جدید طرزِ زندگی، تعلیمی دباؤ، سوشل میڈیا کے اثرات اور گھریلو مسائل نے بچوں کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ وہ ذہنی تناؤ، ڈپریشن اور اضطراب جیسے مسائل کی زد پر رہتے ہیں۔ یہ حقیقت نہ صرف ماہرین ِ نفسیات کے لئے تشویش کا باعث ہے بلکہ والدین خصوصاً ماؤں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔
مائیں بچوں کے ساتھ وقت گزاریں اور انہیں بھرپور توجہ اور محبت دیں تو زندگی رشک ِ بہار ہوجائے۔ تصویر: آئی این این
آج کے دور میں جہاں ترقی اور جدت نے انسان کی زندگی کو سہولتوں سے بھر دیا ہے، وہیں کئی نئے چیلنجز بھی سامنے آ رہے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا چیلنج نو عمر بچوں کی ذہنی صحت کا ہے۔ جدید طرزِ زندگی، تعلیمی دباؤ، سوشل میڈیا کے اثرات، اور گھریلو مسائل نے بچوں کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ وہ ذہنی تناؤ، ڈپریشن اور اضطراب جیسے مسائل سے دوچار ہیں۔ یہ حقیقت نہ صرف ماہرین ِ نفسیات کے لئے تشویش کا باعث ہے بلکہ والدین خصوصاً ماؤں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ نو عمر بچوں کی ذہنی صحت پر اثر انداز ہونے والے عوامل جانئے:
(۱)تعلیمی دباؤ
مقابلے کی دوڑ میں بچے ہر وقت نمبرات اور کامیابی کے دباؤ میں رہتے ہیں۔ ناکامی یا کم کارکردگی ان کے اعتماد کو توڑ دیتی ہے۔
(۲)سوشل میڈیا اور اسکرین کا استعمال
گھنٹوں موبائل فون یا کمپیوٹر پر وقت گزارنے سے بچے حقیقت کی دنیا سے کٹ جاتے ہیں۔ دوسروں کی زندگیوں سے موازنہ انہیں احساسِ کمتری میں مبتلا کرتا ہے۔
(۳)گھریلو ماحول
والدین کے جھگڑے، بے سکونی یا بچوں پر حد سے زیادہ تنقید ان کی ذہنی صحت پر برا اثر ڈالتی ہے۔
(۴)دوستیوں کے مسائل
ہم عمر ساتھیوں کی جانب سے طنز، بُلینگ یا تنہائی بچے کے ذہن پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔
(۵)توقعات کا بوجھ
والدین اکثر نادانستہ طور پر بچوں پر اپنی خواہشات اور خوابوں کا بوجھ ڈال دیتے ہیں، جس سے بچہ دباؤ میں آ جاتا ہے۔
(۶)کوئی رائے قائم کر لینا
والدین بچوں کے بارے میں پہلے ہی رائے قائم کر لیتے ہیں جیسے کہ ’’ضرور تمہاری ہی غلطی ہوگی‘‘ یہ سوچ بچوں کو الجھن میں مبتلا کر دیتی ہے اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اچھا کام کرنے سے کتراتے ہیں۔
ماؤں کا کردار اور ذمہ داریاں
بچے کی ذہنی صحت کے سفر میں سب سے مؤثر کردار ماں کا ہوتا ہے۔ بچہ اپنی ماں کو سب سے زیادہ قریب سمجھتا ہے اور اس کے رویے سے سکون یا پریشانی محسوس کرتا ہے۔ اس لئے مائیں بچوں کی بہتر ذہنی صحت کے لئے اِن باتوں کا خیال رکھیں:
(۱)محبت اور اعتماد کا رشتہ
ماں کو چاہئے کہ بچے کے ساتھ ایسا ماحول قائم کرے جہاں وہ بلا جھجک اپنی بات کرسکے۔ ایک چھوٹی سی توجہ اور پیار بھرا لمس بچے کے دل سے کئی خوف ختم کر دیتا ہے۔ سب سے اہم بات، بچوں پر اعتماد کرے، اس سے انہیں حوصلہ ملتا ہے۔
(۲)گفتگو اور سننے کی عادت
بچے کی بات بغور سننا نہایت اہم ہے۔ اکثر بچے چاہتے ہیں کہ کوئی ان کی مشکل کو سمجھے، حل فوراً نہ بھی دیا جائے تب بھی صرف توجہ سے ان کا بوجھ کم ہو جاتا ہے۔
(۳)حوصلہ افزائی اور مثبت سوچ
ماں کو چاہئے کہ بچے کا موازنہ دوسروں سے نہ کرے بلکہ اس کی صلاحیتوں پر اعتماد دلائے۔ چھوٹی کامیابیوں کو بھی سراہنے سے بچہ خود اعتمادی حاصل کرتا ہے۔
(۴)روحانی و اخلاقی تربیت
نماز، دعا، ذکر اور اچھی عادات کی ترغیب بچے کو باطنی سکون اور مضبوطی فراہم کرتی ہے۔ یہ تربیت بچے کو مشکلات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔
(۵)مثبت مصروفیات فراہم کرنا
کھیل، مطالعہ، فنون اور خاندان کے ساتھ وقت گزارنا بچے کی شخصیت کو متوازن کرتا ہے اور ذہنی دباؤ کو کم کرتا ہے۔
(۶)اسکرین ٹائم پر قابو
موبائل فون اور ٹی وی کے بے جا استعمال سے بچوں کو بچانا نہایت ضروری ہے۔ ماں اگر وقت کا نظم کر دے تو بچہ اپنی توجہ تعلیم اور مثبت سرگرمیوں پر لگا سکتا ہے۔
(۷)پیشہ ورانہ مدد حاصل کرنا
اگر بچے میں ڈپریشن، خود اعتمادی کی شدید کمی یا ذہنی دباؤ کے آثار نظر آئیں تو ماں کو ہچکچائے بغیر ماہرِ نفسیات یا کاؤنسلر سے رجوع کرنا چاہئے۔ بروقت قدم اٹھانا بچے کے مستقبل کو بچا سکتا ہے۔
نتیجہ
نو عمر بچوں کی ذہنی صحت صرف ان کی ذاتی زندگی تک محدود نہیں رہتی بلکہ یہ پورے معاشرے کے مستقبل پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اگر بچے آج ذہنی دباؤ میں پلیں گے تو آنے والی نسلیں بھی عدم اعتماد اور کمزوری کا شکار ہوں گی۔ مائیں اپنی محبت، توجہ اور سمجھداری کے ذریعے ان مسائل کا بہترین حل فراہم کرسکتی ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ والدین بچوں کو وقت دیں، ان کے احساسات کو سمجھیں، اور ان کی شخصیت کو اعتماد اور مثبت رویوں کے ساتھ پروان چڑھائیں۔