Inquilab Logo

لا ک ڈاؤن میں گھر بھر ا ہے بچوں کو نیند نہیں آرہی ہے

Updated: May 21, 2020, 10:41 AM IST | Inquilab Desk

لاک ڈاؤن میں بچے کی ساری سرگرمیاںمعطل ہو گئی ہیں، وہ دن بھر گھر میں کہیں پڑا گیم کھیلتا رہتا ہے، ویڈ یو دیکھتا رہتا ہے،اس درمیان وہ سونے کی کوشش کرتا ہے مگر نیند ہے کہ آتی ہی نہیں ۔ اسی طرح بچےکو را ت میں بھی نیند نہیں آتی ہے، اگر آتی ہے تو شور شرابے سے وہ ڈسٹرب ہو جاتا ہے، باربار اسکی آنکھ کھل جاتی ہے

Children Sleeping - Pic : INN
لاک ڈاؤن میں بچے اسی طرح سو جاتے ہیں ۔ تصویر : آئی این این

لاک ڈاؤن  نے بچوں سے رات کی پر سکون نیند  چھین  لی ہے ۔ دن میں سونے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے ۔ بچے کہیں سونے کی کوشش کرتےہیں تو انہیں کوئی نہ کوئی  جگا دیتا ہے ۔ کبھی بچوں کو جان بو جھ کر جگایا جاتا ہے ، ان کا ہاتھ پکڑ کر  یا آواز لگا کر  بھی جگا یا جاتا ہے ۔ کبھی کبھی بچوں کو گھر میں ہونے والا شور بھی جگادیتا ہے۔ دراصل لاک ڈاؤن میں سب گھر ہی میں رہتےہیں ، بڑوں کے سونے جاگنے کا کوئی وقت  نہیں ہے ۔ عام طور پر وہ رات میں   بلندآواز میں موبائل پر کچھ سنتے ہیں ، خبریں دیکھتے ہیں    یا کچھ نہ کچھ بولتے رہتےہیں۔ پھر دن بھر گہری نیند سوتے ہیں ۔ اُن کے مقابلے  میں بچے رات ہی میں سونا ضروری سمجھتے ہیں  ، حالانکہ گھر والے انہیں دن میں سلانے کی ناکام کوشش کرتےہیں         ۔
  اس ملک گیر   لاک ڈاؤن میں بچے کا رات میں صحیح  طریقے سے نہ سو پانا یا پریشان ہونا عام ہو گیا۔گھریلو آوازیں، غیر صحت بخش خوراک  اوروالدین کا رات دیر تک کھانا نہ کھانا، اس پر یشانی  میں اضافہ کر نے والے چند اسباب ہیں ۔  اسی طرح لاک ڈاؤن میں والدین بھی بچوں پر کچھ زیادہ  ہی نظر رکھ رہے  ہیں۔ جب کبھی وہ اپنے بچے کو خالی بیٹھا دیکھتے ہیں تو پریشان  ہوجاتے ہیں  ۔یہ چیز بچوں کو حساس بنا رہی  ہے اور قدرتی طور پر پریشان  بھی کر رہی ہے ،یہی وجہ ہے کہ  ان کو رات میں نیند نہیں آتی ، وہ پر سکون اور آرام سے رہنے کی عادت کو بھولنے لگے ہیں ۔
  عام دنوں میں بچے صبح اٹھ کر اسکول کی تیاری کر تے تھے پھر  بس پکڑ کر اسکول جاتے تھے  ،اس دوران وہ اس وقت تک  دوڑتے بھاگتے تھے ،  جب تک وہ گھر نہیں لوٹ آتے  تھے ۔ انہیں گھر اور اسکول کہیں بھی سانس لینے کا مو قع نہیں ملتا تھا ۔ وہ گھر  آکر ہو م ورک ختم کر نے کی جلدی میں رہتے  تھے اور جب انہیں کچھ وقت کھیلنے کو ملتا  تھا تو وہ جسمانی اور ذہنی طور پر بہت زیادہ تھک اور اکتا جا تے  تھے ۔ یہ مصروف ترین شیڈول ان کے دماغ اور جسم کو بری طرح تھکا دیتا  تھا ۔  اس طرح کی انہیں بھر پور نیند  آتی تھی  ۔ 
   بچوں کے ماہر نفسیات بھی بتاتےہیں کہ بچہ جتنا تھکا ہوا ہو گا اتنی ہی جلدی سوجائے گا   لیکن   لاک ڈاؤن میں اُس کی ساری سرگرمیاںمعطل ہو گئی ہیں۔ اسے کھیلنے کا موقع نہیں مل رہا ہے۔ وہ چہل قدمی بھی نہیں کررہا ہے ۔ اسکول جانے کیلئے بھی نہیں نکل  رہا ہے ۔   دن بھر گھر میں کہیں پڑا گیم کھیلتا رہتا  ہے، یا موبائل پر ویڈ یو دیکھتا رہتا ہے۔ اس درمیان وہ سونے کی کوشش کرتا ہے ۔ آنکھیں بند بھی کرتا ہے  مگر نیند  ہے کہ اسے آتی ہی نہیں  ۔  اس طرح بچے کو را ت میں بھی نیند نہیں آتی ہے۔ اگر آتی ہے تو  شور شرابے سے وہ  ڈسٹرب ہو  جاتا ہے۔  باربار اسکی آنکھ کھل جاتی ہے   ۔    شورشرا بے کے علاوہ عمر کے حساب سے بھی بچوں کے نہ سونے کے  دوسرے اسباب بھی ہوسکتے ہیں۔
  سوتے میں کچھ بچے مسکراتے ہیں ۔ یہ ان کی عادت ہو تی ہے۔  اسے دیکھ کر والدین مطمئن ہوجاتےہیں اور سوچتے  ہیں  کہ ان کے بچے  اچھی طرح  سو رہے ہیں مگر حقیت یہ ہے کہ کچھ بچے اچھا خواب دیکھنے پر بھی مسکراتے ہیں ۔ جب بچہ بستر پر لیٹ کر آنکھیں بند کر تا ہے، آپ سمجھ لیتے ہیں کہ سوگیا ہے مگر  یہ بچے کا ڈراما بھی ہو سکتا  ہے جو وہ آپ کے ساتھ کررہا ہو تا ہے ۔ اس کا دماغ جاگ رہا ہو تا ہے۔ وہ شاید شعوری طور پر ان آوازوں پر اپنے کان لگا لیتا ہے جو گھر میں ہو نے والی سر گرمیوں سے پیدا ہو رہی ہو تی ہیں ۔ در حقیقت بچہ ان حالات میں لمبے عرصے  تک رہتا ہے  اور آپ کو شک تک نہیں ہو تا  ہے ۔ پھر وہ اس کا عادی ہوجاتا ہے۔  اسی  طرح بچہ جاگ رہا ہے ،اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا  ہے جب اچانک  اس کے آنسو نکلنے لگیں جو اس بات کا اشارہ ہو تا ہےکہ وہ پریشان ہے اور ڈراؤنے خواب دیکھ رہا ہے  یا اسے مچھر یا کھٹمل نے کاٹا ہے یا اس پھر اس کو کو ئی  جسمانی تکلیف ہے ۔اگر بچہ بولنے کی عمرمیں ہو تا ہے تو وہ آپ کو بتا سکتا ہے یا آ پ کو خودہی اس کے اسبا ب تلاش کرنے ہوں گے ۔ اگر صبح کے وقت آپ کا بچہ تھکا ہوا لگے تو اس کا  صاف مطلب یہ ہے کہ  وہ رات کو صحیح  طریقےسے نہیں سو پایا ہے  ۔ اگر یہ سلسلہ کئی راتوں تک چلے توکسی  ڈاکٹر سے رجوع کریں ۔  نو مولود بچہ ۱۵؍ سے ۲۰؍ گھنٹے سو تا  ہے مگر وہ جیسے جیسے بڑا ہو تا ہے سو نے کا وقت خود بخود کم ہونے لگتا ہے اور  اس  وقت آپ کیلئے یہ جاننا مشکل ہو جاتاہے کہ بچہ مقررہ نیند پوری کر رہا ہے یا نہیں ۔ یہ  تبدیلی  آپ کو خوفزدہ کر دیتی ہے  اور پھر آپ بچے پرسو نے کیلئے دباؤ ڈالنے لگتی ہیں  جبکہ ایسا نہیں ہو نا چاہئے۔ رات میں بچے کو سلانے کی کوشش کرنی چاہئے  ۔ اگر دن کے وقت وہ نہیں سورہا ہے تواسے زبردستی نہیں سلا نا چاہئے  بلکہ اطراف کا جائزہ لینا چاہئے کہ آخر بچہ کیوں نہیں سورہا ہے؟ بچہ کمرے  کے درجہ حرارت سے پریشان ہو سکتا ہے ۔ وہ  بھوکا ہو گا تب بھی غیر مطمئن ہو جائے گا ۔ والدین کو چاہئے کہ بچے جو حرکتیں نیند کے دوران کر تے ہیں  ان پر نظر رکھیں ۔ اگر سونے کی جگہ پر تبدیل ہوگی تو اس سے بھی اس کی توجہ متاثر  ہوگی ۔ لا ک ڈاؤن میں بچوں کی نیند کم ہونے کے اسباب تلا ش کیجئے تا کہ چھوٹے بچے عام دنوں میں بھی سکون کی گہری نیند سوسکیں اور   بڑے بچوں کی بھی نیند کا خیال رکھیں۔   ان کے اطراف میں کم از کم رات میں  شور  نہ کریں ۔ دوسروں کو بھی نہ کرنے  دیں  ، ورنہ آپ کا بچہ اس لاک ڈاؤن میں نفسیاتی مریض ہوجائے گا  جس سے اس کی ذہنی نشوونما متاثر ہوگی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK