گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں
EPAPER
Updated: November 10, 2022, 1:29 PM IST | Odhani Desk | Mumbai
گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں
اصلاح کی شروعات خود سے کریں
حضرت علیؓ فرماتے ہیں ’’بہترین تبلیغ خود کی اصلاح کرنا ہے۔‘‘ آج کل شادیوں میں غیر ضروری رسومات پر عمل کیا جاتا ہے اور ایسی شادیوں میں ہم نہ صرف شامل ہوتے ہیں بلکہ پیش پیش رہتے ہیں۔ سب سے پہلے خود ایسی شادیوں میں جانے سے گریز کریں جہاں غلط رسومات پر عمل کیا جاتا ہو، ساتھ ہی انہیں اصلاحی انداز میں نہ آنے کی وجہ بھی ضرور بتائیں۔ حضورﷺ نے اپنی چہیتی بیٹی فاطمہ کا نکاح نہایت سادگی سے کیا تھا تو پھر ہم نے یہ ساری خرافات کہاں سے اپنا لی ہیں۔ پہلے خود عمل کریں پھر اپنے گھر والوں کو ان بے جا رسومات کے نقصانات سے آگاہ کریں۔ جب ہم بہتر ہوجائیں گے تو ان شاء اﷲ لوگوں کی اصلاح کرنا اور ان میں بیداری پیدا کرنا آسان ہوجائے گا۔
خان شبنم فاروق (گوونڈی، ممبئی)
عملی نمونے کے ذریعے بیداری ممکن ہے
شادیوں میں سادگی اور آسانی کو رواج دینے کیلئے تحریر و تقریر کے ذریعےعوامی بیداری کی کوشش ہونی چاہئے، ساتھ ہی عملی طور پر بھی ایسی شادیوں کا انعقاد ضروری ہے جہاں رسومات کے نام پر خرافات اور غیر اسلامی افعال نہ ہوں، دولت، جہیز اور سلامی وغیرہ کی نمائش کسی غریب کی حسرت و دل آزاری کا سبب نہ بنے۔ اس سلسلے میں نوجوانوں کی تربیت تو ضروری ہے ہی، بزرگوں و خواتین کی ذہن سازی بھی کی جائے کہ اکثر اوقات نام نہاد خاندانی روایات بھی ان فضولیات کو لازمی قرار دیتی ہیں۔ سادہ و کم خرچ والا نکاح نبی پاکؐ کی سُنّت اور برکت کی بشارتوں والا ہےتو کیوں نہ ہم اپنے اپنے گھر وں سے اس اصلاحی امر کی ابتداء کر یں، ان شاء اللہ ایسی سادہ ومسنون شادیوں کی برکات اپنا آپ خود منوا لیں گی۔
خالدہ فوڈکر (جوگیشوری، ممبئی)
فضول خرچی سے بچیں
شادی ایک مقدس رسم ہے جس میں دو انسا ہی نہیں دو خاندان کا ملن ہوتا ہے، لیکن آج کل یہ محض دولت اور امارت کی نمائش بنتی جا رہی ہے۔ منگنی سے لے کر ولیمہ تک انگنت خود ساختہ رسموں کا بول بالا ہے۔ لباس اور زیورات پر خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔ انواع اقسام کے پکوان بنوائے جاتے ہیں۔ ان بے جا اصراف سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ شادی کی تقریب ایک یا ۲؍ دن میں مکمل ہو جائے۔ جتنے مہمان مدعو ہوں اس اعتبار سے شادی ہال لیا جائے، کھانے کیلئے بھی صحیح اندازہ سے مشتاق باورچی کی خدمات لی جائے۔ امیر رشتہ داروں کے ساتھ غریب اقرباء کو نہ بھولیں اور جہیز جیسی فرسودہ اور لعنتیں رسموں سے دور رہیں۔ ان شاء اللہ اس سے آپ اور آپ کے مہمان بھی مطمئن رہینگے اور اللہ بھی راضی ہوگا۔
نور رضوی (شہر کا نام نہیں لکھا)
بچوں کو پیار اور حکمت کے ساتھ سمجھائیں
آج کل ہمارا معاشرہ شادی بیاہ میں افراط و تفریط کا شکار ہو چکا ہے۔ کچھ لوگ تو ایسے ہیں جنہوں نے اس پُر مسرت موقع پر اسلامی حدود و قیود کی تمام حدیں پھلانگ دی ہیں۔ بحیثیت والدین، عہدیدار اور فرد جماعت ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو پیار اور حکمت کے ساتھ سمجھائیں کہ اگر ہم ان بدرسومات میں حصہ لے رہے ہیں تو ہم اپنے پیارے نبیﷺ کی اطاعت نہیں کر رہے ہیں۔ اور اگر اطاعت نہیں تو شادی جیسے مقدس اور اہم فریضہ میں برکت کیسے ہوسکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت محمدؐ کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ نیز اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر قسم کی بدعات ، بے ہودہ اور لغو رسومات سے اجتناب کرنے والا اور اپنی رضا کی راہوں پر چلنے والا بنائے (آمین)۔
فضا سروش کنگلے (مہاپولی بھیونڈی)
جہیز لینے یا دینے، دونوں سے انکار کریں
سماج میں بہت سی برائیاں رونما ہو رہی ہیں جس میں ایک بڑی برائی ہے شادیوں میں بے جا رسومات۔ نکاح جو بہت آسان ہے۔ اسے ہم نے ان بے جا رسومات کے سبب مشکل بنا دیا ہے۔ جہیز جو سماج میں مہلک بیماری کی طرح بڑھ رہی ہے۔ تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ اس میں تعلیم یافتہ لوگ بھی پیش پیش رہتےہیں۔ اب بات یہ آتی ہے کہ ان بے جا رسومات کے خلاف بیداری کیسے پیدا کی جائے؟ جب بھی ہم کوئی تبدیلی چاہتے ہیں تو اس کی شروعات خود سے کرنا چاہئے۔ جب آپ کے یہاں کوئی شادی ہو تو ان رسومات کو نہ کریں۔ مثال کے طور پر جہیز لینے یا دینے، دونوں سے انکار دیں۔ اس کے علاوہ کسی ایسی شادی میں شامل نہ ہوں جہاں بے جا رسمیں ہو رہی ہوں۔
ثمینہ علی رضا خان (تھانے)
سب کو مل کر کوشش کرنی ہوگی
شادی بیاہ کی بے رسومات کے خلاف ایک طرفہ بیداری لانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ دونوں طرف یعنی لڑکی والے اور لڑکے والوں، دونوں جانب سے بیداری کی پہل ہونا چاہئے۔ ’’میرے رشتے دار کیا کہیں گے؟‘‘ ’’دوست احباب کیا کہیں گے؟‘‘ ’’معاشرے میں میری عزت کا کیا ہوگا؟‘‘ اس قسم کے سوالات ذہن میں ابھرتے رہیں گے تو معجزے کیسے ظہور پذیر ہوں گے؟ اپنی حالت تو ایسی ہے کہ ’’سب کچھ سیکھا ہم نے نہ سیکھی ہوشیاری سچ ہے دنیا والو کے ہم ہیں اناڑی۔‘‘ اگر ہماری قوم ایک پلیٹ فارم پر آجائے جیسے ’’نہ جہیز دیں گے اور نہ جہیز لیں گے‘‘ کی بیداری مہم پر عمل کر لے تو کوئی بات بن پائے گی۔ اگر ہم اس کے پابند ہو گئے تو یقیناً یہ معاشرہ بیدار ہو جائے گا۔
جبیرہ عمران پیرزادے (وسرانت واڑی، پونے)
بے جا رسومات کیخلاف آواز اٹھائیں
اکثر شادیوں میں مہنگے تحفے دیئے جاتے ہیں جو غریب رشتے داروں پر بوجھ کا سبب بنتے ہیں۔ آپ اس سلسلے میں پہل کرتے ہوئے لوگوں کو ایسے گراں بار تحائف لانے سے منع کرسکتی ہیں۔ جہیز جیسی بے جا رسم کے خلاف خواتین عملی قدم اٹھائیں اور رسمی نہیں بلکہ پوری سختی کے ساتھ نہ صرف جہیز سے منع کریں بلکہ خود بھی جہیز دینے سے گریز کریں۔اسی طرح آپ خواتین کی محفل کے درمیان شادیوں میں بے جا رسومات کے خلاف اپنی آواز اٹھائیں، اس کے خلاف تحریریں لکھیں اور تقاریر کے ذریعے لوگوں کو بیدار کرنے کو کوشش کریں۔ لیکن آپ کی یہ ساری کوششیں اسی وقت کارآمد ہوں گی جب آپ خود اپنے گھر ہونے والی تقاریب میں بارش کا پہلا قطرہ بنتے ہوئے کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا کئے بغیر فضول رسومات اور فضول خرچی ترک کریں گی۔
سحر اسعد (بنارس، یوپی)
اسلامی تعلیمات کے ذریعے بیداری
وقت کے ساتھ ساتھ شادی میں بے جا رسومات کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ ان رسومات میں مایوں بیٹھنا، جوتا چھپائی، چوتھی کرنا، ہلدی اور مہندی میں ناچنا گانا وغیرہ شامل ہیں جو غیر اسلامی اور بدعت ہے۔ ان رسومات کے خلاف بیداری کے لئے ضروری ہے کہ اسلامی تعلیمات سے متعلق پروگرام کا انعقاد کیا جائے۔ اسلامی تعلیمات سے ہماری نئی نسلوں کو یہ معلوم ہوگا کہ اسلام میں کیا جائز ہے، کیا ناجائز اور ان خرافات سے کس طرح بچا جائے۔ ان پروگرام سے برادران اسلام کو اس بات سے آگاہ کیا جائے کہ یہ بے جا رسومات نہ صرف بدعت ہیں بلکہ ان میں بے پردگی بھی ہوتی ہے۔ ان رسومات کیلئے ہونے والے بے شمار اخراجات کی وجہ سے اہل خانہ کو نہ صرف کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ اکثر غرباء اپنی اولاد کی شادی نہیں کر پاتے یا سرمایہ جمع کرتے کرتے شادی کی عمر نکل جاتی ہے۔
ڈاکٹر روحینہ کوثر سیّد (شہر کا نام نہیں لکھا)
شرعی شادی کو ترجیح دیں
بلاشبہ آج شادی کے موقع پر بے جا رسومات کا چلن عالم ہے۔ جہاں تک اصلاح کا تعلق ہے بلاشبہ جمعہ کے خطبات کے دوران ائمہ کرام کی ناصحانہ باتیں ضرور اثر انداز ہوسکتی ہیں لیکن بعض اوقات اہل ِ خانہ کا یہ جملہ ’’ہماری اکلوتی بیٹی ہے تو بھلا ہم آج خوشیاں نہیں منائیں تو کب منائیں گے؟‘‘ بے شک صحیح ہے لیکن یہ خوشیاں شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے نہ صرف اجر و ثواب کا باعث ہوگی بلکہ پُرسکون روحانی مسرت کا پیش خیمہ ہوگی اور بے جا تصرفات اخراجات بچائے رکھے گی۔ سماج میں بیداری پیدا کرتے وقت خصوصاً حضورﷺ کے دور میں وقوع پذیر ان نکاح کی تقریبات کا ذکر کریں جس میں قطعی خرافات نہ تھیں نہ جہیز نہ تحفے تحائف نہ دعوتوں کا اہتمام غرض انتہائی سادگی کے ساتھ مکمل شرع کی پابندی کے دائرے میں۔
فرحین وسیم راجا شیخ (انکلیشور، گجرات)
بے جا رسومات کیخلاف مہم چھیڑیں
ہمارے معاشرے میں شادیوں میں بے جا رسومات دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ انسان نے غور و خوض کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ہمیں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور سے نوازا ہے۔ بہت ساری ایسی رسومات ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں بے حیائی پھیلتی جا رہی ہے۔ شادیوں میں بے جا رسومات کے خلاف ایک مہم چلائی جائے اور اس مہم کے ذریعے اس بات کو واضح کیا جائے کہ شادیوں میں بے جا رسومات کے بہت سارے نقصانات ہیں اور ان سے وقت اور روپے کا ضیاع ہوتا ہے۔ سر سیّد احمد خان کا قول ہے ’’جس وقت یہ رسومات بنائے گئے ہوں اس وقت یہ فائدہ مند رہا ہوگا اور اب یہ نقصان کا باعث بن رہا ہو یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ رسم کو بنانے میں ان سے کوئی غلطی سرزد ہوگئی ہو تو اس غلطی کو اپنے عقل و شعور کا استعمال کرکے ان کو ختم کیا جاسکتا ہے۔‘‘
اُمّ ِ ماریہ (چھپرہ، بہار)
شادی کو آسان اور سادہ بنائیں
غور طلب بات یہ ہے کہ دین اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ ہماری زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں پر رب کائنات نے ہماری رہنمائی نہ فرمائی ہو یعنی یہ بتایا نہ ہو کہ کون سا عمل کس طرح سر انجام دینا ہے۔ تو سوچنے والی بات ہے کہ شادی جو زندگی کا اہم ترین پہلو ہے اس میں شریعت نے ہمیں بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہوگا؟ ہرگز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے شادی کو نہایت ہی آسان اور سادہ بنایا ہے جس میں ان بے جا رسومات کی کوئی گنجائش نہیں، جو آج بدقسمتی سے ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔ بہت اہم بات یہ ہے کہ رب کائنات نے مومن بننے کے لئے اسلام میں محض داخل ہونے کی ہی نہیں بلکہ مکمل داخل ہونے کی شرط رکھی ہے اور اس کے لئے ایک مومن کو شریعت کے تمام احکام پر دل و جان سے عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے اور ذی علم تبلیغ کو اپنا اہم فریضہ بھی جانیں۔
فہیمہ ناز (مدھوبنی، بہار)
شادی سنت کے مطابق کریں
نکاح (شادی) سنت ِ نبویؐ ہے۔ یہ ایک سہل طریقہ ہے مگر غیر ضروری رسوم نیز ٹی وی سیریل کی تقلید نے بے جا رسومات کے چلن میں اضافہ کر دیا ہے۔ مختلف انواع پکوان اور مہنگے ملبوسات زیب تن کرنا آج کل کی شادیوں کی روایت ہے جس کی وجہ سے والدین قرض کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتے ہیں۔ شادیوں میں نئے فیشن اپنا کر نہ جانے کتنے گناہ میں ملوث ہو کر ہم اپنی آنے والی نسلوں کو غلط پیغام دے رہے ہیں۔ سادگی ایمان کی علامت ہے اس قول پر عمل پیرا ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ شادی بیاہ نبیﷺ کے بتائے ہوئے سنت پر کریں۔ رب ِ کریم کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔ اسلاف کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق شادی کریں۔ جس طرح مشکل وقت میں اللہ عزوجل کے حضور سر بہ سجدہ ہوتے ہیں تو پھر خوشی کے وقت کیوں اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں؟
انصاری قنوت وکیل احمد (بھیونڈی)
نام و نمائش نہ کریں
’’شادی ایک بار ہوتی ہے‘‘ ہمارے معاشرے میں اس بات کی آڑ میں بہت ساری ایسی بے جا رسومات انجام دی جاتی ہیں جن کے صحیح ہونے کا ثبوت حدیث و سنت کی روشنی میں کہیں بھی نہیں ملتا۔ کئی بے جا رسومات کو ہم مسلمانوں نے اپنا شیوہ بنا لیا ہے جو کہ سراسر غلط ہے اور ہماری مذہبی تعلیمات کے خلاف ہے۔ ہمیں چاہئے کہ آپﷺ کی سنتوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ آپﷺ نے فرمایا: سب سے برکت والا نکاح وہ ہے جس میں خرچ کم ہو اور سادگی ہو۔ آ ج ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ اور ہم نام و نمائش کی دنیا سے باہر نکل کر سادگی اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق شادی کے فرائض کو انجام دے کر لوگوں کے لئے ایک مثال بنیں تاکہ ان غریب والدین کی بیٹیاں بھی بیاہی جا سکیں جو کہ پیسوں کی کمی کی وجہ سے ساری عمر کنواری رہ جاتی ہیں۔
صبیحہ عامر (بھیونڈی)