Inquilab Logo

کاروبارکو کامیاب بنانا ہو تویہ باتیں مفید و کارآمد ثابت ہوں گی

Updated: January 13, 2020, 4:59 PM IST | M. A. Ahmed / Shaikh Nouman

 کاروبار یا تجارت کی دنیا میں قدم رکھنے کے متمنی افراد  کے ذہن میں کئی سوال ہوتے ہیں جن میں سب سے بڑا سوال یہ ہوتا ہے کہ ’’ کون سا کاروبار کامیاب رہے گا اور کون سا ناکام؟‘‘ اس سوال کا جواب کینیڈا کے ایک سرمایہ کار اور بزنس ماہر ریان ہومز کے ایک بلاگ میں کچھ یوں ہے کہ:  ’’ ایک کامیاب کاروباری بننے کیلئے کسی خاص ڈگری کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ آپ کو صرف ایک نسخے کی ضرورت ہوتی ہے جس سے آپ یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ آپ کا کسی منصوبہ یا کاروبار میں پیسہ لگانا فائدہ مند ثابت ہو گا یا نہیں۔‘‘ 

علامتی تصویر۔ تصویر: پی ٹی آئی
علامتی تصویر۔ تصویر: پی ٹی آئی

 کاروبار یا تجارت کی دنیا میں قدم رکھنے کے متمنی افراد  کے ذہن میں کئی سوال ہوتے ہیں جن میں سب سے بڑا سوال یہ ہوتا ہے کہ ’’ کون سا کاروبار کامیاب رہے گا اور کون سا ناکام؟‘‘ اس سوال کا جواب کینیڈا کے ایک سرمایہ کار اور بزنس ماہر ریان ہومز کے ایک بلاگ میں کچھ یوں ہے کہ:  ’’ ایک کامیاب کاروباری بننے کیلئے کسی خاص ڈگری کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ آپ کو صرف ایک نسخے کی ضرورت ہوتی ہے جس سے آپ یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ آپ کا کسی منصوبہ یا کاروبار میں پیسہ لگانا فائدہ مند ثابت ہو گا یا نہیں۔‘‘ 
کاروبارکیلئے منفرد فارمولہ
 ریان ہومز نے اپنے بلاگ میں کاروبار کامیاب ہوگا یا نہیں  اس کیلئے ’ٹرپل ٹی فارمولہ‘ دیا ہے۔
ٹیلنٹ :  اچھے کاروباری آئیڈیا آپ کو ہر جگہ مل جائیں گے لیکن ان آئیڈیاز پر عمل کرنے والے باصلاحیت لوگ لاکھوں میں ایک ہوتے ہیں۔ ہومز اپنے بلاگ میں لکھتے ہیں کسی بھی کاروبار کا تخمینہ کرنے سے پہلے میں اس کے باس اور ٹیم کو دیکھتا ہوں میرے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کاروبار کے لئے سنجیدہ بھی ہیں یا نہیں۔ کیونکہ کاروبار میں سب سے بڑا چیلنج پیسہ لگانے والوں کی رقم کو صفر سے اربوں تک لے جانا ہوتا ہے اور کامیاب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ کاروبار کو پورا وقت دیں اور کام کرنے کا طریقہ بھی الگ ہو۔ان کا کہنا ہے کہ بڑے بڑے کاروباری تمام مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں نہ کہ دوسروں کو اس کے لیے پیسے دے دیتے ہیں۔ اچھا کاروباری تب تک آرام نہیں کرتا جب تک مسائل کا حل نہ نکال لے۔ کسی بھی کمپنی کے مالک کو پر جوش اور جفاکش لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
