Inquilab Logo

ایم پی ایس سی میں کامیابی حاصل کرنے والی شولاپور کی باگوان ثمینہ سےخصوصی بات چیت

Updated: June 24, 2020, 1:23 PM IST | Shaikh Akhlaque Ahmed

ایم پی ایس سی امتحان میں کامیابی حاصل کرکے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف اسٹیٹ ایکسائز بننے والی شولاپور کی باگوان ثمینہ سےخصوصی بات چیت

Samina Bagwan - Pic : Inquilab
ثمینہ باگوان ۔ تصویر : انقلاب

  ایم پی ایس سی ۲۰۱۹ء میں کامیاب ہونے والے ۴؍مسلم امیدواروں  میں شولاپور ضلع کی باگوان ثمینہ بانو عبدالرزاق بھی شامل ہیں۔ انہوں نے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف اسٹیٹ ایکسائز کا عہدہ حاصل کیا ہے۔  باگوان ثمینہ کا آبائی وطن شولاپور سے تقریباً ۴۰؍ کلو میٹر دور بھنڈار کووٹھے نامی چھوٹا سا دیہات ہے۔ ثمینہ کی ابتدائی تعلیم جماعت اول تا ششم ضلع پریشد مراٹھی اسکول بھنڈار کووٹھے میں  ہوئی۔ ان کے والد نے ثمینہ کی طبیعت کے لاابالی پن اور عدم دلچسپی کو پڑھائی کی کمزوری جانا اور انہیں آگے کی تعلیم حاصل کیلئے ان کے ننہیال بھیج دیا۔ اس طرح ساتویں سے دسویں تک کی پڑھائی منگل ویڈھا پرائیوٹ ایڈیڈ انگلش اسکول، منگل ویڈھا میں نانا نانی کے زیرسایہ ہوئی۔ ثمینہ نے بات چیت کے آغاز میں بتایا کہ ’’ یہاں پڑھائی میں میری دلچسپی بڑھی اور نتائج بہتر آنے لگے جس کی پہلی وجہ تو یہ تھی کہ جس اسکول میں میرا داخلہ ہوا، وہاں ہمارے خاندان کا اکیڈمک ریکارڈ بہت اچھا تھا، اس بات نے میرے اندر پڑھنے کی امنگ جگائی۔ دوسری وجہ نانا نانی کی شفقت اور خالہ، ماموں کی رہنمائی ان تمام چیزوں نے حوصلہ بڑھایا۔ والد صاحب بھی مراٹھی میڈیم اسکول میں ٹیچر ہیں۔  لہٰذا گھر اور رشتہ داروں  میں تعلیم کا ماحول تھا، میں نے پڑھائی میں  دلچسپی لی اور دسویں میں ۸۹ء۷۷؍ فیصد مارکس حاصل ہوئے ۔‘‘ 
 ثمینہ میڈیکل فیلڈ میںکریئر بنانے کی متمنی تھیں، اسلئے انہوں نے سنگمنیشور کالج میں گیارہویں سائنس میں داخلہ لیا اور بارہویں  ۸۷؍ فی صد مارکس سے کامیاب ہوئیں۔  انٹرنس امتحان میں چند نمبرات کم آنے کی وجہ سے ان کا داخلہ ایم بی بی ایس میں نہیں ہوسکا۔ انہوں نے کہا: ’’میں رِپیٹ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ باوجود محنت و مشقت کے محض چند مارکس کی کمی سے  اپنے خواب کو پورا کرنے کا موقع نہیں  ملا۔با دل ناخوا ستہ میں نےبی اے ایم ایس کا رخ کیا اور گورنمنٹ سیٹ پر  وسنت دادا پاٹل آیوروید کالج سانگلی میں میرا داخلہ  ہوا۔ انٹرن شپ کے دوران بھی کسی چیز کی کمی اور ایک عجیب سی خلش کا  احساس ہوتا تھا۔ اسی دوران سانگلی راجمتی بھون میں ایک تہنیتی جلسہ میں شرکت کی جہاں  فاروق نائیک واڑی صاحب کی کتاب کا اجراء اور ’کریئر اِن سول سروسیز‘ اس عنوان پر ایک تفصیلی لیکچر بھی ہوا تھا۔ مقابلہ جاتی امتحانات کیا ہوتے ہیں انہیں جاننے کیلئے  میں نے انٹرنس امتحان بھی دیا۔ اسی دوران ’اسٹیل فریم انڈیا‘ کا اشتہار میری نظروں سے گزرا جس کا تذکرہ فاروق سر سے میں سن چکی تھی لہٰذا میں نے اس امتحان کو دینے کا فیصلہ کیا۔ خدا کا کرم ہوا اور میں  امتحان میں کامیاب ہوئی۔ میرٹ کی بنیاد پر مجھے مفت کوچنگ کا موقع مل گیا۔‘‘ ثمینہ باگوان کے بقول: ـ’’ مفت کوچنگ کا موقع تو مل گیا لیکن بڑا مسئلہ یہ تھا کہ میں کس طرح یہ بات اپنے گھر والوں کو بتاؤں۔ میں  میڈیکل فیلڈ  کے سرٹیفکیٹ کورسیزکا  بہانہ بناکر پونے چلی آئی، چونکہ یہ کورسیز پونے ہی میں ہو تے ہیں اور اسٹیل فریم انڈیا کا کو چنگ سینٹر بھی یہیں  ہے،اس طرح گھر والوں کے علم میں لائے بغیر میں نے اسٹیل فریم انڈیا کی کوچنگ جوائن کی اور مہاراشٹر پبلک سروس کمیشن امتحان (ایم پی ایس سی) کی پڑھائی شروع کردی۔ تعلیمی اخراجات پورے کرنے کیلئے میں نے ایک اسپتال میں ملازمت اختیار کی۔ پريلیم امتحان دیا اور پہلی ہی کوشش میں کامیاب ہوگئی ۔ ایم بی بی ایس میں داخلہ نہ ہونے کی وجہ سے زندگی میں جو خلاء سا محسوس ہورہا تھا اب وہ اس صورت میں پُر ہوتا نظر آرہا تھا۔ میرا  کانفیڈنس بڑھ گیا۔  اسی دوران یہ بات گھر والوں کو بتائی، وہ کہنے لگے کہ اسٹیٹ /سول سروسیز کے امتحان میں بہت زیادہ وقت لگتا ہے اور کامیابی کا  امکان بھی بہت کم ہوتا ہے، خدانخواستہ تم امتحان کامیاب نہیں کر پائیں تو میڈیکل کی پڑھائی بھی بھول جاؤں گی۔ بہرحال پہلی کوشش میں امتحان کامیاب کرنے کے بعد میراخود پر بھروسہ بڑھ گیا تھا۔ میں نے گھر والوں سے  دو سال کا وقت مانگا اور۲۰۱۳ء  سے۲۰۱۵ء کے درمیان مختلف امتحان  دیئے۔ کامیابی ملی لیکن جو پوسٹ چاہتی تھی وہ اب بھی مجھ سے دور تھی۔  مجھے ڈر لگنے لگا اور پھر میں نے پلان بی کے تحت پہلے، جاب سیکیور کرنے کو ترجیح دیتے ہوئے ۲۰۱۶ء میں ایک امتحان کامیاب کرنے کے بعد منترالیہ میں ’گروپ بی‘ کی ایک ملازمت جوائن کرلی اور یہاں فائنانس شعبہ میں اسسٹنٹ سیکشن آفیسر بن گئی۔ اسکے باوجود میں نے دوبارہ  ایم پی ایس سی کی تیاری شروع کی۔‘‘
  ایک سوال کے جواب میں ثمینہ نے بتایا کہ: ’’جاب کرتے ہوئے پڑھائی کیلئے  وقت نکالنا خاصا مشکل تھا مگر  پونے میں ایم پی ایس سی کی میری بیسک پڑھائی ہو چکی تھی، ساتھ ہی امتحان کی تیاری کے طریقہ کار سے اچھی طرح واقفیت تھی کہ کیا پڑھنا ہے اور کیا نہیں پڑھنا ہے اس لئے یہ مشکل آسان ہوگئی۔ دراصل جب آپ مثبت رویہ اختیار کرتے ہیں تو قدرت بھی آپ کا ساتھ دیتی ہے۔ ایسا ہوتا ہے کہ آپ فل ٹائم تیاری میں۱۰؍سے۱۲؍ گھنٹوں میں جو کام نہیں کر پاتے وہ ۵؍ سے ۶؍ گھنٹوں میں اچھے نتائج کےساتھ مکمل ہو جاتا ہے،  لہٰذا میں نے ’اسمارٹ ورک‘ کے ساتھ دلجمعی سے تیاری شروع کر دی۔ اس طرح   پرلیم جو لائی ۲۰۱۹ء میں کلیئر کیا، اس کے بعد  مین  امتحان دیا اور۲۰۲۰ء میں انٹرویو۔ الحمدللہ،یکے بعد دیگرے ہر مرحلہ سے بآسانی گزرتی گئی اور اب میرا تقرر بطور ریاستی ایکسائز نائب سپرٹنڈنٹ گروپ   بی میں ہوا ہے۔ اگرچہ یہ میری ڈریم پوسٹ نہیں  ہے لیکن میں خوش ہوں کہ ترقی کا یہ گراف بتدریج بڑھ رہا ہے ۔ مزید بہتر عہدہ کیلئے ان شاء اللہ پھر امتحان دونگی۔‘‘ 
 نجی زندگی سے متعلق ثمینہ کا کہنا ہے کہ  ۲۰۱۵ء میں اُن کی شادی ہوئی۔    اُن کے شوہر بینک آف مہاراشٹر میں منیجر ہیں۔ شادی کے بعد انہوں نے اپنے شوہر سے ایم پی ایس سی کی تیاری کی خواہش ظاہر کی جو نامنظور نہیں ہوئی۔ ثمینہ کے بقول: ’’ انہوں نے اور میرے سسرال والوں نے تب سے اب تک قدم بہ  قدم میرا ساتھ دیاہے۔ ‘‘ 
 میں طلبہ کو یہی پیغام دینا چاہوں گی کہ  اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں شہرت عزت، شناخت، تنخواہ  اور سب سے بڑھ کر قوم و ملت کی خدمت کا موقع ملتا ہے۔  آپ گھر بیٹھ کر اور کوئی کو چنگ سینٹر جوائن کر کے بھی اس کی تیاری کر سکتے ہیں۔ یہ محنت طلب ضرور ہے مگر یکسوئی اور مستقل مزاجی سے کامیابی کی راہ ہموار کی جاسکتی  ہے۔ وہ کامیابی کوئی معنی نہیں رکھتی جو آسانی سے مل جائے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK