کبھی کبھی ماں باپ سے ایسی کئی چیزیں ہو جاتی ہے جو بچوں کے ذہن پر غلط تاثر چھوڑ جاتی ہیں کیونکہ مانا جاتا ہے کہ بچوں کا ذہن ایک کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے اور اس کورے کاغذ پر کچھ بھی لکھا جاتا ہے تو وہ ہمیشہ کیلئے نقش ہو جاتا ہے ،یاد رہےکہ بچپن کی باتیں اور عادتیں آسانی سے ہمارے دماغ سے نہیں جاتیں
والدین بچے کے ساتھ ۔ تصویر : آئی این این
کوئی ماں باپ نہیں چاہتے ہیں ان کی اولاد کچھ بھی غلط سیکھیں۔ مگر کبھی کبھی ماں باپ سے ایسی کئی چیزیں ہو جاتی ہے جو بچوں کے ذہن پر غلط تاثر چھوڑ جاتے ہیں کیونکہ مانا جاتا ہے کہ بچوں کا ذہن ایک کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے اور اس کورے کاغذ پر کچھ بھی لکھا جاتا ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے نقش ہو جاتا ہے ،یاد رہےکہ بچپن کی باتیں اور عادتیں آسانی سے ہمارے دماغ سے نہیں جاتیں۔
اگر وقت رہتے ان چیزوں پر توجہ نہ دی جائے تو ہماری یہ غلطیاں آگے چل کر ہمارے بچوں کے تابناک مستقبل میں رکاوٹ کا سبب بن جاتی ہے۔ تو چلئے جانتے ہیں کہ ایسی کون سی باتیں ہیں جن پر ایک ماں باپ کا دھیان دینا بہت ضروری ہے:
بچوں کے سامنے غیر مہذب الفاظ کا استعمال نہ کریں
جب پہلی بار ایک بچہ اپنے پہلے لفظ کے طور پر ماں یا باپ یا کچھ بھی کہتا ہے تو اس کا یہ پہلا لفظ ایک ماں باپ کے کانوں کو بھلا معلوم ہوتا ہے اور وہ کبھی اپنے بچے کے پہلےلفظ کو نہیں بھول پاتے۔ حالانکہ بچہ بولنے کے ساتھ ساتھ زندگی کا ایک اور انمول سبق سیکھتا ہے اور وہ ہے، آپ کے نقشے قدم پر چلنا، مگر ذرا سوچئے کہ کیا ہوگا اگر آپ کے بچے کے ذریعے بولا گیا پہلا لفظ ایک اشتعال انگیز لفظ ہے.... آپ کیسا ردّعمل ظاہر کریں گے؟
بحیثیت والدین، آپ کو ہمیشہ ایک چیز کا دھیان رکھنا چاہئے کہ آپ کبھی بھی جانے انجانے میں اپنے بچوں کے سامنے غلط الفاظ کا استعمال نہ کریں۔ کیونکہ بچے بہت جلدی بولنا سیکھتے ہیں اور اگر وہ آپ کو اس کا استعمال کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ سوچتے ہیں کہ اس کا استعمال کرنا اچھا ہے اور پھر بچے بھی اسی زبان کو اپنانے لگتے ہیں جس کے سبب آپ کو شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے۔
بچوں کے سامنے کبھی بھی ایک دوسرے
کی توہین نہ کریں
آج کل کے دور میں لڑائی یا توہین کسی بھی طرح کی صورتحال کا حل نکالنے کا ایک آسان طریقہ بن گیا ہے۔ اکثر والدین اپنے بچوں کے سامنے ہی کسی بھی چھوٹی بڑی بات پر لڑنا یا ایک دوسرے کی توہین کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ مگر آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ آپ کی لڑائی بچوں کو کتنا اثر انداز کرسکتی ہے۔ یونیورسٹی آف ایسٹ انگلینڈ کے ذریعے کئے گئے ایک ریسرچ میں بتایا گیا کہ جو بچے متوسط خاندان میں بڑے ہوتے ہیں ان میں دوسرے بچوں کی بہ نسبت ’سیلی بیلم‘ چھوٹے ہوتے تھے۔ ’سیلی بیلم‘ دماغ کا ایک حصہ ہے جو نفسیات سے جڑا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ان بچوں میں نفسیاتی بیماری ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
اس لئے ہر ماں باپ کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنے آپسی اختلافات کو بند دروازے کے پیچھے ہی سلجھا لیں اور ایک دوسرے کا احترام کریں اور خود کو اپنے بچوں کی نگاہوں میں ایک بہترین جوڑا ثابت کریں کیونکہ آپ کا بچہ آپ کی پرچھائی ہوتا ہے اور اگر آپ ہی ایک دوسرے کا احترام نہیں کریں گے تو بچوں کی نگاہوں میں آپ کی شبیہ خراب ہو جائے گی، پھر آپ کا اپنے بچوں کی جانب سے عزت و احترام پانا کافی مشکل ہو جائے گا اور اس کی یہ حرکت اسے غلط راستے پر بھی لے جاسکتی ہے۔
رشوت کی عادت
’’پاپا، اگر میں دکان میں اچھا برتاؤ کرتا ہوں تو مجھے کیا ملے گا؟‘‘ یا ’’پاپا! اگر مَیں اپنا ہوم ورک کر لوں گا تو مجھے کیا ملے گا؟‘‘ مَیں نے یہ جنرل اسٹور کی دکان سے گزر رہے کسی بچے کو اپنے پاپا سے پوچھتے ہوئے سنا۔ مَیں یہ سن کر آگے بڑھ گئی کیونکہ مجھے لگا کہ جواب تو مجھے پتہ ہے مگر اچانک چند لفظوں نے میرے پیروں کو روک لیا۔ کیونکہ اس کے والد کا جواب تھا ’’بیٹا! آپ کو ایک خوشحال خاندان ملے گا۔‘‘ ان کے اس جواب سے مجھے ایک بہت بڑی سیکھ سیکھنے کو ملی کہ رشوت دینا اور لینا تو ہم ہی اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں اور کہیں نہ کہیں ان کے اندھیرے سے پُر مستقبل میں ہمارا بھی ایک بہت بڑا رول ہے۔
دوستو! رشوت بچوں کو احترام اور ذمہ داری سکھانے میں بالکل ناکام ہوجاتے ہیں۔ یہ صرف ان کے اندر ایک لالچ کا جذبہ پیدا کرتی ہے جو بعد میں انہیں مشکل صورتحال میں ڈال سکتی ہے۔ لہٰذا والدین کی مؤثر صلاحیتوں پر عمل کریں جو بغیر بچے کی مدد کئے کسی بھی شرط کو اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے آگاہ کریں۔
بچوں کے سامنے کبھی بھی شیخی نہ بگھاریں
یہ اکثر کئی گھروں میں دیکھا جاتا ہے کہ لوگ اپنے عہدے اور اپنے پیسوں کا شور اپنے بچوں کے سامنے ہی مچانے لگتے ہیں۔ کچھ گھروں میں تو مَیں نے یہاں تک ماں باپ کو کہتے سنا ہے کہ ’’یہ تو ہمارا کلوتا بیٹا ہے۔ ہمارا سب کچھ تو اسی کا ہے، اگر پڑھائی میں من نہیں لگے گا تو ہم اسے کاروبا کرکے دیں گے۔‘‘ اس بے جا لاڈ و پیار سے بچہ کبھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ ہی نہیں پائے گا اور بعد میں آپ کو آپ کے بچوں کو مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے