Inquilab Logo

خواتین کا عالمی دن منانے کا مقصد کتنا کامیاب؟

Updated: March 13, 2023, 1:05 PM IST | Sakshi Verma | Mumbai

ہر سال ۸؍ مارچ کو عالمی یوم ِ خواتین منایا جاتا ہے جس کا مقصد خواتین کو معاشرے میں مساوی حقوق دلانا اور انہیں ان کے حقوق سے روشناس کرانا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اپنے مقصد میں کامیاب رہا ہے یا یہ محض تقریبات کا ایک سلسلہ بن کر رہ گیا ہے؟

Women should be empowered, educated and aware of the dangers to prevent violence against women
خواتین کے خلاف تشدد کو روکنے کے لئے خواتین خود کو بااختیار، تعلیم یافتہ بنائیں اور خطرات سے آگاہ رہیں

خواتین کا عالمی دن ہر سال ۸؍ مارچ کو منایا جاتا ہے جس کا مقصد ملک اور دنیا کی تمام خواتین کو عزت دینا اور انہیں بااختیار بنانے کے بارے میں بیدار کرنا ہے۔ اس کا مقصد خواتین کو معاشرے میں مساوی حقوق دلانا اور انہیں ان کے حقوق سے روشناس کرانا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اپنے مقصد میں کامیاب رہا ہے یا یہ ایک تقریبات بن کر رہ گیا ہے؟ دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے اعدادوشمار پر نظر ڈالیں تو لگتا ہے کہ آج بھی یہ اپنے مقصد تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ خواتین پر تشدد روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مرد اور عورت برابر ہیں۔ اس لئے انہیں مساوی حقوق اور مواقع فراہم کئے جائیں۔ لیکن اگر ہم اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو معاملہ بالکل مختلف نظر آتا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں خواتین پر تشدد صفر ہو۔ ترقی یافتہ ملک ہو یا غریب اور پسماندہ ملک، ہر جگہ خواتین جسمانی یا ذہنی تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ اگر ہم عالمی اعدادوشمار کی بات کریں تو ۳۵؍ فیصد خواتین کو کسی نہ کسی وقت اپنے شوہر یا غیر مرد کے ذریعے جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ روزانہ ۱۳۷؍ خواتین ان کے خاندان کے افراد کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں۔ ۲۰۱۹ء۔۲۰ء میں ہر ۵؍ میں سے ایک خاتون کی شادی ۱۸؍ سال کی عمر سے پہلے کر دی گئی ہے۔ 
 اگر ہم ہندوستان میں خواتین کے خلاف تشدد کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار بھی خواتین کے خلاف جرائم میں اضافے کی وضاحت کرتے ہیں۔ ان جرائم میں عصمت دری، گھریلو تشدد، حملہ، جہیز، تیزاب گردی، اغواء اور سائبر کرائم وغیرہ نمایاں ہیں۔ این سی آر بی یعنی نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی انڈیا میں جرائم ۲۰۱۹ء کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ۲۰۱۸ء کے مقابلے ۲۰۱۹ء میں خواتین کے خلاف جرائم میں ۷ء۳؍ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جہاں ۲۰۱۸ء میں خواتین کے خلاف جرائم کے ۳؍ لاکھ ۷۸؍ ہزار ۲۳۶؍ معاملات درج کئے گئے، وہیں ۲۰۱۹ء میں یہ بڑھ کر ۴؍ لاکھ ۵؍ ہزار ۸۶۱؍ ہوگئے۔ اگرچہ پچھلے کچھ برسوں میں عصمت دری کے واقعات میں کچھ کمی آئی ہے لیکن گھریلو تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ خواتین کے خلاف گھریلو تشدد میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ خاص طور پر کورونا وباء میں نافذ ڈاؤن کے دوران۔ ان میں سے زیادہ تر مقدمات شہری علاقوں میں درج کئے گئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ گھریلو تشدد دیہی علاقوں میں ریکارڈ کئے گئے اعداد و شمار سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ چونکہ دیہی علاقوں کی خواتین شہروں کے مقابلے میں اپنے حقوق سے آگاہ نہیں ہیں، اسی لئے دیہی علاقوں میں ایسے معاملات کم درج ہوتے ہیں۔ جموں و کشمیر جسے زمین پر جنت کہا جاتا ہے، میں بھی خواتین کے خلاف تشدد کے بہت سارے کیس درج ہیں۔ کچھ دن پہلے کٹھوعہ ضلع میں گھریلو تشدد کا ایک دل دہلا دینے والا معاملہ سامنے آیا تھا۔ تاہم، کچھ خواتین ایسی بھی ہیں جنہوں نے نہ صرف خود کو تشدد سے نجات دلائی ہے بلکہ دوسری خواتین کے لئے بھی تحریک کا ذریعہ بنی ہیں۔ جموں و کشمیر کے جموں ڈویژن کے بن تالاب کی رہنے والی مبین فاطمہ اس کی ایک بڑی مثال ہیں۔ جنہوں نے حال ہی میں جموں کشمیر سول سروس کا امتحان پاس کیا ہے لیکن ان کی زندگی اتنی آسان نہیں تھی۔ ان کی شادی ۲۰؍ سال کی عمر میں ہوئی۔ گریجویشن کی تعلیم حاصل کرتے وقت وہ ایک بچی کی ماں بن گئی لیکن شادی کے ۲؍ سال بعد ہی ان کی طلاق ہوگئی۔ مبین کا کہنا ہے کہ طلاق کے بعد مجھے کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری۔ طلاق کے بعد دوبارہ تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد جموں و کشمیر سول سروس کے امتحان میں کامیاب ہوگئی۔ مبین فاطمہ کی زندگی اور جدوجہد سے یہ واضح ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد کو روکنے کے لئے خواتین خود کو بااختیار، تعلیم یافتہ  بنائیں اور  خطرات سے آگاہ رہیں۔
 اگر ہم قومی سطح پر بات کریں تو حکومت بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ کی بات کرتی ہے۔ لیکن حکومت کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ بیٹیوں کی حفاظت کے لئے بھی سخت قوانین بنائے جائیں۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومت نے خواتین کے تحفظ کے لئے کوئی قانون نہیں بنایا۔ اگر ہم کچھ اہم قوانین کی بات کریں تو آئی پی سی کی دفعہ ۳۷۶؍ (عصمت دری)، جہیز کی روک تھام کا ایکٹ ۱۹۶۰؍ اور ۱۹۸۶؍ گھریلو تشدد سے خواتین کا تحفظ ایکٹ ۲۰۰۵؍ ہے لیکن پھر بھی خواتین کے خلاف جرائم میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی کوششوں کے نتیجے میں کم از کم ۱۵۵؍ ممالک گھریلو تشدد کو روکنے کے لئے قوانین پاس کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ۱۴۰؍ ممالک نے کام کی جگہ پر جنسی طور پر ہراساں کرنے سے متعلق قوانین بنائے ہیں لیکن ان قوانین کے علاوہ خواتین کی آگاہی بھی گھریلو تشدد کی روک تھام میں کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔ خواتین کو بھی اپنے حقوق کو پہچاننا اور سمجھنا ہوگا تب ہی وہ تشدد سے نجات حاصل کرسکیں گی۔
(چرخہ فیچر)

womens day Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK