بچوں سے شفقت اور صلہ رحمی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بھی والدین سے محبت کر تے ہیں ۔ اُن کے دِل میں اُن کیلئے عزت اور نرم گوشہ پیدا ہوتا ہے اور وہ اُنہیں اپنا محسن و مربی تسلیم کرتے ہیں جبکہ بعض مرتبہ دیکھا یہ گیا ہے کہ بچّے والدین کی عزت نہیں کرتے ، اُن کی نا فرمانی کرتے ہیں ، یہ اُن کی بدنصیبی کے سِوا کچھ نہیں ہے۔
والدین بچپن سے اپنی اولا د کو بناتے سنوارتے ہیں اور ان میں اچھی عادتیں پیدا کرتےہیں۔ تصویر:پی ٹی آئی
بچے والدین کا کُل سرمایہ ہوتے ہیں۔ بچّوں کے سکھ میں والدین کا سکھ اور اُن کے دُکھ میں والدین کا دُکھ شامل ہوتا ہے۔ بچوں کی نشو و نما اور ان کی ترقی میں والدین کا اہم کردار ہوتا ہے۔ تمام والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اُن کے بچّے پھلے پھولیں اور خُوب ترقی کریں۔ اپنے مقصد کے حصول میں وہ تن من کی بازی لگا دیتے ہیں۔ اپنے بچوں کی تندرستی اور تعلیم و تربیت نیز کامیابی کیلئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور ایسا کرنے میں انہیں کبھی بوریت کا احساس نہیں ہوتا ہے اور وہ بے زاری کا اظہار بھی نہیں کرتے۔
اِنسان فطرتاً ہر شے سے جلد یا بہ دیر اُکتا جاتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کیلئے کئے جانے والے اعمال سے، اُن کی ایک جیسی باتوں سے، ایک جیسی حرکات و سکنات سے بے زار نہیں ہوتا کیوں ؟ اِس کا آسان جواب خداوند بُزرگ و برتر کی وہ حکمتِ عملی ہے جِس کے طفیل اللہ نے والدین کے دِل میں اولاد کے تئیں ازل سے ابد تک ایسی محبت ودیعت کر رکھی ہے جِس کا توڑ مشکل ہے۔ والدین کا اپنے بچوں سے پیار چونکہ فطری عمل ہے اس لئے آئیے ہم جانتے ہیں کہ والدین اپنے بچوں کی پرورش اور بہتر مستقبل کیلئے کس قدر کوشاں رہتے ہیں ؟ سب سے پہلے تو اُس کا اچھا نام رکھا جاتا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو نام کا ہماری زندگی پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچّوں کے اچھے نام رکھنے کی تلقین کی ہے۔ والدین اتباع رسولؐ کی پیروی کرتے ہیں اور نیک نام رکھتے ہیں جن میں صحابہ کرام اور ازواجِ مطہرات کے ناموں کو فوقیت دی جاتی ہے۔
غذائی اجناس سے بچوں کو تقویت دی جاتی ہے۔ تاکہ اُنہیں ہر قسم کی جسمانی و دماغی کمزوری سے دور رکھا جائے اُن کی نشو ونما بہتر انداز میں ہو۔ والدین بچّوں کی پرورش اور اُن کی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لئے حصولِ معاش اور تلاشِ رزق میں ہمہ وقت سر گرداں رہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: سوشل میڈیا کے جنگل میں بچے کو تنہا نہ چھوڑیئے، بھٹک جائے گا
بعض اوقات مرضی نہ ہونے پر بھی اولاد کی خاطر اپنی انا اور خودداری کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں جبکہ ایسا کرنے پر وہ زِندگی بھر خود سے آنکھیں چُراتے ہیں۔ یہ اولاد کی محبت میں گرفتار وہ مجبور والدین ہوتے ہیں جو خود سے بے نیاز ہوجاتے ہیں۔ بچّے جب پہلا لفظ بولنے کے قابل ہو تے ہیں تب اُنہیں اسلامی تعلیمات کے ساتھ عصری علوم کی معلومات فراہم کی جاتی ہے۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ ہمارا رب کون ہے ؟ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں ؟ اور ہمارا دین کونسا ہے ؟ اطراف و اکناف کی چیزوں کے خاص و عام اسماء بتائے جاتے ہیں تاکہ وہ دُنیا کو جان سکیں اور زِندگی کے راستے پر پہلا مضبوط قدم رکھ سکیں۔