 ٹیکنالوجی:  ہومز کے بقول ٹیکنالوجی کے بارے میں سب سے پہلے سوچیں اور یہ اس وقت سب سے ضروری ہو جاتی ہے جب آپ کا بزنس آئیڈیا ٹیکنالوجی سے جڑا ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ بہترین طریقہ یہ ہی ہے کہ ایک شخص کو پوری طرح ٹیکنالوجی سے متعلق کام پر لگایا دیا جائے تاکہ اس سے متعلق مسائل کو فوری طور پر حل کیا جا سکے۔ دوسرا کاروبار کی دوسری چیزوں کو دیکھے۔
 لبھانے کا طریقہ یعنی پبلسٹی:کیا آپ کے پاس سرمایہ لگانے والے لوگ یا گاہک ہیں؟ آپ نے کتنا پیسہ کمایا ہے ہومز کا کہنا ہے کہ اگر گپ کے پاس گاہک یا سرمایا لگانے والے ہوں تو یہ بہت اچھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سرمایا لگانے والوں کی توجہ حاصل کرنے کا بہترین منصوبہ ہونا چاہیے جس سے آئیڈیا ان تک پہنچایا جا سکے۔ کاروبار کی کامیابی کے لیے ایسا سافٹ ویئر بنایا جانا چاہیے جو آپ کے پراڈکٹ کو وائرل کر دے یا پھر اس کے اشتہارات پر زور دیا جائے۔ہومز آخر میں کہتے ہیں کہ ٹرپل ٹی کا یہ فارمولہ کامیابی کی ضمانت نہیں مانا جاسکتا ،کئی بار صحیح تکنیک اور اچھی ٹیم کے باوجود بھی کاروبار ناکام ہو جاتے ہیں۔
کاروبار کو کامیاب بنانے میں معاون ۴؍نکات
 بہرحال یہاں ایک اور مضمون سے ماخوذ کچھ اہم نکات پیش کئے جارہے ہیں۔ جس کے مطابق کسی بھی کاروبار کی کامیابی کیلئے سرمایہ کاری، حکمت عملی ، محنت نہایت ہی ضروری ہے۔ اگر آپ اپنے کاروبار کو کامیاب بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو درج ذیل  ۵؍ باتوں کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔ 
 پروڈکٹ کی امتیازی خصوصیت بتائیں:  کامیاب کاروبار کی اس حکمت عملی کے تحت فرم کے پروڈکٹ کو دیگر فرموں کےپروڈکٹ سے ممتاز کیا جاتا ہے۔ صارف کو ا سکی امتیازی خصوصیات پہنچانے کیلئے تشہیر کا سہارا لیا جاتا ہے،تا کہ صارف محسوس کرے کہ پروڈکٹ دیگر پروڈکٹ سے الگ ہے۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے صارف کا اعتماداس پروڈکٹ پر قائم ہو جاتا ہے اور وہ اس پروڈکٹ کی زیادہ قیمت دینے کیلئے تیا ر ہوتا ہے،نیز فرم کے منافع میں اضافہ ہوتا ہے۔
 لاگت پر قابو:  اس حکمت عملی کے تحت کاروباری لاگت کو قابو میں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بہتر ٹیکنالوجی کا استعمال، بہترین پیداواری نظام، سپلائرز سے اچھے تعلقات قائم کرکے چیز اپنے حریف کمپنیوں/اداروں  سے سستی بنائی جاتی ہے۔اس طرح مارکیٹ میں کم قیمت کے باوجود مناسب نفع کما یا جارہا ہوتا ہے۔ 
 ٹارگیٹ کسٹمر:  اس صورت میں کمپنی بجائے پوری مارکیٹ کی ضروریات کو مد نظر رکھنے کے یا تو علاقے کے اعتبار سے کسی خاص مارکیٹ کو ہدف بناتی ہے یا صارفین میں سے کسی خاص طبقے کو ہدف بنا کر ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے، جیسے:ایک مالیاتی ادارہ پورے مارکیٹ میں مقابلہ نہیں کرسکتا تو وہ کسی خاص مارکیٹ جیسے ممبئی یا دہلی کو ہدف بنا سکتا ہے یا پھر صارفین کے حوالے سے چھوٹے اور متوسط تاجروں کو ہدف بنا سکتا ہے۔ اس کے بعد انہی کے حوالے سےپروڈکٹ پیش کروا کر مارکیٹ میں مقابلہ کرسکتا ہے۔
