Inquilab Logo Happiest Places to Work

اوڑھنی اسپیشل: میرا وہ خواب جو ادھورا رہ گیا!

Updated: September 07, 2023, 6:47 PM IST | Saaima Shaikh | Mumbai

گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

ڈیزائنر بننا چاہتی تھی


کچھ خواب ہمیشہ ادھورے رہ جاتے ہیں ہمیں خواب دیکھنے کا پورا حق ہے لیکن ان کا انحصار قدرت پر ہے کہ کس کی کب سنی جائے؟ کچھ لوگ یہی بات سمجھ نہیں پاتے اور مایوس ہو جاتے ہیں۔ مجھے سلائی کڑھائی کا بہت شوق تھا۔ میں نے اپنی بڑی بہن سے اور سلائی کی کتابیں پڑھ کر سلائی سیکھی اور میں نے اتنی مہارت حاصل کرلی تھی کہ میرے سلے کپڑے دیکھ کر پڑوسی لڑکیاں مجھ ہی سے سلواتی تھی کچھ ہی دنوں میں میرے پاس کپڑے سلنے کے لئے تین کاریگر تھے۔ میں بھی یہی چاہتی تھی کہ ڈزائنر بنوں لیکن اللہ تعالیٰ کی مرضی، وقت اور حالات نے مجھے ڈیزائنر نہیں استانی بنادیا۔ الحمدللہ آج میں اللہ کی مرضی سے راضی ہوں اور خوش ہوں۔
آفرین سلطانہ حفظ الرحمٰن پیرمپلی (شولاپور، مہاراشٹر)
ایم پی ایس سی نہیں کر پائی....


مَیں نے بچپن سے میرے ابا کو بہت محنت کرتے ہوئے دیکھا تھا ان کی محنت کا مجھے بہت احساس تھا۔ انہوں نے محنت کرکے ایم پی ایس سی کا امتحان پاس کر کے اپنا خواب پورا کیا تھا۔ میرے والدین نے ہم بھائی اور بہنوں کی تعلیم کی طرف خاص توجہ دی تاکہ جو تکلیف کے ساتھ ہم نے تعلیم حاصل کرکے ایک مقام حاصل کیا ہے وہ تکلیف بچوں کو نہ اٹھانی پڑے۔ اس بات سے میں بہت متاثر تھی اور اسی کو مثال بنا کر میں نے بھی ایم پی ایس سی کا امتحان دینے کا فیصلہ کیا اور اس کیلئے کافی محنت و مشقت کی لیکن میرا یہ خواب ادھورا رہ گیا۔ پھر میں نے بی ایڈ کرکے تدریسی پیشہ اختیار کیا۔ آج میں اس بات سے خوش ہوں کہ میرا جو خواب ادھورا رہ گیا، وہ ہم جیسے اساتذہ سے تعلیم حاصل کرکے طلبہ پورا کر رہے ہیں۔
شہناز عبدالناصر شیخ (شولاپور، مہاراشٹر)
مَیں ریسرچ اسکالر بننا چاہتی تھی
مَیں نے بچپن سے اپنا سارا وقت تعلیم میں صرف کیا۔ عالمہ، فاضلہ تک تعلیم حاصل کی، اس کے بعد میں تخصص یعنی ریسرچ اسکالر کا کورس کرنا چاہتی تھی تاکہ کسی ایک سبجیکٹ میں مہارت حاصل کرکے مزید علمی و تحقیقی کام سر انجام دوں، ساتھ ہی ایک اچھی قلم کار بھی بن سکوں، مگر اولاً تو متعدد بیماریوں نے پیچھا نہ چھوڑا، دوسرا سبب یہ بنا کہ اب ماحول اتنا پراگندہ کر دیا گیا ہے کہ گھر سے باہر رہ کر تعلیم حاصل کرنے کے لئے مجھے جھجک محسوس ہونے لگی تھی۔ میری بڑی دیرینہ آرزو تھی، مگر اسی تشویش نے مجھے کشمکش میں مبتلا رکھا اور آخر کار میں نے گھر والدین کی خدمت میں لگے رہنے کا فیصلہ کیا۔ اب جو مصروفیات ہیں انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ بہترین قلم کار بننے کا خواب بھی ادھورا ہی رہ جائے گا۔ پھر بھی ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں انقلاب کے مثالی صفحےاوڑھنی میں یا ادارے کے ہی دیگر موضوعات میں اپنی بساط کے مطابق ضرور حصہ لیتی رہوں گی۔
زیبا فاطمہ عطاریہ (امروہہ، یو پی)
کاش مَیں ماہر نفسیات بن گئی ہوتی!