بچے جب چلنے کے لائق ہوتے ہیں اور اپنے چھوٹے چھوٹے قدموں سے اپنی منزل کو پانا چاہتے ہیں اُس وقت اُنہیں اسکول اور مدرسے جانے کیلئے تیار کیا جاتا ہے۔ یہاں سے اُن کی عملی زندگی کی تصویر بنائی جاتی ہے۔ ان کی خوش آئند زندگی کے لئے اچھے سے اچھے اسکول اور مکتب کا اِنتخاب کیا جاتا ہے اور آنے والی زندگی کا لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے۔
اِن مراحل کی تکمیل میں والدین کے بیش قیمتی ماہ و سال صرف ہوتے ہیں۔ والدین موسم کی سرد گرم کے باوجود اپنے بچوں کیلئے ہمیشہ مستعد رہتے ہیں۔ ان کی بیماری، تکلیف اور درد میں بے چین رہتے ہیں اور ان کی مشکلات کے حل میں سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ حیات باکمال کی جملہ پونجی بھی اُن کی پڑھائی، کردار سازی اور کریئر سازی میں لگا دیتے ہیں۔ یہ والدین کے وہ چند جملہ احسانات ہیں جن کا نعم البدل ممکن نہیں۔ اسی لئے قرآن پاک بھی والدین کے لئے حُسن سلوک کا درس دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے والدین کی ان ہی قربانیوں کے عوض اُنہیں بلند ترین مرتبے پر فائز کرتے ہوئے والدہ کے قدموں تلے جنت تو والد کو جنت کے دروازے کا محافظ مقرر فرمایا ہے جن کی خوشنودی سے رضائے الٰہی حاصل ہوتی ہے۔
صلح رحمی اور شفقت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچے بھی والدین سے محبت کرتے ہیں۔ اُن کے دِل میں اُن کے لئے عزت اور نرم گوشہ پیدا ہوتا ہے اور وہ اُنہیں اپنا محسن اور رہبر تسلیم کرتے ہیں جبکہ بعض مرتبہ دیکھا یہ گیا ہے کہ بچّے والدین کی عزت نہیں کرتے، اُن کی نا فرمانی کرتے ہیں۔ یہ بچّوں کی بدنصیبی کے سِوا کچھ نہیں ہے لیکن اگر سوچا جائے کہ ایسا کیوں ہوا ؟ بچّے ایسا کیسے کر سکتے ہیں ؟ تو اِس کے لئے اپنا محاسبہ کرنا ضروری نظر آتا ہے۔ بچّوں کو اپنا بنانے کے لئے ضروری ہے کہ اُنہیں اچھے پیرائے میں صحیح اور غلط کی پہچان کرائی جائے۔ ڈانٹ ڈپٹ اور تشدّد سے پرہیز کریں۔ بچوں میں حق بات کہنے اور سچ سننے کی عادت ڈالیں۔
وقت کو فضول کاموں میں برباد نہ کرنے کی تاکید کریں اور خود ایسے کاموں سے اجتناب کریں۔
دوستوں، رشتے داروں اور پڑوسیوں سے خندہ پیشانی سے ملنے کا درس دیں۔ بچّوں کی غلطیوں کو دوسروں پر ظاہر نہ کریں اور نہ اُنہیں سب کے سامنے شرمندہ کریں۔ ساتھ ہی اپنا قد اونچا کرنے کے لئے بچّوں کی جھوٹی تعریفیں بھی نہ کریں۔ برائی اور بھلائی کے فرق کو واضح کرتے ہوئے جنت و جہنم کا تصور پیش کریں اور نیکی پر انعام اور بدی پر سزا کا حقیقی مفہوم سمجھائیں۔ یہ سبھی باتیں اُس وقت ممکن ہیں جب بچّوں کو جاگیر نہ سمجھتے ہوئے اُنہیں اپنا دوست، ہمدرداور غم گسار بنائیں۔
اگر بچّوں کو اپنی مرضی سے اعتدال کے ساتھ ہر جائز کام کرنے کی اجازت اور آزادی دیں، اُنہیں آنے والی زندگی کی منزل کا پتہ دیں اور اُن کی رہنمائی کرتے ہوئے ہر قدم پر اُن کا ساتھ دیں تو اُن میں آپ کے تئیں بھروسہ پیدا ہو گا، اُن کی ہمت و خوداعتمادی بڑھے گی اور وہ آپ سے پیار کرنے لگیں گے۔
یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جہاں پیار ہوگا وہاں عزت بھی ہوگی اور جہاں عزت ہوگی وہاں مرتبہ بھی بڑھے گا۔