بچے اپنے آس پاس کے ماحول میں خود کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خاص طور پر ماں کی شخصیت کا ان پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ ماں کی عادات و اطوار دھیرے دھیرے بچے اپنے اندر جذب کرتے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ کم عمری سے شروع ہوجاتا ہے۔ اس دوران گھر کے بڑوں کو اپنے قول و فعل پر توجہ دینی چاہئے۔
اگر گھر میں بڑے ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور بچوں کو ہمیشہ سچ بولنے کی تلقین کرتے ہیں تو بچے بھی ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔ تصویر:آئی این این
بچّے متجسس ہوتے ہیں۔ وہ اپنے بڑوں کا مشاہدہ کرتے ہیں اور ان کی تقلید کرتے ہیں۔ وہ اپنے آس پاس کے ماحول میں خود کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خاص طور پر ماں کی شخصیت کا ان پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ ماں کی عادات و اطوار دھیرے دھیرے بچے اپنے اندر جذب کرتے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ کم عمری سے شروع ہوجاتا ہے۔ اس دوران گھر کے بڑوں کو محتاط رہنا چاہئے۔ بڑوں کو خاص طور پر اپنے قول و فعل پر توجہ دینی چاہئے۔ دراصل ہوتا یہ ہے کہ بڑے ہمیشہ بچوں کو نصیحت کرتے ہیں لیکن بڑے خود اپنی کہی نصیحتوں پر عمل نہیں کرتے۔ جب بچے دیکھتے ہیں کہ بڑوں خود اپنی کہی ہوئی نصیحت پر عمل نہیں کرتے تو وہ بھی اس کی اہمیت کو فراموش کر دیتے ہیں۔ اگر گھر کے بڑے بچوں کو نصیحت کرنے سے قبل خود اُن پر عمل کریں تو بچے خود اُن کی تقلید کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح بچوں کی سوچ کو ایک مثبت سمت ملتی ہے جو اُن کو بہتر انسان بننے میں مدد کرتی ہے۔
موجودہ حالات میں قول و فعل کا تضاد عام ہوتا جا رہا ہے اور قول و فعل کا تضاد بچوں کی اخلاقی گراوٹ کا سبب بنتا ہے۔ بچوں کو نصیحت تو کی جاتی ہے کہ ہمیشہ سچ بولو لیکن عملی طور پر گھر کے معاملات میں بڑے جھوٹ بولتے نظر آتے ہیں۔ مائیں وقت کی پابندی کی نصیحت تو کرتی ہیں لیکن اُن کے کام میں وقت کی پابندی نظر نہیں آتی۔ گھر کے بزرگ وعدہ نبھانے کی تاکید کرتے ہیں مگر بچوں سے جھوٹے وعدے کرتے ہیں۔ کسی کی غلطی کو معاف کر دینا چاہئے، ایسی نصیحت اکثر بڑے، بچوں کو کرتے ہیں مگر عملی طور پر خاندانی اختلافات کے سبب سگے رشتوں میں بول چال بند رہتی ہے۔ وعظ بیان بچوں پر اثر نہیں کرتا۔ بچے عملی طور پر جو دیکھتے ہیں وہی سیکھتے ہیں۔
قول و فعل کے اس تضاد پر بچے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ سچائی پر قائم رہنا، وقت کی پابندی کرنا، وعدہ کا پابند ہونا، محبت و خلوص سے پیش آنا، معاف کرنا وغیرہ، نصیحتیں زبان کی حد تک محدود ہیں۔ ان پر عمل کرنے سے انسانی پیچھے رہ جائے گا اور اب زمانہ بدل گیا ہے۔ جھوٹ بولنا، نفرت اور حسد کرنا، تشدد کرنا، چھوٹی چھوٹی باتوں کو درگزر کرنے کے بجائے انتقام لینا اب زندگی کے نئے پیمانے ہیں۔ خیال رہے کہ بچے صاف و شفاف آئینے ہوتے ہیں۔ اگر آپ غور کریں گے تو محسوس ہوگا کہ بچے وہی کرتے ہیں جو آپ کو دن بھر کرتا دیکھتے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ بچہ نہ فرشتہ ہوتا ہے نہ شیطان۔ اس میں نیکی و بد کی دونوں خصلتیں موجود ہوتی ہیں۔ تربیت کے ذریعہ بچوں کو صحیح اور غلط کا فرق کرنا سکھایا جاتا ہے۔ لیکن قول و فعل میں یکسانیت نہ ہو تو بچوں پر بُرائی غالب آجاتی ہے۔ یاد رہے کہ زبانی نصیحتیں ریت پر لکھی ہوئی تحریریں ہوتی ہیں جو سمندر کے پانی کی ایک لہر ہی سے وہ مٹ جاتی ہیں۔
ماں بچے کی پہلی استاد اور رول ماڈل ہوتی ہے۔ ماں کی عادات و اطوار اور رویے کو وہ باریک بینی سے مشاہدہ کرتا ہے۔ اگر ماں ہمیشہ سچ بولتی ہے اور بچوں کو ہمیشہ سچ بولنے کی تلقین کرتی ہے تو بچے بھی ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔ اگر ماں وقت کی پابند ہے تو بچے بھی وقت کی قدر کرتے ہیں۔ اگر ماں چھوٹی چھوٹی باتوں کو درگزر کرکے رشتوں کو اہمیت دیتی ہے تو بچے بھی اس کے پابند ہوتے ہیں۔ قول و فعل کا یکساں ہونا لاشعوری طور پر بچے کے کردار میں جذب ہوجاتا ہے۔ یہ کردار سازی لمحہ بہ لمحہ ماں کی کوشش کا نتیجہ ہوتا ہے۔
بچوں کی تربیت کے دوران ماؤں کو اِن باتوں کا خیال رکھنا چاہئے:
کبھی کبھی کسی کام کی وجہ سے گھر کے بڑوں بچوں کو کہہ دیتے ہیں کہ جاؤ باہر کوئی انکل آیا ہے ان سے کہنا کہ فلاں گھر پر نہیں ہے۔ اس قسم کا واقعہ بیشتر گھروں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ بڑوں کو اپنے مفاد کے لئے بچوں سے جھوٹ نہیں بولوانا چاہئے۔ اس سے ان کی شخصیت متاثر ہوتی ہے۔
بیشتر گھروں میں امیر اور غریب رشتہ داروں کے درمیان فرق کیا جاتا ہے۔ اس پر بچے کی شخصیت پر منفی اثر پڑتا ہے۔ وہ بھی بڑے ہو کر اس تعصب کو برقرار رکھتے ہیں۔
بعض دفعہ دیکھا جاتا ہے کہ اگر پڑوسن کوئی سامان مانگنے آئے تو ماں جان بوجھ کر ’’نہیں ہے‘‘ کہہ کر منع کر دیتی ہے۔ اس عمل سے بچے سمجھتے ہیں کہ اپنی چیز دوسروں کو نہیں دینی چاہئے۔ جبکہ بڑے بچوں کو اپنا سامان دوسروں کو دینے کی تلقین کرتے ہیں۔ یہ متضاد سوچ بچوں کو کنفیوژ کرتی ہے۔
’’بڑوں کا ادب و احترام کرنا چاہئے۔‘‘ اس بات کی تلقین کرکے بیشتر بڑے پیٹھ پیچھے اپنے بزرگوں کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ بڑوں کا احترام غائبانہ بھی قائم رہنا چاہئے۔
بچوں کو کوئی بھی نصیحت کرتے وقت دھیان رکھیں کہ آپ اس پر کتنا عمل کرتے ہیں۔