دسویں کے بعد میں نے آرٹس کے مضامین کا انتخاب کیا۔ سائیکلوجی پڑھنےکے بعد ماہر نفسیات بننے کا فیصلہ کیا۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ بارہویں کے بورڈ میں عربی مضمون میں میرے شاندار نمبر آئے، مَیں نے پورے بورڈ میں ٹاپ کیا تھا۔ عربی میں ٹاپ کرنے کی وجہ سے میرے عربی کے اساتذہ کو مجھ سے بہت امیدیں بندھ گئی تھیں، اس طرح میری تعلیم کا رجحان سائیکلوجی سے ہٹ کر عربی کی طرف مڑ گیا۔ گریجویشن کے بعد پوسٹ گریجویشن بھی عربی سے مکمل کرنے کے بعد شادی ہوگئی۔ اس کے بعد گھریلو مصروفیات اور ذمہ داریوں میں الجھ کر یاد ہی نہ رہا کہ کیا خواب دیکھا تھا۔ اب جب بچے کچھ سمجھدار ہوگئے ہیں اور تھوڑی سی فراغت میسر آئی تو دل میں کسک اٹھتی ہے کہ کاش مَیں ماہر نفسیات بن گئی ہوتی!
رضوی نگار (اندھیری، ممبئی)
جہاں چاہ ہوتی ہے....


بچپن میں کسی نے کہا تھا: ’’یہ بچی ڈاکٹرنی بنے گی یا ماسٹرنی!‘‘ بچپن میں دیکھا گیا ڈاکٹرنی بننے کا خواب تو پورا نہ ہو سکا کیونکہ اس وقت لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا ہی جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ مجھے سائنس کی پڑھائی سے آرٹس میں منتقل کر دیا گیا لیکن جہاں چاہ ہوتی ہے وہاں کوئی نہ کوئی راہ نکل ہی آتی ہے۔ ڈاکٹر تو نہیں بن سکی لیکن رفته رفتہ اپنی تعلیم کو آگے بڑھاتے ہوئے میں نے اردو شاعری پر جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری ضرور حاصل کی، الحمدللہ!
ڈاکٹر صبیحہ ناہید (شہر کا نام نہیں لکھا)
ڈاکٹر بننے کا خواب ادھورا رہ گیا


بچپن ہی سے مجھے پڑھائی کا بہت شوق تھا۔ میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی۔ بارہویں کے امتحان میں کچھ اس طرح محنت کی کہ شاید مجھے ایم بی بی ایس میں ایڈمیشن مل جائے گا مگر امتحان والے دن ذہنی دباؤ کے سبب پرچہ ٹھیک سے حل نہیں کر پائی اور حسب ِ ضرورت سے کم نمبر حاصل کئے۔ ہمارے زمانے میں دوبارہ امتحان دینے کا چلن نہیں تھا اور ذہن میں تھا کہ ایم بی بی ایس ہی کرنا ہے اس لئے بی یو ایم ایس اور بی ڈی ایس کیلئے کوشش ہی نہیں کی۔ پھر مایوس ہو کر بی ایس سی میں ایڈمیشن لے لیا۔ اس طرح ڈاکٹر بننے کا خواب ادھورا رہ گیا۔
انصاری یاسمین محمد ایوب (بھیونڈی، تھانے)
ڈاکٹر بننا چاہتی تھی
خواب تو روشنی ہے جو ہمارے ارد گرد جگنوؤں کی طرح چمکتی ہے۔ ستاروں سی جھلملاتی ہے اور رنگ برنگی تتلیوں کی مانند اڑتی ہے۔ یہی روشنی انسان کو کچھ کرنے کا عزم دیتی ہے اور ہم اس روشنی کو تھام کر زندگی کے خوابوں کو پورا کرنے نکلتے ہیں۔ لیکن خوابوں کی تکمیل محنت کے ساتھ ہی نصیب کے مرہون منت ہوتی ہے۔
 میرا خواب تھا کہ میں ایک اچھی ڈاکٹر بنوں، خدمت خلق کروں، اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر ہوتا دیکھ سکوں لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ اس کی چمک آج بھی میری آنکھوں میں باقی ہے۔
فردوس انجم شیخ آصف (بلڈانہ، مہاراشٹر)
ڈاکٹر بننے کا خواب ادھورا رہ گیا
دسویں کا رزلٹ آیا، بہت اچھا تھا۔ میری شدید خواہش تھی کہ میں بی یو ایم ایس میں داخلہ لوں۔ اس وقت دسویں کے بعد داخلہ ہو جاتا تھا۔ لیکن گھر کے حالات اجازت نہیں دے رہے تھے۔ اس لئے مجبوراً ڈی ایڈ میں داخلہ لے دیا۔ ٹیچر بننے کا شرف حاصل ہوا۔ اتنے برسوں بعد آج بھی دل میں ایک کسک سی ہے۔
شہناز عابد حسین (مالیگاؤں، ناسک)
اب تک میں ڈاکٹر بن چکی ہوتی....
مجھے بچپن ہی سے ڈاکٹر بننے کا بہت شوق تھا۔ میری پیدائش شہر میں ہوئی تھی اور ۶؍ سال کی عمر میں مجھے اپنے گھر والوں کے ساتھ دیہات میں آنا پڑا۔ تب سے ہم یہی رہنے لگے۔ شہر میں پڑھائی کی ساری سہولیات دستیاب رہتی ہیں جبکہ دیہات میں برعکس تھا۔ یہاں کے لوگ پرانے خیال کے تھے، لڑکیوں کو زیادہ پڑھنے نہیں دیا جاتا تھا، اسلئے میری پڑھائی ادھوری رہ گئی اور میرا ڈاکٹر بننے کا خواب ادھورا رہ گیا۔ مجھے اس بات کا بہت افسوس تھا کہ کاش ہم شہر میں ہی رہتے۔ یہاں کبھی نہ آتے تو میری پڑھائی ادھوری نہیں رہتی۔ اور اب تک میں ڈاکٹر بن چکی ہوتی۔
سمیہ معتضد (اعظم گڑھ، یوپی)
ایک کوشش اب تک ادھوری ہے
یوں تو میرے کچھ ایسے خواب ہیں جو ادھورے رہ گئے، چاہے وہ میرے تعلیمی کریئر سے متعلق ہوں یا ذاتی رجحان سے منسلک ہوں۔ میرا وہ خواب جس کی حسرت اب بھی دل میں مچل رہی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے ملک سے بڑھتی ہوئی غریبی اور بھکمری کو مٹا دوں۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق نہ صرف ہمارے ملک میں بلکہ پوری دنیا میں انسان بھکمری اور ناقص تغذیہ کی وجہ سے موت کا شکار ہو رہا ہے۔ مَیں چاہتی ہوں اس سنگین مسائل کا ایسا لائحہ عمل پیش کروں جس سے بھکمری اور غریبی کے بڑھتے اعداد و شمار کچھ حد تک کم ہوسکے۔
انصاری قنوت وکیل احمد ( بھیونڈی)
پولیس افسر بننا چاہتی تھی


بارہویں مکمل ہونے کے بعد میری بڑی خواہش تھی کہ میں آئی پی ایس کی تیاری کروں۔ میں ایک بہترین پولیس افسر بننا چاہتی تھی اور سماج کی خدمت کرنا چاہتی تھی مگر گھر کے ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے دل کی بات دل میں ہی رہ گئی۔ پھر بی یو ایم ایس کرنا چاہا مگر ۱۲؍ ویں کے فیصد کم ہونے کی بنا پر ڈونیشن دینا پڑتا، اس لئے وہ خیال بھی خیال ہی رہ گیا۔ پھر میرا رخ بھی بی ایس سی کی طرف ہوگیا۔ یہاں مجھے بآسانی داخلہ مل گیا مگر کچھ وجوہات کی بناء پر وہ کورسس بھی مکمل نہ ہو سکا جس کی وجہ سے میں بیحد مایوس ہو گئی۔ پھر میرے چچا نے مجھے بہت سمجھایا اور حوصلہ افزائی کی اور آخر کار میں نے معلمہ بننے کا فیصلہ کیا اور آج اسی پیشے کے ذریعے سماجی خدمات انجام دے رہی ہوں اور قوم و ملت کے فروغ کے لئے کوشاں ہوں پھر بھی جب کسی خاتون پولیس افسر کو وردی میں دیکھتی ہوں تو بس مجھے اپنا ادھورا خواب یاد آجاتا ہے اور میرے ادھورے خواب کی خواہش دل میں کہیں نہ کہیں مچل جاتی ہے۔
مومن رضوانہ محمد شاہد (ممبرا، تھانے)
وکالت کرنا چاہتی تھی


