بیٹی وہ نعمت ہے وہ رحمت ہے جب حضرت فاطمہؓ تشریف لاتی تھیں تو اللہ کے محبوب بھی استقبال کے لئےکھڑے ہوجاتے تھےکہ’’میری بیٹی آئی ہے ۔‘‘ بیٹی وہ پھول ہے جو ہر باغ میں نہیں کھِلتا۔باپ کا درد سمجھتی ہے، ماں کے آنسو پونچھتی ہے ، بھائی کے دکھ لے کر اُن پر اپنے سُکھ لٹادیتی ہے۔
بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے اور ترقی کے لئے ان کی ہمت بڑھائیں۔
’دین اسلام میں جو رتبہ عورت کا ہے کسی اور مذہب میں نہیں۔ زمانۂ جاہلیت میں بیٹی کا پیداہونا باعثِ شرمندگی سمجھا جاتا تھا اور بیٹیوں کو زندہ درگور کردیاجاتا تھا۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمدؐنے دینِ حق کی تبلیغ شروع کی اور لوگوں کو بیٹی کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کیا اور اسے رحمت قراردیا۔
آج بھی جاہل لوگوں کا یہ حال ہے کہ بیٹی کی آمد کو خوشگوار نہیں سمجھتے ہیں بلکہ اس پر رنجیدہ ہوجاتے ہیں اور خوش ہونے کے بجائے باقاعدہ افسوس کا اظہار کرتے ہیں ۔ بیٹی کو رحمت کے بجائے زحمت اور بوجھ سمجھتے ہیں۔ بیٹیوں کو ہر معاملے میں بیٹوں سے کمتر سمجھا جاتا ہے یہ کہہ کر کہ بیٹیوں کو آگے جاکر گھر کے کام کاج ہی کرنے ہیں ۔ ان کے لئے تعلیم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں ان کا لباس اور دیگر ضروریات زندگی میں بھی لڑکیوں کے بجائے لڑکوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے اوراِس بات پر بلاوجہ تکبر اور غرور نہیں کرنا چاہئے کہ اللہ نے انہیں بیٹا دیا ہے یہ تواللہ کی دین ہے کسے لڑکے یا لڑکی کی آمد انسان کی اپنی پسند یا ناپسند نہیں ہوتی بلکہ صِرف اور صرف اللہ کی پسند ہوتی ہے اور پھر جو اجر اور ثواب لڑکیوں کی پرورش اوراس کے ساتھ حُسن سلوک میں ہے وہ لڑکوں کی پرورش میں نہیں، لڑکوں کی پرورش میں انسان کی اپنی غرض شامل ہوتی ہےکہ بیٹا بڑا ہوکر بڑھاپے کا سہارا بنے گا، لڑکیوں کے کئی روپ، خوبیاں اور ذمہ داریاں ہوتی ہیں وہ اپنے گھر میں والدین اور بھائی بہن کی خدمت کرتی ہے۔ اُن کے سارے کام بخوبی اور خوش اسلوبی سے انجام دیتی ہیں، شادی کے بعد شوہر اور سسرال والوں کی ذمے داری نبھاتی ہیں پھر ماں بن کر اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہیں ۔ اُن کی ذمے داری بھی بخوبی نبھاتی ہیں ۔ وہ ذمہ داری اور وفا کا پیکر ہوتی ہیں۔ بے شک بیٹا اللہ کی نعمت ہوتا ہے لیکن بیٹیاں، رحمت، الفت، عظمت وغیرت ہوتی ہیں۔ والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہیں۔ ماں کی پرچھائیں اور باپ کا خواب ہوتی ہیںوہ بیٹی ہی نہیں بلکہ والدین کی جان ہوتی ہیں۔