 اسٹرٹیجک پلان: بڑے بڑے شعبہ جات، جیسے: مارکیٹنگ ، پروڈکشن ، مالیات ،افرادی قوت ا ور تحقیق و ترقی کے شعبہ جات، کیلئے وہ حکمت عملی بنانا ہوگی جس سے کاروباری حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانے میں مدد ملے، جیسے: اگر کاروباری حکمت عملی امتیازی پیداوار کی ہے تو پھر شعبہ تحقیق و ترقی کیلئے نیو پروڈکٹ ڈیزائن، مارکیٹنگ کیلئے اس پروڈکٹ کے امتیازی اوصاف کو لے کر ’اگریسیو اسٹرٹیجی‘بنائی جائیگی۔مزید پیداواری شعبے میں نئے پروڈکٹ کی پیداور کیلئے نئے پلانٹ کی انسٹالیشن وغیرہ کو دیکھا جائے گا، شعبہ برائے افرادی قوت اس حوالے سے نئے اسٹاف کی ہائرنگ اور موجودہ کی ٹریننگ کیلئے حکمت عملی بنا ئے گا ۔
ایک اہم بات
  کاروباری معاملات اسلام میں دین،اخلاق سے جدا نہیں ہیں جیسا کہ مغربی فلسفہ میں یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ وہاں کاروبار میںدین یااخلاق کا کو ئی عمل دخل نہیں۔جن اخلاقیات کوکاروباری اخلاقیات سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس میں بھی پیش نظر فرم یا سرمایہ دار کا اپنا نفع کی زیادتی ہے۔ورنہ بنیادی طور پر مغربی فلسفہ میں کاروبار ہر طرح کی رکاوٹوں سے پاک ہے۔لیکن ایک مسلمان کیلئے کاروبار اسکے دین کا حصہ ہے، اسی لیے کسب حلال پر اجر کا وعدہ کیا گیا ہے۔ لہٰذا جب بات آئے گی حکمت عملی بنانے کی تب بھی وہ اسباب کے درجے میں اندرونی ،بیرونی ماحول کا تجزیہ کرے گا۔اپنے ادارے، کاروباری اکائیوں، شعبہ جات کے لیے حکمت عملی بھی بنائے گا، لیکن اس بات کو نہیں بھولے گا کہ اللہ نے اس پر کچھ حقوق رکھے ہیں ، اس کے ساتھ کاروبار کرنے والوں کے بھی،اسکے ملازمین کے،اسکے رسد کنندگان کے صارفین کے بھی جس کے نتیجے میں اس کی حکمت عملی سراسر ہم عصر فرموں سے دشمنی پر مبنی نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح ایک مسلمان تاجر کی حکمت عملی صارف کو گمراہ کرکے منافع حاصل کرنے کی نہیں ہو سکتی۔ اس طرح اس کی حکمت عملی میں سچائی ، امانت داری،ایثار،پورا ناپ تول اور دوسروں کی خیر خواہی، جیسے اچھے اخلاق اس لئے شامل ہوںگے کہ انہی اوصاف کی موجودگی ہی اس کی تجارت کو عبادت کا درجہ دیتی ہے، ورنہ یہی تجارت اس کے لیے دنیا و آخرت کے خسارے کا باعث بن سکتی ہے۔
 لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس بات کو سمجھیں کہ ہماری تجارت ،ہمارے دین سے الگ نہیں ہے،بلکہ دین کا ایک حصہ ہے کیونکہ ہماری زندگی کا ایک بڑا حصہ روزانہ تقریباً ۸؍ سے ۱۰؍ گھنٹے اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ کسب حلال کی تگ و دو میں صرف ہو تا ہے۔لہٰذا ہم نبوی اخلاق، اسلامی تعلیمات کو اپناکر اپنی زندگی کے اس اہم شعبہ کو عبادت بنا سکتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK