گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند تحریریں حاضر خدمت ہیں: ترتیب و پیشکش:
EPAPER
Updated: December 15, 2022, 11:36 AM IST | Mumbai
گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند تحریریں حاضر خدمت ہیں: ترتیب و پیشکش:
ماں سے مضبوط تعلق بیٹی کو محفوظ بناتا ہے
ماں بیٹی کا رشتہ بہت ہی اہم ہوتا ہے۔ ماں کی گود بچوں کے لئے پہلا مدرسہ ہوتا ہے اور آج کے دَور میں بیٹیوں کے لئے تو ماں پہلے مدرسے کے ساتھ ساتھ خدا کے بعد سب سے بڑی محافظ ہوتی ہے۔زمانۂ حال میں ماں بیٹی کے آپسی تعلقات ایک دوست کی طرح ہونا چاہئے۔ دوستانہ تعلقات کی وجہ سے بیٹیاں سب سے زیادہ اپنی ماں کے قریب ہوتی ہیں۔ ماں سے قربت کی وجہ سے وہ اسکول و کالج میں ہونے والے تمام واقعات، سہیلیوں اور سوشل میڈیا پر ہونے والی بات چیت اپنی ماں پر ظاہر کرتی ہیں؛ جس کی وجہ سے ماں با خبر ہوتی ہے کہ اس کی بیٹی کو اسکول و کالج میں کیسا ماحول مل رہا ہے، سوشل میڈیا پر بیٹی کے دوست کون ہیں؟ اور کیسے ہیں؟ اس طرح آج کی مائیں اپنی بیٹیوں کی بہتر نگرانی کرسکتی ہیں اور ان کے مستقبل کو لے کر محتاط بھی رہ سکتی ہیں۔ غرضیکہ ماں اور بیٹی کے آپسی تعلقات جتنے پختہ اور مضبوط ہوں گے اتنی ہی محفوظ بیٹیاں ہوں گی۔
ڈاکٹر روحینہ کوثر سید،ناگپور
ماں اپنی بیٹی کی رازداں ہوتی ہے
بیٹیاں عطائے عظیم ہوتی ہیں۔ بیٹا ہو یا بیٹی ماں کے لئے دونوں ہی بہت عزیز ہوتے ہیں بلکہ تھوڑا بڑا ہونے پر ماں بیٹی کی زیادہ فکر کرتی ہے ۔ وہ سوچتی ہے کہ میری بیٹی بڑی ہو کر امور خانہ داری میں اور تعلیم و تربیت میں دینی معاملات اور معلومات میں سب سے بڑھ کر رہے کیونکہ اس کو سسرال جانا ہوتا ہے اور وہاں اس کو اجنبی ماحول ملتا ہے اور جہاں اس کو ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے۔ ماں بیٹی کے باہمی تعلقات کا دارومدار اس بات پر زیادہ منحصر ہوتا ہے کہ ماں اپنی بیٹی کی پرورش کس طرح اور کس انداز سے کرتی ہے۔ دیکھا جائے تو ماں اپنی بیٹی کی رازداں ہوتی ہے۔ بیٹی کے احساسات کو سمجھتی ہے۔ بہت سی مائیں اپنی بیٹی کے خانگی معاملات میں بلا وجہ مخل ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی خانگی زندگی میں آئے دن طوفان برپا ہوتا رہتا ہے اور بہت سی مائیں اپنی بیٹی کو اس طرح کی تعلیم دیتی ہیں کہ اس کا گھر بسار ہے، پھولتا پھلتا رہے اور وہ ہمیشہ شاد رہے۔
نجمہ طلعت، جمال پور، علی گڑھ
ماں بیٹی کا رشته دوست کی طرح ہوتا ہے
ماں اور بیٹی کا رشته بهت سارے خوبصورت احساسات سے جڑا ہوا ہے اور یه رشته اس قدر اہمیت کا حامل ہے که دادی نانی بھی جب اپنی ماؤں کو یاد کرتی ہیں تو ان کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ آج ہم اپنی ماں سے محبت کے دعوے تو بهت کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ بیٹھ کر اور اسے تھوڑا سا وقت دے کر اپنے تعلقات کو بهتر بنانے کی کوشش نهیں کرتے۔ آج کا منظرنامہ یہ ہے کہ بیٹی اپنی پریشانی کا حل موبائل فون پر سرچ کرلیتی ہے لیکن پاس بیٹھی ماں سے نہیں بتاپاتی حالانکہ ماں کے پاس اس سے بہتر حل موجود ہوتا ہے۔ اس کی اصل وجہ ماں سے دوری اور باہمی اعتماد کی کمی ہے۔ بیٹی اپنی بات ماں سے کہنے سے ہچکچاتی ہے ۔ دراصل ماں بیٹی کا رشته دوست کی طرح ہونا چاہئے، کچھ کھٹا میٹھا۔ جنریشن گیپ کی وجه سے اگر کسی بات پر اختلاف ہے تو تمیز کے دائرے میں رہ کر اپنی ماں کو دلیلوں کے ساتھ قائل کرکے ماں بیٹی اپنے رشتے کو بہتر بنا سکتی ہیں۔
عفت احسان، چکیا
ماں کو بیٹی کا دوست ہونا ضروری ہے
بیٹی کی تربیت میں ماں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ چونکہ ماں اپنی بیٹی کی عمر کے سارے ادوار سے واقف ہوتی ہے اسلئے اس کی ذہنی کیفیت کو سمجھتی ہے اور اپنے تجربات کی روشنی میں اسے زمانے کے نشیب و فراز سے آگاہ کراتی ہے۔ ماں کو اپنی بیٹی پر بے جا پابندیاں نہیں لگانی چاہئے، اس پر اعتماد کرکے اس کی جان و عصمت کی حفاظت کے ساتھ اسے کچھ حد تک آزادی دینا چاہئے۔ مائیں اپنی بیٹیوں کو سمجھانے کے لئے ماضی کے ایسے واقعات بھی گوش گزار کرسکتی ہیں جو بیٹیوں کی مثبت رہنمائی کریں ۔ہمارے معاشرے میں اکثر شادی بیاہ کے معاملات میں لڑکی سے پوچھنا تک گوارا نہیں کیا جاتا ۔ یہ رویہ ٹھیک نہیں۔ شادی کے معاملے میں بے شک بیٹی کی مرضی جاننا بھی اہم ہے لیکن مکمل خود مختاری دینا بھی ٹھیک نہیں ۔اگر ماں کے تعلقات بیٹی سے اور بیٹی کے تعلقات ماں سے خوش گوار رہیں تو عجب نہیں کہ دونوں ایکدوسرے کی ہمدرد و رازدار بن جائیں۔
نور رضوی ،لکھنؤ
بیٹی الجھنوں سے آزاد ہوجاتی ہے
حقیقت یہ ہے کہ ماں، اپنی بیٹی کی وہ دوست ہوتی ہے کہ بن کہے اُس کی باتوں کو سمجھ جاتی ہے، چہرے ہی سے اُس کے تاثرات پڑھ لیتی ہے اور ڈاکٹر کی سند کے بغیر ہی مسیحا بن جاتی ہے۔ ہر قدم پر بیٹی کی رہنما،استطاعت سے بڑھ کر اس کی خوشیوں کا خیال بھلا ماں کے سوا کون رکھ سکتا ہے۔ ماں اور بیٹی کے تعلقات اتنے مستحکم اور گہرے ہونے چاہئیں کہ بیٹی اپنے دل کی بات ماں سے بے جھجک کہہ دے۔ کسی اور کو تلاش نہ کرے۔ ماں بیٹی کا جب اتنا گہرا تعلق قائم ہوجاتا ہے تو بیٹی کے ذہن سے یہ الجھن نکل جاتی ہے کہ میں جو کر رہی ہوں وہ غلط ہے یا صحیح، کیونکہ وہ اپنے جذبات اور خیالات اپنی ماں سے بتا کر اس سے رہنمائی حاصل کرلیتی ہے۔ ادب و احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے ماں اور بیٹی کےرشتے جتنے شفیق اور گہرے ہوں گے بیٹیوں کے معاملات اتنے آسان ہوں گے اور وہ اپنے اپنے گھروں میں خوش رہیں گی۔
رونق بنت محبوب ،سمرو باغ بھیونڈی
یہ تعلق مضبوط نہ ہو تو گھٹن ہوتی ہے
یہ بات معروف ہے کہ ماں بیٹی کا رشتہ ماں اور بچے سے زیادہ ایک بہترین دوست کا ہوتا ہے جس سے وہ اپنے دکھ سکھ بانٹتی ہے، اپنی دن بھر کی روداد ماں کو بتائے بغیر چین نہیں پاتی۔ ماں بھی گھریلو معاملات میں بیٹی سے مشورہ لیتی ہے، بیٹی کے چہرے سے غم کے تاثرات پڑھ لیتی ہے، ہر قدم پر اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ اتنا ہی نہیں، گھر کے کاموں میں بھی وہ ایک دوسرے کی مددگار ہوتی ہیں۔ بہت سے گھروں میں ماں اور بیٹی کے درمیان بے تکلفی نہیں ہوتی۔ یا تو بیٹیاں ماؤں کی دوستی میں خوش نہیں ہوتیں یا مائیں ہی بیٹیوں کو دوست نہیں بناتیں جس کی وجہ سے گھر کی فضا میں گھٹن سی رہتی ہے، تناؤ کی کیفیت پائی جاتی ہے اور اس کا اثر بچیوں کی زندگیوں پر پڑتا ہے۔ چنانچہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیٹیوں کو اپنے دل کی بات کہنے کے لئے کوئی ہمدم نہیں ملتا ، وہ اندر ہی اندر کڑھتی رہتی ہیں ۔ اسلئے ایک دائرے میں رہتے ہوئے ماں بیٹی کا تعلق مضبوط ہونا ضروری ہے۔
سحر اسعد، بنارس ،یوپی