Updated: June 14, 2021, 8:39 AM IST
| Mumbai
نام نہاد معاشی و ثقافتی ترقی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی مصروفیات کا سب سے بڑا خمیازہ آج اگر کسی کو بھگتنا پڑا تو وہ ہیں ہمارے گھروں کے
بڑے بزرگ ،بالخصوص معمر والدین کو پیسے بنانے کے چکر میں ایک فاصلہ پر رکھ دینا ایک طرح سے ان کو آدھی موت دینے کے مترادف ہے
بچپن میں ہمیں والدین کی ضرورت ہوتی ہے اور بڑھاپے میں ہمارے والدین کو ہماری ضرورت ہوتی ہے تصویر آئی این این
پروگرام کے دوران بار بار میری نظریں اس بزرگ خاتون کے چہرے پر کچھ اس طرح جاکر ٹھہر جاتی کہ میرے اپنے الفاظ لڑکھڑانے لگتے۔ محسوس ہوا کہ، وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہیں۔ جوں ہی پروگرام ختم ہوا، ضعیفہ بھیڑ کو ہٹاتی ہوئی سیدھی مجھ تک آگئیں۔ مَیں نے سلام کو ہاتھ بڑھائے، تو نظر انداز کرتے ہوئے میرے ہاتھ اور چہرے کو چُومنے لگیں۔ اور پھر گلے سے لگ کردفعتاً رونے لگیں۔ رونا کیاتھا، مانو کوئی بچّہ ماں کے گلے سے لگ کر رو رہا ہو۔ پھر میں نے بھی دانستہ انہیں خاموش کرانے سے گریز کیا کہ پہلے بڑی بی رو کر اپنا غم ہلکا کرلیں پھر ان سے آگے کوئی بات ہو۔
(۲) وہ جینٹلمن اب پچاسی کے لپیٹے میں ہیں۔ ایک ریٹائرڈ لیکن باشعور معمر انسان جس کی بیمار بوڑھی بیوی پچھلے چار برسوں سے بستر کی ہوکر رہ گئی تھی۔ ان کا معمول بن گیا تھا کہ وہ رات کے ساڑھے دس بجے بس میں سوار ہوکر گھر سے دو اسٹاپ آگے جاتے تاکہ وہ بیوی اور خود کے لئے دو وقت کفایت کر جانے والی، چھ عدد تازہ گھر کی بنی گیہوں کی روٹیاں لاسکیں۔ آج کل جینٹلمن ایک بھرے پُرے گھر میں تنہائی کے عذاب سے دوچار ہیں۔ شریک سفر زندہ تھیں تو، بڑی محنت سے کھانا وغیرہ بنا لیتے لیکن اب تنہائی نے ہمت بھی توڑدی۔ اب تو دودھ کھجور یا دودھ روٹی پر گزر بسر ہوتی ہے۔ باقاعدہ کوئی ڈش نہیں بناتے۔
آپ کو کیا لگتا ہے؟ بڑی بی مجھ اجنبی کے گلے لگ کر اس قدر تڑپ کر کیوں روئیں ؟ انہوں نے مجھ سے کہا ’ ’تم میرے گھر چلو اور جو باتیں والدین کے حقوق پر تم نے پروگرام میں بتائیں وہی باتیں میرے گھر والوں کو سمجھا دو۔ مجھ سے راستہ چلا نہیں جاتا لیکن پوتے پوتیوں کو اسکول پہنچانے اور لانے کا کام میرے ذمہ ہے۔ ذرا سی دیر ہوجائے تو مجھے بہت جلدی جلدی چلنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے میں گر جاتی ہوں اور اکثر مجھے چوٹیں آتی ہیں۔ لیکن میرے بیٹے اور بہو یہ بات نہیں سمجھ رہے، وہ کہتے ہیں چلنا آپ کی صحت کیلئے فائدہ مند ہے۔ صبح صبح بستر سے اٹھا نہیں جاتا لیکن بیٹے کی ناراضگی کے خوف سے اٹھ کر بچوں کے اسکول جانا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ سودا سلف لانا بھی میری ہی ذمہ داری ہے۔ وہ بار بار ایک ہی جملہ کہتیں ’ ’بیٹا! میری بوڑھی ہڈیوں میں اب طاقت نہیں رہی‘ ‘ تم میرے گھر چل کر کچھ اچھی باتیں انہیں بھی سمجھادو تاکہ وہ مجھ سے زیادہ کام نہ لیں۔ ‘‘ ایک بوڑھے اور تھکے ہوئے جسم کو جسے خود راستہ چلنے کے لئے ہمہ وقت کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے اسے بچوں کا محافظ بناکر گھر سے باہر کے کاموں پر لگادیا جاتا ہے یہ کس قدر شرمناک اور افسوسناک بات ہے۔
اور آپ کا ان جینٹلمن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا وجوہات رہی ہوں گی کہ بیٹے کی فیملی ہونے کے باوجود مستقل بیمار رہنے والا یہ بزرگ جوڑا دو وقت کی دال روٹی کا محتاج تھا؟
پہلی بزرگ خاتون اور دوسرے جینٹلمن بزرگ دراصل الگ الگ حالات و واقعات میں اپنی سگی اولاد کے ہاتھوں ایک ہی طرح سے ڈسے گئے تھے جس کا تریاق ان کی اپنی اولاد کے پاس ہی تھا۔ میری طرح آپ نے بھی ایسے یا اِس سے زیادہ افسوسناک واقعے دیکھ یا سُن رکھے ہوں گے۔ آپ نے افسوس کیا ہوگا دُکھ جتایا ہوگا، تسلیاں بھی دی ہوں گی۔ لیکن کیا ان سب سے بزرگان کی تسلی کا سامان ہوجائے گا ؟ شاید نہیں۔
مقام افسوس ہے کہ ہم سن رسیدہ لوگوں کی خواہشات کو اپنی مصروفیات، مفادات، اور خود غرضی تلے روند دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ پہلے پہل ہم سے بحث وتکرار کرتے ہیں، پھر لڑنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ اور تھک ہار کر بالآخر ہر طرح کی دفاعی کوشش ترک کرکے، زندگی اور خوشیوں سے منہ موڑ کر چُپ سادھ کر اپنے خول میں سمٹ جاتے ہیں۔ جس عمر میں بزرگ والدین کو سکون سے دو وقت کی روٹی کھلانی چاہئے، ان کے لاڈ اور چاؤ کرنے چاہئے۔ اس عمر میں یہ بوڑھی ہڈیاں اپنے حالات سے مجبور ہو کر اونچی اونچی عمارتوں میں رہنے والے ہٹّے کٹّے لوگوں کی حفاظت کرتی ہیں۔ ان کے رعشہ زدہ ہاتھ چوکیدار یا چپراسی کے فرائض نبھاتے ہیں۔ خون جگر پلا پلاکر ایک نومولود کو توانا جوان کرنے والی ماں کو اس کی پِیری میں تحفظ و وقار کے بدلے در بدر کی ٹھوکریں ملتی ہیں۔ وہ اپنی بنیادی اور چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لئے دوسروں کی محتاج بنادی جاتی ہے۔ وہ گھروں میں جھاڑو کٹکے کے کام کاج کرتی ہے، کسی اسکول، آفس یا کارخانے کی گرد صاف کرتی ہے۔ یا پھر سرد و گرم موسم سے بے نیاز سڑک کنارے کھلونے، سبزیاں بیچتی پھرتی ہے۔ ہر جگہ، ہر گھر میں اس قسم کی افراط تفریط موجود ہے طبقہ طبقہ کا فرق ہے بس۔
ہمیں اپنے آپ ٹٹولنے کی ضرورت ہے ممکن ہے کہیں کسی جگہ ہم ان کے قصوروار بن رہے ہوں۔ یہ بوڑھے شجر ان کے وجود سے ہماری زندگیوں میں خیر وبرکت ہے یہ ہمارے لئے جنت کی ضمانت اور رب کی رضا کا پروانہ ہیں، ان کی قدر کیجئے۔n