ایچ ایس سی کا امتحان پاس کرنے کے بعد میری خواہش تھی کہ میں گریجویشن کرکے لاء کی پڑھائی کروں اور وکالت کروں لیکن میرے والدین کی خواہش تھی کہ میں ٹیچنگ میں ڈپلوما لے کر ٹیچنگ کروں اور میں نے وہی کیا۔ آج میں نے اپنی جاب کے ساتھ ساتھ دیگر امتحانات بھی پاس کئے ہیں لیکن لاء پریٹیکل ہونے کی وجہ سے میں لاء کی پڑھائی نہیں کرپائی اور میرا خواب ادھورا رہ گیا۔
نکہت انجم ناظم الدین(جلگاؤں، مہاراشٹر)
کچھ بننا چاہتی تھی مگر....


ہر انسان اپنی زندگی میں کوئی نہ کوئی خواب دیکھتا ہے۔ کسی کے خواب تکمیل کے مراحل سے گزر جاتے ہیں کسی کے خواب صرف خواب ہی رہ جاتے ہیں۔ میں نے بھی اپنی زندگی میں کچھ خواب دیکھے لیکن وہ پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکے جس کا مجھے ساری زندگی افسوس رہےگا۔ وہ یہ تھا کہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے کچھ بننا چاہتی تھی اور انسانیت کی خدمت کرکےاپنے ماں باپ کا نام روشن کرنا چاہتی تھی لیکن معاشی حالات کے سبب پڑھائی ادھوری رہ گئی اور خواب پورا نہ ہوسکا۔ 
ترنم صابری (سنبھل، یوپی)
آئی اے ایس آفیسر بننا تھا


مَیں پڑھ لکھ کر آئی اے ایس آفیسر بننا چاہتی تھی۔ میرے والدین بھی مجھے پڑھانے کی خواہش رکھتے تھے۔ البتہ میری شادی بچپن ہی سے میرے چچا زاد سے طے ہوگئی تھی اور جیسے ہی میں نے بی اے کا ایگزام دیا اُدھر میری شادی کر دی گئی اور میری یہ خواہش پوری نہیں ہوسکی جس کا مجھے بے حد افسوس ہے۔ اگر ہوسکا تو مَیں اپنے ہی خاندان کی لڑکی کو آئی اے ایس آفیسر بننے میں مدد کروں گی۔ خدارا مجھے میرے اس مقصد میں کامیاب کرے (آمین)۔
گل شہانہ صدیقی (امین آباد، لکھنؤ)
بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرسکا


مَیں اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتی تھی۔ وہ پڑھائی کر بھی رہا تھا مگر ۲۰۱۹ء میں میرے شوہر کی طبیعت بگڑ گئی تو بیٹے کو اپنی تعلیم چھوڑ کر اپنے ابا کے ساتھ ان کا بزنس سنبھالنا پڑا۔ اس بات کا مجھے بہت قلق تھا۔ پھر دھیرے دھیرے یہ سوچ کر صبر کر لیا کہ اللہ جو کرتا ہے اچھے کے لئے کرتا ہے۔ اسی سال ۷؍ مہینے پہلے میرے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ تب مجھے اللہ کی مصلحت سمجھ میں آئی۔ آج میرا بیٹا اس قابل ہے کہ تنہا اپنا بزنس سنبھال رہا ہے اور ہم سب کو اس پر فخر ہے۔
یاسمین محمد اقبال (میرا روڈ، تھانے)
پی ایچ ڈی مکمل نہیں کرسکی


مَیں بچپن ہی سے بہت پڑھائی کی شوقین تھی۔ اسکول کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد اچھا رشتہ آگیا اور فوراً شادی کر دی گئی۔ سسرال میں آنے کے بعد میں نے گریجویشن کیا پھر چھوٹے بیٹے کی پیدائش کے بعد بی ایڈ کیا پھر ایم اے مکمل کیا۔ چونکہ میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتی تھی اس لئے ایم فل کا انٹرنس امتحان ممبئی یونیورسٹی سے دیا لیکن ناکامی ہاتھ آئی اور اس طرح میرا پی ایچ ڈی کرنے کا خواب ادھورا ہی ره گیا۔
شاہدہ وارثیہ (وسئی، پال گھر)
والدین کے چہرے کی خوشی