بیٹی وہ نعمت ہے وہ رحمت ہے جب حضرت فاطمہؓ تشریف لاتی تھیں تو اللہ کے محبوب بھی استقبال کے لئےکھڑے ہوجاتے تھےکہ’’میری بیٹی آئی ہے ۔‘‘ بیٹی وہ پھول ہے جو ہر باغ میں نہیں کھِلتا۔باپ کا درد سمجھتی ہے، ماں کے آنسو پونچھتی ہے ، بھائی کے دکھ لے کر اُن پر اپنے سُکھ لٹادیتی ہے۔یہ بیٹیاں بھی ماں جیسی ہی ہوتی ہیں۔ بیٹے نعمت ہیں اور نعمتوں کا حساب لیاجائے گا، بیٹیاں رحمت ہیں ان کاکوئی حساب نہیں۔ ‘‘بیٹے آج ہیں تو بیٹیاں آنے والا کل ہیں۔‘‘ضروری نہیں کہ اُجالا صرف چراغوں سے ہوں۔ بیٹیاں جن گھر میں بھی ہوں اُجالاکردیتی ہیں۔ ایک باپ اپنا سب سے قیمتی ٹکڑا پرائے ہاتھ میں دے دیتا ہے ہر لوگ کہتے ہیں کہ شادی میں باپ نے دیا کیا ہے!جو انسان بیٹی کی پیدائش پر دکھ منارہا ہوتا ہے وہ شاید یہ بھول جاتا ہے کہ وہ بھی کسی بیٹی کے ذریعے اس دنیا میں آیا ہے۔ ہم سب کو بیٹیاں بہت پیاری ہوتی ہیں لیکن ایک کڑوی سچائی یہ بھی ہے کہ اسے شادی کرکے سسرال جانا پڑتا ہے اور وہاں پوری ذمہ د اری نبھانی پڑتی ہے اور وہ اسے بخوبی نبھاتی بھی ہے۔ اس لئے بیٹیوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ گھر کی ذمے داری ، پکوان، صفائی وغیرہ سے بھی روشناس کروانا چاہئے۔ اگرہم اپنی بیٹیوں کو اچھے اخلاق، اچھی عادتیں اور ذمے داریوں کا تحفہ جہیز میں دیں گے تو وہ غیرت پائے گی، سسرال والے اس کے کامو ںسے ، اس کی ذمہ داریوں سے، اس کے اخلاق سے خوش ہوکر اُس کی عزت واحترام کریں گے۔
ماں بیٹی کی دوست ہوتی ہے ، بیٹی اپنی ہر مشکل ، مسائل، تکالیف کو اپنی ماں کے سامنے رکھتی ہے اور ماں ہی وہ واحد ہستی ہے جو اپنے بچوں کے دکھ ، سکھ کا سہارا ہوتی ہیں۔اپنے بچوں کے مسائل کو بخوبی سن کر سمجھتی ہے اوراسے حل کرلیتی ہے ۔ بیٹی کو ایسی تعلیم دیں کہ وہ سسرال میں اپنے آپ کو اچھے اور بُرے حالات میں ڈھال سکے۔کیونکہ سسرال میں ہر ایک کی عادات اور رہن سہن کا طریقہ مختلف ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے کوشش کرکے اپنے آپ کو ڈھالنے یا ایڈجسٹ کرنے سے سسرال والے اُسے بہو کے بجائے بیٹی ماننے پر مجبور ہوجائیں گے اوراس کی دل سے عزت کریں گے۔
’’بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم اور آگے ترقی کرنے کے لئے ان کی حوصلہ شکنی کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ ان پر طعنہ زنی نہ کریں کیونکہ اس سے اُن کا حوصلہ پست ہوجاتا ہے اور وہ آگے بڑھ نہیں پاتیں ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی کریں ، ان کی ہمت بڑھائیں تاکہ ہ اپنے والدین ، خاندان اور معاشرے میں اپنا نام روشن کرسکیں۔ انہیں ایسی تعلیم دلوائیں اوراسکول میں غیرنصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی صلاح دیں تاکہ معاشرے میںہونے والی برائیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکیں، اچھے ، بُرے حالات میں اپنی حفاظت اور دفاع کرسکیں۔