خوشی اور غم ہمیشہ سورج کی روشنی کی طرح انسان کے ساتھ رہتے ہیں۔ لمبی زندگی میں، کھٹی اور میٹھی چیزوں کی طرح دونوں کا ذائقہ ہوتا ہے۔ خوشی اور غم ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور اس حقیقت کو آج تک کوئی مٹا نہیں سکا ہے۔ دراصل خوشی سے محبت اور دکھ سے نفرت کی سوچ ہی کئی مسائل کا سبب بنتی ہے اور اسی سے زندگی الجھ جاتی ہے
فیملی ۔ تصویر : آئی این این
دنیا کا ہر فرد خوشی چاہتا ہے۔ کوئی غم نہیں چاہتا ہے۔ وہ غم سے ڈرتا ہے اور اسی وجہ سے دکھ سے نجات حاصل کرنے کے لئے مختلف کوششیں کرتا ہے۔ مطلب ہر فرد غم کو ختم کرنے اور خوشی پیدا کرنے کے لئے ہمیشہ اپنی صلاحیت کے مطابق کوشش کرتا ہے۔ خوشی اور غم ہمیشہ سورج کی روشنی کی طرح انسان کے ساتھ رہتے ہیں۔ لمبی زندگی میں، کھٹی اور میٹھی چیزوں کی طرح دونوں کا ذائقہ ہوتا ہے۔ خوشی اور غم ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور اس حقیقت کو آج تک کوئی مٹا نہیں سکا ہے۔ خوشی اور غم زندگی کو خوبصورت بناتے ہیں۔ اس صورتحال میں خوشی سے محبت اور دکھ سے نفرت کی سوچ ہی کئی مسائل کا سبب بنتی ہے اور اسی سے زندگی الجھ جاتی ہے۔ دونوں حالات کے مابین توازن پیدا کرنے کے لئے ایک مثبت رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ روس کے مشہور مصنف میکسم گورکی نے کہا ہے کہ خوشی جب ہاتھ میں ہوتی ہے تو چھوٹی محسوس ہوتی ہے۔ اسے ایک بار چھوڑ کر دیکھو اور ایک لمحے میں آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ کتنی بڑی اور خاص ہے۔ میکسم گورکی نے انسانی نقطہ نظر کو واضح کرتے ہوئے مزید کہا ہے کہ ناخوش آدمی دوسرے ناخوش شخص کی تلاش میں رہتا ہے۔ اس کے بعد ہی وہ خوش ہوتا ہے۔ یہ تنگ نظریہ انسان کو حقیقی خوشی تک پہنچنے نہیں دیتا ہے جبکہ ہمیں اپنی صلاحیت اور مسرت بخش فطرت کو پہچاننا چاہئے اور اعتماد اور جوش و خروش کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے۔ اسی طرح ہی حقیقی خوشی سے ملاقات ہوگی۔
خوشی کا جذبات بہت ہی انمول ہوتا ہے اس لئے یہ ہر کسی کو اچھی لگتی ہے۔ خوشی ایک ایسی نعمت ہے جس کی ہر ایک کو خواہش ہوتی ہے لیکن یہ کسی کے بھی ہاتھ نہیں آتی۔ خوشی ہوا کا جھونکا ہے جس کے گزر جانے کا احساس تک نہیں ہوتا۔ اچھے دن کب گزر جاتے ہیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا، دوسری جانب غم میں وقت ٹھہرا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ تھکاوٹ کا احساس خوشی کے دنوں میں ممکن نہیں ہے۔ خوشی نرم نرم ریشمی دھاگے کی گانٹھ کی طرح ہے جس کی تلاش ممکن نہیں ہے۔ پوری دنیا خوشی کے لئے دوڑتی ہے۔ خوشی الجھن ہے یا معمہ۔ جہاں دنیا کا ایک خوش انسان زیادہ خوش رہنے کے لئے بھاگتا ہے، وہیں جس کو خوشی نہیں ملتی وہ زندگی بھر خوشی کا انتظار کرتا رہتا ہے۔
خوشی اور غم جڑواں بھائیوں کی طرح ہیں، جو ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں۔ خوشی اور غم ایک ساتھ چلتے رہتے ہیں، لیکن ہماری آنکھوں پر پردے کی وجہ سے ہم اس کا فرق محسوس نہیں کر پاتے خاص طور پر غم کو سمجھ نہیں پاتے۔ انسان مصائب میں اس قدر غمزدہ ہوجاتا ہے کہ اسے چھوٹی چھوٹی خوشی نظر بھی نہیں آتی اور وہ دوسروں سے حسد کی آگ میں جلتا رہتا ہے۔
خوشی کی تعریف ہر شخص کے لئے مختلف ہوتی ہے، جیسے پیسہ غریبوں کے لئے خوشی ہوتی ہے جبکہ امیر کے لئے زیادہ سے زیادہ رقم کمانا خوشی ہے۔ سنگین بیماری میں مبتلا شخص بستر پر لیٹے لیٹے موت کی خواہش کرتا ہے اور نوجوان اچھا شریک حیات اور اپنی کار، بنگلہ اور مادی سہولیات کو خوشی سمجھتا ہے۔ لیکن ان سب کے حصول کے بعد بھی، انسان خوش نہیں ہوتا ہے، اسے محسوس ہوتا ہے کہ جس کے پاس اس سےزیادہ عیش و آرام ہے وہ زیادہ خوش ہے مگر یہ حقیقت نہیں ہے۔
دنیا میں کچھ ایسی مثالیں موجود ہیں جب عام طور پر غمگین دکھائی دینے والے ذہنی طور پر انتہائی خوش ہوتے ہیں۔ جس شخص کے پاس زیادہ پیسہ نہیں ہوتا مگر وہ اپنی حقیقت سے مطمئن ہوتا ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے بہت زیادہ کی خواہش نہ کرو کیونکہ خواہشیں پوری ہونے کے باوجود انسان خوش نہیں ہوتا ہے۔
خوشی اور غم کی کوئی حد نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں اپنے آپ کو انتہائی اداس اور بدقسمت سمجھنا جہالت کی علامت ہے۔ ایک مثال کے ذریعے سمجھئے کہ ایک بیمار انسان اپنی زندگی ۲؍ طریقے سے جی سکتا ہے۔ پہلا طریقہ یہ کہ وہ اپنی بیماری کو قسمت سمجھ کر موت کا انتظار کرتا رہتا ہے۔ دوسرا، اپنی بیماری کو اللہ کی مرضی سمجھ کر اسے بھرپور انداز میں جینے کی کوشش کرتا ہے۔ جتنا وقت اسے میسر ہے وہ اسے بخوشی گزارتا ہے۔ یہ ہمارے اوپر منحصر ہے کہ ہم کس طرح زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
خوشی کے حصول پر انسان کا حتمی مقصد یہ ہے کہ وہ دوسروں کی خوشی کو پسند نہیں کرتا ہے اور وہ دوسروں کی خوشیوں کو اپنی ذات سے زیادہ سمجھتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کی خوشی پھیکی محسوس ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان خوشی کی خواہش میں بلاواسطہ غم کو دعوت دیتا ہے۔
دکھ کو سکھ میں بدلنے کے لئے مثبت سوچ کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ ایک ہی صورتحال اور واقعہ کو دو شخص مختلف نظریے سے دیکھتے ہیں۔ جس کا غور و فکر مثبت ہے، وہ احساس محرومی اور غم کو خوشی میں بدلنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ جس کا خیال منفی ہوتا ہے وہ خوشی کو غم میں بھی بدل دیتا ہے۔ بس، سوچ سوچ کا فرق ہے