میرا ایک خواب تھا کہ میں اپنے والدین کے سامنے کسی ایسے منصب تک پہنچوں جس سے انہیں فخر محسوس ہوں اور ان کے چہرے پر خوشی ہو۔ میرے والدین اپنے بچوں کو یہی سکھاتے آئے تھے کہ زندگی میں کچھ اچھا ضرور کرنا اور اپنا نام روشن کرنا۔ آج جب میں زندگی میں کامیابی حاصل کر رہی ہوں تو اپنے والدین کے گزر جانے کے بعد یہ ملال مجھے تا عمر رہے گا کہ میں ان کے چہروں پر خوشی نہ دیکھ سکی اور ان کی تعریف سے محروم رہ گئی۔
 ہما انصاری (مولوی گنج لکھنؤ)
ڈاکٹر بننا چاہتی تھی مگر....


مَیں نے بھی اپنی آنکھوں میں کچھ خواب سجائے کہ مَیں اعلیٰ تعلیم حاصل کروں گی اور ڈاکٹر بنوں گی، ملک اور ملت کی خدمت کروں گی اور اپنے ماں باپ کا نام روشن کروں گی اور خاص طور سے ایسی غریب خواتین کے لئے اپنی خدمات انجام دوں گی جو اپنے وضع حمل کے لئے مہنگے اسپتال نہیں جا پاتیں اور اپنے بہتر علاج سے محروم رہ جاتی ہیں لیکن میرا یہ خواب ادھورا ہی رہ گیا۔ بی اے مکمل کرنے کے بعد میں اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکی اور میرا یہ خواب، خواب ہی رہ گیا۔
پھول جہاں (حیات نگر، یوپی)
ڈاکٹر بننے کا خواب ادھورا رہ گیا
میرا خواب تھا میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کروں اور ڈاکٹر بنوں مگر وقت نے ساتھ نہ دیا۔ میرے والد صاحب اور دادا نے کہا کہ دسویں کے بعد نہیں بارہویں کے بعد جانا۔ ایگزام مکمل ہونے پر میری شادی ہو گئی اور میرے شوہر کی پوسٹنگ علی گڑھ میں تھی۔ اس لئے شادی کے چھ دن بعد میں علی گڑھ آگئی۔ یہ میرے شوہر کی دوسری شادی تھی۔ میرے اوپر دو کم سن بچیوں کی پرورش کی ذمہ داری آگئی۔ ایک بچی کی عمر پانچ سال اور دوسری کی تین سال تھی۔ میں نے بہت اصرار کیا کہ میرا داخلہ اے ایم یو میں کرا دیجئے مگر اس وقت کے حالات نے اجازت نہیں دی۔ بہرحال اسی سال دونوں بچیوں کا ایڈمیشن اور میرے شوہر کا ایم بی اے میں داخلہ ہو گیا۔ اس طرح علی گڑھ آنے کا خواب تو پورا ہو گیا مگر ایک ڈاکٹر بننے کی خواہش دل میں ہی رہی۔ 
نجمہ طلعت (جمال پور، علی گڑھ)
اس شخص کا شکریہ ادا نہیں کرسکی


ہم سب گاؤں جارہے تھے۔ اسٹیشن پہنچنے میں دیر ہوگئی تھی اور افراتفری کے عالم میں میری دو سال کی بیٹی نے میرا ہاتھ چھڑا لیا اور خود سے گاڑی میں سوار ہونے کے لئے آگے بڑھی۔ لیکن وہ ٹرین اور پلیٹ فارم کے درمیانی خلاء میں گر گئی۔ اسی اثنا میں گاڑی نے سیٹی بجائی۔ میرے اوسان خطا ہوگئے۔ اچانک ایک شخص نیچے کودا اُس نے تیزی سے میری بچی کو پلیٹ فارم پر چڑھا دیا۔ میں غنودگی کے عالم میں یہ سب دیکھ رہی تھی۔ ٹرین چل پڑی تھی۔ میں نے پیچھے مڑ کر اُس شخص کو دیکھنا چاہا مگر وہ بھیڑ میں غائب ہو چکا تھا۔ کاش ! میں اُس کا شُکریہ ادا کر پاتی۔
عارفہ خالد شیخ (ناگپاڑہ، ممبئی)
ایم پی ایس سی کرنے کا خواب....


جب میں جماعت دہم میں پہنچی تو ایک کتاب خریدی۔ اتفاق سے وہ کتاب ایم پی ایس سی کی تیاری پر ماہر تعلیم نے لکھی تھی۔ کتاب پڑھنے کے بعد ٹھان لیا کہ اس کی پڑھائی میں ابھی سے شروع کر دوں گی۔ اگرچہ تب مزید امتحان پاس کرنے تھے۔ چند روز ہی گزرے تھے کہ والدہ سخت بیمار رہنے لگی۔ والد پولیس محکمے میں ہو نے کی وجہ سے بیمار والدہ کی دیکھ بھال مجھے ہی کرنی ہوتی۔ ڈاکٹر نے مرض کی تشخیص کی کہ خون کا کینسر ہے۔ بہرحال جو خواب دیکھا تھا وہ چکنا چور ہو گیا۔ والدہ کے انتقال کے بعد گھر کا شیرازہ ہی بکھر گیا اور ایم پی ایس سی کرنے کا خواب کہیں دھندلا ہو گیا۔
سیدہ نوشاد بیگم(کلوا، تھانے)
کاش! والد صاحب ہوتے تو دیکھتے....


میرے والد کا انتقال بہت جلد ہو گیا تھا، ہم تینوں بھائی بہن بہت چھوٹے تھے، ان کی کچھ کچھ یادیں ہی ذہن میں ہیں۔ وہ بہت زندہ دل انسان تھے۔ اتنے کم عرصے میں اُنہوں نے ہم لوگوں کو ہر خوشی دینے کی کوشش کی۔ شہر میں، شہر کے باہر ہمیں گھمانے لے گئے بلکہ حج کرنے بھی سب ساتھ ہی گئے تھے۔ بس ایک خواب یہی ره گیا کہ اگر زندگی اُن کو مہلت دیتی تو میں، امی، بہن، بھائی ہم سب لوگ ان کے ساتھ ایک اور ایسا سفر کرتے کہ اس کو یادگار بنا لیتے۔ کاش! اگر وہ ہوتے تو اپنے بچوں کو اپنے سامنے ہنستے بستے دیکھتے..... کاش وہ ہوتے....
فرح حیدر (اندرا نگر، لکھنؤ)
جج بننا چاہتی تھی


کچھ نہ کچھ خواب ادھورے ره جاتے ہیں۔ انہیں سوچ کر عجیب سی کیفیت ہو جاتی ہے۔ ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ کاش اب بھی وہ خواہش مکمل ہو جائے جو ادھورا رہ گئی تھی۔ جب تیسری جماعت میں ٹیچر نے میرا تعارف لکھوایا تھا۔ اس میں ایک جملہ تھا: میں بڑی ہو کر.....بننا چاہتی ہوں۔ میں نے اس خالی جگہ میں جج لکھا تھا۔ اور یہی میرا خواب تھا کہ قانون کے مطابق فیصلے کروں گی۔ کسی سے ڈرے بغیر، کسی کے دباؤ میں آئے بغیر انصاف کروں گی۔ لیکن میرا یہ خواب سماج، خاندان اور کھوکھلی ذہنیت کی نذر ہو گیا۔
صبا پروین محمد عقیل(شیواجی نگر، گوونڈی)
والد کے ساتھ حج یا عمرہ کا خواب تھا


ہر انسان کی کوئی نہ کوئی خواہش یا خواب ہوتا ہے۔ زندگی میں خوابوں کا ہونا بھی بہت ضروری ہے کیونکہ وہ خواب ہی ہوتے ہیں جو ہمیں محنت کی طرف راغب کرتے ہیں اسی طرح میرا بھی ایک خواب رہا ہے جو میں اپنے والد کے ساتھ پورا کرنا چاہتی تھی۔ میرا ہمیشہ سے ایک خواب تھا کہ جب میں صاحب حیثیت ہو جاؤں تو اپنے والد کے ساتھ حج یا عمرہ کیلئے جاؤں، لیکن یہ خواب، خواب ہی رہ گیا کیونکہ ان کا انتقال ہوگیا۔ شاید اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا۔ مَیں دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے والد کی مغفرت فرمائے اور ان کے تمام گناہوں کو معاف کرے (آمین)۔
فوزیہ پرویز شیخ (کھانڈیا اسٹریٹ، ممبئی)


اگلے ہفتے کا عنوان: میری ایک کوشش سے کسی کی اصلاح ہوئی۔اظہار خیال کی خواہشمند خواتین اس موضوع پر دو پیراگراف پر مشتمل اپنی تحریر مع تصویر ارسال کریں۔ وہاٹس ایپ نمبر: 8850489134

Odhani Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK