• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

میری مخلص سہیلی جسے مَیں کھونا نہیں چاہتی

Updated: August 03, 2023, 10:56 AM IST | Saaima Shaikh | Mumbai

گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔

A friend who supports both good and bad times in life is called sincere
زندگی میں اچھے اور برے، دونوں وقت میں ساتھ دینے والی سہیلی مخلص کہلاتی ہے

مخلص سہیلی نصیب سے ہی ملتی ہے

انور سلطانہ میری بچپن کی بہت مخلص سہیلی ہے۔ اس کے ساتھ بہت ساری یادیں وابستہ ہیں۔ وہ ایک نیک دل، خوش اخلاق اور بہت اچھے نیک نامور والدین کی اولاد ہے۔ اس کی بہت ساری باتیں میرے دل پر نقش ہیں۔ وہ بھی مجھے بہت مانتی ہے اور ہمیشہ بہت خیال رکھتی ہے۔ ہر معاملے میں مجھ سے صلاح مشورہ کرتی ہے۔ میری شادی کو ۴۵؍ سال گزر چکے ہیں لیکن آج تک اس سے ویسا ہی رشتہ ہے جیسا بچپن میں تھا۔ اس نے میرا بہت سے معاملات میں بہت ساتھ دیا۔ میری شادی میرے دادا کے وطن شیرکوٹ سے ہوئی اور وہ میرے ساتھ ایک ہفتہ پہلے سے چلی گئی اور میری شادی کی تمام تیاریاں مکمل کروائیں۔ آج بھی وہ مجھے ہر کام میں، ہر خوشی اور ہر غم میں شریک رکھتی ہے۔ اپنا ہر غم اور ہر خوشی مجھ سے ظاہر کرتی ہے۔ جب بھی میں اپنے وطن بجنور جاتی ہوں تو وقت نکال کر اس سے ضرور ملتی ہوں۔ گھنٹوں باتیں کرنے کے بعد بھی ایسا لگتا ہے ملاقات ادھوری ہے۔ وہ اسکول کی ساتھی ہے۔ جب ہم ملتے ہیں تو اسکول کے زمانے کا ذکر ہماری بات چیت کا مرکز ہوتا ہے۔
نجمہ طلعت (جمال پور، علی گڑھ)
ہماری دوستی ایک جان دو قالب کی مانند ہے


حضرت علیؓ فرماتے ہیں: دوستی کرنا اتنا آسان ہے، جیسے مٹی سے مٹی پر لکھنا۔ لیکن دوستی نبھانا اتنا مشکل ہے جیسے پانی سے پانی پر لکھنا۔
 ہر عمر کے انسان کا ایک مخلص دوست ہوتا ہے جو اسے اچھے اور برے وقت میں سہارا دیتا ہے۔ کسی بھی انسان کو پیدا ہوتے ہی خونی رشتے خود بخود حاصل ہو جاتے ہیں لیکن دوستی ایک ایسا رشتہ ہے جو قربانی اور ایثار سے بنتا ہے۔ زندگی میں حقیقی دوستی کا حصول آسان کام نہیں ہے لیکن جب ایسا دوست مل جاتا ہے تو کوئی بھی اپنی سچی دوستی کو کسی قیمت پر نہیں کھونا چاہتا۔ ہر انسان کی طرح میری بھی ایک مخلص سہیلی ہے جو مجھے جان سے زیادہ عزیز ہے۔ وہ میرے سکھ دکھ میں ساتھ رہتی ہے اور مجھے بھی اس سے لگاؤ ہے۔ ایسی مخلص سہیلی کو خدا نہ کرے کہ میں کبھی کھو دوں۔ اسکے بغیر میں جینے کا تصور بھی نہیں کرسکتی کیونکہ ہماری دوستی ایک جان دو قالب کی مانند ہے۔ 
سیدہ نوشاد بیگم (کلوا، تھانے)
میری ایمانی دوست
صبح اور شام کی سرخی، شفق میری خالہ زاد بہن اور ساتھ ہی ساتھ ایک مخلص سہیلی بھی۔ بچپن کے دنوں میں تو ہماری تفصیلی ملاقات صرف نانی کے گھر پر ہی ہوتی تھی لیکن دھیرے دھیرے ہم ڈجیٹل زمانے میں داخل ہوتے گئے اور فون پر بھی ہماری گفتگو ہونے لگی اور اس دوران ہم صرف خالہ زاد بہن ہی نہیں بلکہ کافی اچھی سہیلی بن چکے تھے۔ یوں تو ہماری زندگی میں بہت سارے دوست ہوتے ہیں لیکن آپ کا مخلص اور سچا دوست وہی ہے جو آپ کو ایمان کے قریب لے کر جائے۔ آپ کی ہر بات پر ہاں میں ہاں ملانے کے بجائے آپ کو صحیح اور غلط کا فرق بتائے۔ آپ کی غلط بات پر آپ کو روکے۔ آپ کی اچھائیوں اور آپ کے نیک کاموں پر آپ کی حوصلہ افزائی کرے۔ زندگی میں ایک ایسے دوست کا ہونا کافی ضروری ہے اور میں خوش قسمت ہوں کہ میرے پاس ایک ایسی دولت اور ایک ایسی سہیلی ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے ابو کے انتقال کے بعد اس نے کس طرح مجھے سنبھالا تھا، میرا حوصلہ بڑھایا تھا۔ شکریہ میری ایمانی دوست۔ ایسے مخلص لوگوں کو بھلا کون کھونا چاہے گا۔
سارہ فیصل (مئو، یوپی)

ان تمام سہیلیوں کو میں کبھی کھونا نہیں چاہتی


صاف نیت کے ساتھ دنیا کے کسی وقتی فائدے کی توقع کے بغیر کئے جانے والے کام یا عمل کو خلوص کہتے ہیں۔ ہمارے اطراف موجود کئی لوگ مخلص ہوتے ہیں جو خلوص کے ساتھ ہمارا کام کرتے ہیں جن میں ہماری سہیلیاں بھی شامل ہیں وہ ہمارے دکھ سکھ میں ہمارا ساتھ دیتی ہیں۔ میری بچپن کی سہیلیاں (رشتے داروں میں میری ہم عمر لڑکیاں)، اسکول اور مدرسہ کی سہیلیاں، کالج کی سہیلیاں، جہاں میں ملازمت کرتی ہوں وہاں کی سہیلیاں ان سب نے ہر وقت خلوص کے ساتھ میرا ساتھ دیا اور میری مدد کی۔ ان کا میں دل کی عمیق گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتی ہوں ساتھ ہی ساتھ ان تمام سہیلیوں کو میں کبھی کھونا نہیں چاہتی۔
عظیم النساء صاحب لال صوبیدار (شولاپور، مہاراشٹر)
شاذی تم میری سب سے اچھی سہیلی ہو


دوست خدا کی طرف سے عطا کیا گیا بہترین تحفہ ہے اور خدا نے ایسے کئی بیش بہا قیمتی تحفے مجھے بھی عطا کئے ہیں۔ لیکن میں یہاں جس کا ذکر کرنا چاہتی ہوں وہ ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں ایک ہے۔ میری تحریروں پر تبصرہ کرنیوالی، ان پر مبارکباد دینے والی، میری خوشی میں خوش اور غم میں غمگین ہونے والی، اس کی دلفريب مسکراہٹ مجھے ہر غم اور تکلیف سے آزاد رکھتی ہے۔ اس کا نام ہے شاذیہ رفیق، جو کہ اب شاذیہ سلیم کے نام سے جانی جاتی ہے۔ وہ ایک اچھی ناول نگار، افسانہ نگار اور بہترین شاعرہ ہے۔ وہ نہ صرف ایک اچھی دوست ہے بلکہ اس سے بڑھ کر وہ ایک اچھی انسان بھی ہے۔  ہاں ! شاذی تم میری سب سے اچھی اور پیاری سہیلی ہو!
ساجدہ جمال (بھیونڈی، تھانے)
ہم سہیلیوں کی دوستیاں دوام پا رہی ہیں


طالب علمی کے زمانے کی سہیلیاں جنہیں میں کبھی کھونا نہیں چاہوں گی، ان میں نسرین، نرگس، یاسمین، عارفہ اور تبسم شامل ہیں۔ نسرین میری طرح بھیونڈی شہر میں سکونت پذیر ہے، انتہائی نرم دل اور مخلص ہونے کی وجہ سے ہم سہیلیاں اس کی قدر کرتے تھے۔ اسی طرح یاسمین ہے جو فی الحال دھولیہ شہر میں خوشحال زندگی بسر کر رہی ہیں۔ وہ روتی ہوئی سہیلی کے چہرے پر مسکراہٹ لے آتی تھی۔ عارفہ کو دین سے بڑا لگاؤ تھا۔ فی الحال وہ گجرات میں ہے اور اپنے سسرال میں خوش ہے اور دینی اجتماع اور تبلیغ کا کام کرتی ہے۔ ہم سہیلیوں کی دوستیاں دوام پا رہی ہیں۔ اسی لئے میں اپنی مخلص سہیلیوں کو کبھی کھونا نہیں چاہوں گی۔
نصرت عبدالرحمٰن (بھیونڈی، تھانے)
میری سہیلی میری امی


میری تو بہت ساری سہیلیاں تھیں اور ہیں۔ الحمدلله سب کی سب بے حد مخلص تھیں جو ہیں وہ بھی کم نہیں۔ لیکن ان سب میں جو میرے لئے سب زیادہ مخلص تھیں وہ میری امی جان عزیز آرا تھیں۔ ان کی زندگی میرے لئے ایک روایتی ماں سے قطعاً مختلف تھی۔ وہ مثالی شخصیت تھیں۔ ۹؍ اپریل ۲۰۱۰ء کو اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ میرے لئے وہ ماں سے زیادہ میری سہیلی تھیں۔ جس طرح ننھے سے بچے کو اس کی انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا جاتا ہے اسی طرح وہ میری دوست بن کر سدا میری رہنمائی کرتی رہیں۔ دنیا کہتی ہے کہ ’’وہ لحد میں محفوظ ہیں‘‘ لیکن کوئی مجھ سے پوچھے ’’وہ میرے دل میں رہتی ہیں اور سدا رہیں گی۔‘‘ یہ سچ ہے ’’میں انہیں کھونا نہیں چاہتی۔‘‘
ناز یاسمین سمن (پٹنه، بہار)
بیمار سہیلی کیلئے پریشان ہوگئی تھی


اپنی سہیلیوں سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ میری سہیلیاں میری طاقت ہے۔ ان کی خوشی دیکھ کر میں خوش ہوجاتی ہوں اور انہیں غم میں مبتلا دیکھ کر پریشان ہو جاتی ہوں۔ لاک ڈاؤن کی بات ہے تب میری سہیلی تحسینہ شیخ کی طبیعت خراب ہوگئی تھی۔ یہ سن کر مَیں کافی پریشان ہوگئی تھی۔ اس وقت میرے پاس دعا کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ میں ہر وقت اس کی صحت یابی کے لئے اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعا کرتی رہتی تھی۔
 ربِ کریم نے میری دعا کو شرف قبولیت بخشا اور آج الحمدللہ وہ صحت یاب ہے۔ میں تحسینہ شیخ اور دیگر تمام سہیلیوں کو کبھی کھونا نہیں چاہتی۔
واحدہ تبسم آصف شاملیک (شولاپور، مہاراشٹر)
ہر مشکل میں وہ شانہ بنی