی نہیں کیا ہے۔کاروبار ہو، شادیاں ہوں،اپنی اپنی بساط کے مطابق ٹو وہیلر اور فور وہیلر گاڑیوں کی خریداری ہو، شاپنگ ہو یا پھر تفریحی پروگرام ہو۔ان سب کا نظم ہوجاتا ہے لیکن جب بات تعلیم کی آتی ہے تو ہم معاشی مسائل کا رونا روتے ہوئے تعلیم ترک کرنے جواز پیدا کر لیتے  ہیں۔سچر کمیٹی کی رپورٹ کے علاوہ بہت ساری ملّی اور سماجی تنظیموں کی رپورٹ میں بھی یہ بات سامنے آچکی ہے کہ ملک میں ہماری تعلیمی صورتحال کیا ہے؟ اور اس کی وجوہات کیا ہیں؟ اسلئے اس پر بہت کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلاشبہ اس تعلق سے کچھ جائز وجوہات بھی ہیں کہ کوالیٹی ایجوکیشن کاحصول آسان نہیں ہے، یہ بہت مہنگی ہوچکی ہے اور ہرکس و ناکس کی وہاں تک پہنچ نہیں ہے۔ یقیناً ہماری قوم کے سامنے اس طرح کے چیلنجز تو ہیں ،اس کے باوجود میں کہوں گا کہ اگر ہم تعلیم کو اپنی ترجیحات میں شامل کرلیں تو ہر طرح کے چیلنجز کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کیلئے قوم میں بیداری کا عمل تیز کرنے کی ضرورت ہے اور میرے خیال سے یہی اس مسئلے کا بنیادی حل  ہے۔
 تعلیم کو روزگار اور رزق سے جوڑ کر دیکھنا کیسا ہے؟ کیا یہ تصور اسلامی فکر کے خلاف نہیں ہے؟
راشد مختار: تعلیم کو روزگار اور رزق سے جوڑ کر قطعی نہیں دیکھنا چاہئے۔ یہ تو ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ رزق اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ہمارے  لئےلکھ رکھی ہے۔ ہمارے آس پاس ایسے بہت لوگ ہیں جنہوں نے کوئی روایتی تعلیم حاصل نہیں کی، ان کے پاس کوئی پروفیشنل ڈگری نہیں ہے ، وہ کسی تعلیمی ادارے کے فارغ التحصیل نہیں ہیں لیکن ان کی اچھی خاصی آمدنی ہے اور خاصے بڑے کاروبار کے مالک ہیں۔ یہ تصور ہمارے یہاں عام ہے کہ لڑکا پہلے تعلیم مکمل کرے، ملازمت حاصل کرے، کمائے پھرشادی کرے جبکہ اسلامی تصور یہ ہے کہ اگر آپ کو اپنا رزق بڑھانا ہے تو آپ شادی کرلیں، آپ کے رزق میں اضافہ ہوجائے گا۔ جن سے آپ شادی کریں گے، اللہ تعالیٰ نے ان کے حصے میں بھی رزق لکھا ہوگا، اسی طرح اس جوڑے سے جو اولاد ہوگی، اللہ تعالیٰ نے اس کے رزق کا بھی انتظام کیا ہوگا۔ مطلب یہ کہ اگر آپ شادی کریں گے تو وہ سارا رزق ،آپ کے ذریعہ سے آئے گا۔یہ ہمارے ایمان کی کمزوری ہےکہ ہم اسے قبول نہیں کرپارہے ہیں۔
تعلیم کا نظم کم و بیش ہر جگہ موجود ہے، لوگ  حاصل بھی کررہے ہیں لیکن جب بات معیاری تعلیم کی آتی ہے تو اس کیلئے گنے چنے اداروں ہی کے نام آتے ہیں۔ انہیں میں ایک نام جامعہ محمدیہ منصورہ کا بھی ہے۔ ہم آپ سے جاننا چاہیں گے کہ منصورہ میں تعلیم اور معیاری تعلیم کے تعلق سے کیا کچھ ہورہا ہے؟
راشد مختار:منصورہ  کا یہ اصول اول دن سے رہا ہے کہ اس نے تعداد سے زیادہ معیار پر توجہ دی ہے۔ دراصل یہ ہمارا دینی فریضہ بھی ہے کہ ایک مسلمان جو  بھی کام کرے، وہ احسن اور بہتر انداز میں کرے تاکہ آپ کا کام ، آپ کی پہچان بنے۔تعلیم میں معیار بہت ضروری ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آج کے مسابقتی دور میں صرف تعلیم حاصل کرنے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ معیاری تعلیم  حاصل کرنا ہوگا   ۔  اگرکہیں ایسانہیں ہے تو اس کی وجہ معیاری اساتذہ کا فقدان ہے۔معیاری اساتذہ کے بغیر معیاری تعلیم ممکن نہیں ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے یہاں خوبصورت عمارت،بہترین فرنیچر، اچھا لیب اور ایئرکنڈیشنڈ کلاس رومس کو یعنی انفراسٹرکچر ہی کو ’کوالیٹی ایجوکیشن‘ تسلیم کرلیا گیا ہے۔اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انفراسٹرکچر سے تعلیم کے معیار میں بہتری نہیں آتی لیکن  سچائی یہ ہے کہ تعلیم  ایک ٹیچر سے ایک اسٹوڈنٹ  میں علم کی منتقلی کا نام ہے اور ہم نے اسی پر زیادہ فوکس کیا ہے۔ الحمدللہ آج ہمارے کیمپس میں اپنی خدمات انجام دینے والے بیشتر اساتذہ  کا تعلق ملک کے مایہ ناز تعلیمی اداروں سے ہے، جن میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ اسلامیہ کانام سرفہرست ہے۔
آپ نے معیاری تعلیم کیلئے معیاری اساتذہ کی تقرری کو لازمی قرار دیا ہے  لیکن کہا جاتا ہے کہ اس کیلئے ہماری قوم کا وہ رجحان آڑے آتا ہے جس میں ہم نے مفت یا رعایتی شرح پر تعلیم حاصل کرنے کو اپنا حق سمجھ لیا ہے۔ کیا یہ درست ہے؟
راشد مختار: ہاں! یہ بات درست ہے۔ ہمارے یہاں یہ رجحان عام ہے۔ دراصل انسان میں جب غیرت ہوتی ہے تو وہ اس طرح کے معاملات سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے یہاں اگر کوئی تعلیمی ادارہ ، خاص کر اعلیٰ تعلیم   سے متعلق کوئی ادارہ کھولتا ہے تو لوگ پہلے ہی سے اس سے اس بات کی توقع کرلیتے ہیں کہ یہاں ان کیلئے اب آسانیاں ہی آسانیاں ہوںگی۔یہ آسانیاں طلب کرنے کا معاملہ ان کے مزاج کا حصہ ہوتا ہے اور یہ یوں ہی ان کے مزاج کا حصہ نہیں بن جاتا ہے بلکہ ان کی پرورش ہی اسی نہج پر ہوتی ہے۔ اس پرہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK