گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔
EPAPER
Updated: December 28, 2023, 3:31 PM IST | Saaima Shaikh | Mumbai
گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔
کفایت شعاری پریشانیوں کو کم کرتی ہے
روپے پیسے کو عقل و دانائی سے خرچ کرنے کا نام کفایت شعاری ہے۔ یعنی فضول خرچی اور کنجوسی کی درمیانی حالت کو کفایت شعاری کہتے ہیں۔ کفایت شعاری ایسی عادت ہے جو ہر حال میں مفید ثابت ہوتی ہے اور ایسا عمل ہے جو ہر حال میں عمدہ و معاون ثابت ہوتا ہے۔ کفایت شعاری پریشانیوں کو کم کرتی ہے اور زندگی پُرسکون گزرتی ہے۔ کفایت شعاری کو اپنانے کیلئے روزمرہ کا حساب لکھنا ضروری ہے۔ خرچ کرتے وقت سوچیں یہ ہمارے لئے ضروری ہے یا نہیں۔ محدود آمدنی میں سے کچھ نہ کچھ بچا لینا عقلمندی اور دور اندیشی کا تقاضا ہے۔ اپنے اخراجات کا جائزہ لیتے رہیں۔ غیر ضروری اخراجات سے بچیں۔
شیخ تحسین حبیب (گھنسولی، نوی ممبئی)
ضروری سامان کو ترجیح
کم آمدنی میں گھر کیسے چلایا جائے یہ بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ جب ہماری آمدنی کم ہو تو ہمیں ہمیشہ ضروری سامان کو ترجیح دینا چاہئے۔ ہم مہینے میں کتنا خرچ کرسکتے ہیں اس کا اندازہ لگائیں۔ اپنے اخراجات کی فہرست بناتے وقت یہ دھیان میں رکھیں کہ آمدنی کا کچھ حصہ بچانا بھی ضروری ہے۔ اگر آپ کو اللہ بہت زیادہ نوازا ہے تو اس کا شکر ادا کریں۔ ساتھ ہی کفایت شعاری کی عادت کو اپنائیں۔ بے جا خرچ سے اجتناب برتیں۔ غریبوں کا خیال رکھیں۔ فضول خرچی سے ہر ممکن کوشش بچیں۔
ثمینہ علی رضا خان (کوسہ، ممبرا)
کفایت شعاری میں ہی سکون و عافیت ہے
کفایت شعاری ایک ہنر ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے ہم اپنی زندگی کو آسان بنا سکتے ہیں۔ ہمارے دین نے بھی ہمیں کفایت شعاری کی تلقین کی ہے۔ کفایت شعاری کا مطلب ہے انسان اپنے اخراجات اور خریداری کے معاملے میں اعتدال، توازن اور میانہ روی اختیار کرے اور غیر ضروری اخراجات سے پرہیز کرے۔ چاہے اس کا تعلق کھانے سے ہو، خرچ کرنے سے ہو یا پھر کمانے سے یا لباس پہننے سے۔ خوشحالی کا دارومدار دو چیزوں پر ہے کمانا اور خرچ کرنا۔ کمانا جتنا ہی مشکل ہے خرچ کرنا اتنا ہی آسان ہے۔ کمانا سب جانتے ہیں مگر خرچ کرنے کے ہنر سے کوئی واقف نہیں ہے۔ جس نے یہ سلیقہ سیکھ لیا وہ ہمیشہ خوش رہے گا۔ ہمیں اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرتے ہوئے فضول خرچی سے پرہیز کرنی چاہئے۔ اپنی اخراجات کا جائزہ لیتے ہوئے فضول اور زائد نظر انے والی چیزوں کو اپنے اخراجات کی فہرست سے خارج کر دیں۔ ماہانہ و ہفتہ وار خرچ کا جائزہ لے کہ کب، کہاں، کیسے، کیوں اور کتنا خرچ کرنا ہے؟ اپنی ماہانہ تنخواہ کو مدنظر رکھتے ہوئے منظم انداز میں استعمال کرنا ایک باصلاحیت خاتون کی شخصیت کو پیش کرتا ہے۔ بے جا ضروریات کو ترک کرتے ہوئے طرز زندگی میں سادگی کی شمولیت زندگی کو آسان و خوشگوار بنا دیتی ہے۔ اپنے سے کم حیثیت رکھنے والوں کی طرف دیکھ کر اللہ تعالیٰ کا مشکور و ممنون ہونا چاہئے۔ ہمیں اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے خدا کی بارگاہ میں دعا گو ہونا چاہئے کہ فضول خرچی اور بخیلی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ کفایت شعاری میں ہی خوشی اور سکون و عافیت ہے۔
مومن رضوانہ محمد شاہد (ممبرا، تھانے)
فضول خرچی سے بچیں
کفایت شعاری کا پہلا اصول ہے فضول خرچی سے بچیں۔ گھر میں جن چیزوں کی ضرورت ہے وہی خریدیں۔ اپنی ضروریات کو محدود رکھیں۔ غیر ضروری اشیاء کا ذخیرہ آپ کو رکھنے اور سنبھالنے میں پریشانی ہوسکتی ہیں۔ کفایت شعاری کا دوسرا اصول ہے بچت کرنے کی عادت ڈالیں۔ اگر ہم اپنی محدود آمدنی میں سے کچھ نہ کچھ بچا لیں تو وقت پڑنے پر ہمارے بہت کام آجائے گی۔ اسلام بھی ہمیں درمیانہ روی اختیار کرنے کا درس دیتا ہے اس لئے اپنی ضروریات کو محدود رکھیں۔ کفایت شعاری اپنائیں اور اپنی دنیا و آخرت دونوں کو بہتر بنائیں۔
گل شہانہ صدیقی (امین آباد، لکھنؤ، یوپی)
منظم طریقہ کار
جس طرح کسی کمپنی چلانے کے لئے اچھے مینجمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے اُسی طرح گھر چلانے میں بھی اچھّا مینجمنٹ ضروری ہے۔ ایک باشعور خاتون خانہ گھر کے خرچ میں کفایت شعاری کے ساتھ گھر کے ہر فرد کی ضرورت کو پورا کرکے خوش رکھ سکتی ہے۔ کبھی پیاز، لہسن کبھی ٹماٹر ضرورت سے زیادہ مہنگے ہو جاتے ہیں اُس وقت ٹماٹر کی جگہ دہی کا استعمال کریں۔ پیاز کی جگہ تل یا سوکھا ناریل سے گریوی بنائیں۔ ادرک لہسن جب سستے ہوں تب پیسٹ بنا کر فریزر میں رکھیں۔ کھا نوں میں تیل کا کم سے کم استعمال کریں۔ ہری سبزیاں، کریلے، دودھ، دہی، انڈے اور مچھلی ان کو اپنے غذا میں شامل کریں اس سے مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے۔ انسان بیمار کم پڑتا ہے اور بڑی بیماریوں سے بھی بچتا ہے۔ ان چیزوں کو اپنا کر کفایت شعاری کے ساتھ ساتھ سمجھداری بھی ظاہر ہوگی۔
شاہدہ وارثیہ (وسئی، پال گھر)
اپنا موازنہ کسی سے نہ کریں
گھر کے ہر فرد کی جائز خواہش چاہے وہ کھانا، لباس، تعلیم سے متعلق ہو یا دیگر، ضروریات زندگی پوری ہوجائے اور اواخر ماہ میں کچھ بچ بھی جائے ایسی ہوتی ہے کفایت شعاری۔ جو صنف نازک کو بچپن سے سکھایا جاتا ہے۔ اس وصف کے ساتھ بچپن، لڑکپن، جوانی کی دہلیز پار کرکے جب وہ خاتون خانہ بنتی ہے تو ہر کوئی ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے نیز گھر کا ماحول بھی پر سکون و اطمینان بخش رہتا ہے۔ جتنی چادر اتنا ہی پیر پھیلائیں۔ ماہانہ اخراجات میں سے کچھ رقم بچائیں تاکہ ضرورت کے وقت کام آئے۔ کم خرچ میں گھر کی آرائش کریں۔ باغبانی کا شوق اور شغل اس طرح اپنائیں کہ کڑی پتہ، ہرا دھنیا، پیاز، ہری مرچ گھر میں ہی اگائی جائے جس سے لذیذ اور صحتمند غذا ملے اور کچھ بچت بھی ہو جائے۔ آج کل آنلائن شاپنگ کا بڑا بول بالا ہے، خریدار کو رجھانے کے نت نئے طریقے ایجاد ہوگئے ہیں جنہیں دیکھ کر دل للچاتا اور بلا ضرورت ہی چیزیں آرڈر کی جاتی ہیں، اس سے گریز کریں۔ جتنی ضرورت ہے اتنا ہی خرید یں۔ اپنا موازنہ کسی سے نہ کریں۔ کفایت شعاری ایک ہنر ہے جسے سیکھ کراپنے گھر کو جنت کا نمونہ بنائیں اور مثال پیش کریں کہ ایسی ہوتی ہے کفایت شعاری۔
رضوانہ رشید انصاری (امبرناتھ، تھانے)
گلک جادوئی ڈبہ
بچپن سے ایک عادت ماں باپ نے ڈلوائی تھی۔ مٹی کا گول برتن جسے گلک کہتے ہیں اوپر سے سوراخ ہوتا ہے۔ بچپن میں ہم اپنی جیب خرچ بچا کر اس میں پیسے ڈالتے تھے۔ پھر گلک کے بھرنے کا انتظار کرتے تھے۔ گلک کے بھر جانے کے بعد اسے توڑ دیتے تھے اور ان پیسوں سے کھلونا، کپڑے یا کچھ کھانے کی چیز خریدتے تھے، بہت خوشی محسوس ہوتی تھی۔ یہی عادت ہوش سنبھالنے کے بعد بھی قائم رہی۔ گھر کے خرچ میں سے کچھ رقم بچا کر الماری کی دراز میں جمع کرتیں اور ایمرجنسی میں ضرورت کے وقت استعمال میں آتی۔ آج یہ پیسے ڈبے میں جمع کرکے غریبوں کی مدد کے لئے کام آ رہے ہیں۔ آج کی نسل میں یہ بات مفقود ہوگئی ہے۔
شگفتہ راغب (نیرول، نوی ممبئی)
اپنے اخراجات کے مطابق خرچ کریں
اسلام نے انسان کو میانہ روی اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔ بخل اور اسراف میں میانہ روی اختیار کرنا ہی کفایت شعاری ہے۔ آج کے مہنگائی بھرے دور اور سہولت بھری طرز زندگی میں کفایت شعاری کے ساتھ خرچ کرنا بھی ایک ہنر ہے۔ پہلے یہ ہوا کرتا تھا کہ ہمیں جن اشیاء کی ضرورت ہوتی تھی ہم لسٹ بنا کر دکاندار کے پاس جاتے اور وہ مطلوبہ چیزیں نکال کر ہمارے سامنے رکھ دیتا لیکن آج حالات مختلف ہیں۔ سپر مارکیٹ، ڈی مارٹ اور آن لائن خریداری کی ایپس میں ڈھیروں آپشنز ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ڈسپلے میں موجود ان چیزوں کا لالچ اتنا گہرا ہوتا ہے کہ ہم بجٹ کو بھول کر چیزیں خریدتے چلے جاتے ہیں۔ یہ رویہ درست نہیں ہے۔ کفایت شعاری کو اپنا کر ہم مالی بچت بھی کر سکتے ہیں اور اپنے خرچ کو عمدگی کے ساتھ چلا بھی سکتے ہیں۔ مندرجہ ذیل نکات کی مدد سے کفایت شعاری ہو سکتی ہے: اپنے اخراجات کا بجٹ بنانا اور اس کے مطابق خرچ کرنا، خرچ کے وسائل کا تعین کرنا، مالی منصوبہ بندی کرنا، بچت کے ذرائع جاننا اور بچت کرنا، سمجھداری اور عقلمندی کے ساتھ خریداری کرنا، بجلی کے بلز کی بچت کیلئے بجلی کا دیکھ بھال کر استعمال کرنا، غیر ضروری اشیاء کی خریداری سے بچنا۔ اپنی ضروریات اور خواہشات کا بوجھ کم کرکے اور کفایت شعاری کرکے ایک آسان زندگی گزاری جا سکتی ہے جس میں قناعت تو ہوگی ہوس نہ ہوگی۔
نکہت انجم ناظم الدین (جلگاؤں، مہاراشٹر)
ایک بجٹ طے کرلیں
مقولہ مشہور ہے کہ عورت کی کفایت شعاری مرد کو بادشاہ بنا دیتی ہے۔ بالکل درست مقولہ ہے۔ سب سے پہلے تو اپنے کچن کا جائزہ لیں۔ درکار اشیاء کی ایک فہرست بنا لیں۔ غیر ضروری اشیاء کو ہرگز فہرست میں شامل نہ کریں۔ ہر مہینے کے سودا سلف کے لئے ایک بجٹ طے کرلیں۔ اب آپ کو اسی کے مطابق چلنا ہے۔ اسی طرح کپڑوں اور دیگر ضروری اشیاء کے لئے بھی ایک رقم مختص کر لیں۔ آپ کو اس طے شدہ رقم سے زیادہ خرچ نہیں کرنا ہے۔ گھر میں ایک ایسا ڈبہ یا آپ کا ایک پرس الگ رکھیں جس میں وقتاً فوقتاً آپ کچھ نہ کچھ روپے جمع کرتی رہیں اور جب تک ممکن ہو اسے ہاتھ نہ لگائیں۔ غیر ضروری سامان کو ردی والے کو دیتی رہا کریں اس سے گھر صاف رہے گا۔ فضول اشیاء کی خریداری سے پرہیز کریں۔ بچوں کو بھی اس بات کا عادی بنائیں۔ خصوصی طور پر بچوں کو قرض کی عادت سے دور رکھیں۔ اپنے جذبات و خواہشات پر تھوڑا قابو پا کر کفایت شعاری کرکے ہم کافی بچت کرسکتے ہیں۔
رضوی نگار (اندھیری، ممبئی)
گھر کے بنے کھانوں کو ترجیح دیں
کفایت شعاری کا معنی یہ ہے کہ انسان اپنے اخراجات اور خریداری کے معاملے میں اعتدال، توازن اور میانہ روی اختیار کرے نیز غیر ضروری اخراجات سے پرہیز کرے۔ پیارے آقاؐ کا فرمان ہے: خرچ میں میانہ روی آدھی زندگی ہے۔ ماہانہ و ہفتہ وار خرچ کا جائزہ لیں کہ کب؟ کہاں؟ کیوں؟ کیسے؟ اور کتنا خرچ کرنا ہے۔ ماہانہ تنخواہ کو منظم انداز میں استعمال کریں۔ اس سوچ کو خود سے دور کريں کہ لوگ کیا کہیں گے؟ بے جا خواہشات کو ترک کرکے ضروریات کی طرف توجہ دیں۔ طرزِ زندگی میں سادگی کو شامل کریں۔ گھر کے تمام افراد کی کل کتنی آمدنی ہے اور ماہانہ خرچ کتنا ہوتا ہے اس کا حساب بنانا شروع کریں اور غیر ضروری اخراجات پر قابو پائیں۔ حسب ضرورت گھر میں بجلی کا استعمال کریں۔ ضرورت نہ ہونے پر لائٹ پنکھے بند کریں جس سے بجلی کا بل کم آئیگا۔ گرم پانی کیلئے ہیٹر کا استعمال کرنے کے بجائے سولار سسٹم کا استعمال کریں۔ گھر کے بنے کھانے کو ترجیح دیں۔ ہوٹل بازی سے پرہیز کریں۔ اگر بازار قریب ہو تو پیدل جائیں۔ حسب ضرورت اشیاء گھر میں لائیں۔ سستے اور معیاری کپڑے خریدیں، کفایت شعاری ایسے کریں کہ آپ کی پوری زندگی سکون سے گزرے۔
آفرین عبدالمنان شیخ (شولاپور، مہاراشٹر)
اپنی آمدنی اور خرچ پر نگاہ رکھیں
کفایت شعاری ایک ایسی صفت ہے جس کے ذریعے ہم زندگی کو صحیح طور سے بسر کرنے کا طریقہ اور سلیقہ سیکھ سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی آمدنی اور خرچ پر نگاہ رکھنی چاہئے۔یہ نہیں کہ آمدنی اٹھنی اور خرچ روپیہ والا معاملہ ہو جائے۔ جتنی چادر ہو اتنا ہی پیر پھیلانا چاہئے۔ جو کام کم پیسوں میں کیا جا سکتا ہے اس کیلئے فضول خرچی کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں غیر ضروری سامان نہیں خریدنا چاہئے۔چیزوں کو بر باد نہیں کرنا چاہئے۔ اگر کسی کے پاس روپے پیسے کی کمی نہیں ہے تب بھی اسے فضول خرچی سے بچنا چاہئے کیونکہ آنے والے وقت کو کسی نے نہیں دیکھا ہے۔جہاں تک ممکن ہو سادگی اختیار کرنی چاہئے۔ ہمارے حضور اکرمؐ کو بھی سادگی پسند تھی۔ ایک کفایت شعار عورت ہی گھر کو سلیقے کیساتھ چلا سکتی ہے۔
نشاط پروین (شاہ کالونی، شاہ زبیر روڈ، مونگیر)
کفایت شعاری: ایک مفید عمل
کفایت شعاری ایسی عادت ہے جو ہر حال میں مفید ثابت ہوتی ہے۔ آمدنی کے مطابق خرچ کریں۔ کھانے کی چیزوں کو جتنی ضرورت ہے اتنی ہی مقدار میں پکائیں اور کھائیں۔ سامان خریدنے بازار جائیں تو اپنے ساتھ فہرست لے کر جائیں تاکہ کوئی چیز بھول نہ جائے۔ باہر کے کھانے سے گریز کریں۔ آج کل شادیوں کا سیزن ہے۔ کوشش کریں کہ کم خرچ میں شادی کریں۔ قرض لینے سے بچنا چاہئے۔ نکاح کو آسان بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اپنی تنخواہ کا کچھ حصہ غریبوں کے لئے بھی مختص کریں۔
رفعنا حفیظ الرحمٰن انصاری (نائیگائوں، بھیونڈی)
ہر مہینے روپے جمع کرتی ہوں
مجھ جیسے ملازمت پیشہ افراد کے لئے محدود تنخواہ میں تمام اخراجات کو پورے کرتے ہوئے کفایت شعاری کرنا نا ممکن تو نہیں البتہ مشکل ضرور ہو تا ہے۔ اس لئے میری کوشش بھی ہوتی ہے کہ میں ہر مہینے کچھ نہ کچھ بچت کر سکوں جو وقت ضرورت میرے کام آسکے۔ مثلاً رمضان المبارک میں جہاں برکات و بے شمار نعمتوں کا نزول ہوتا ہے وہیں اخراجات بھی کچھ زیادہ ہی ہو جاتے ہیں اس صورت سے نپٹنے کے لئے میں نے اپنی بیٹی کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے گلک یا بچت پیٹی کہہ لہجے بنائی ہے جس میں رمضان المبارک کے علاوہ عیدالاضحی کے لئے بھی ہر مہینے روپے جمع کرتی ہوں۔ الحمدللہ اب مجھے کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس سے میں نے سیکھا ہے کہ خواہشات کو پیچھے رکھتے ہوئے اگر ہم ضروریات کا خیال کرتے ہوئے خرچ کریں تو اسی میں ہماری بھلائی ہے۔
شیخ نسیم بانو رضوان (کرلا، ممبئی)
سودا سلف اکٹھا خریدیں
چھوٹی چھوٹی بچت آگے چل کر بہت آسانی پیدا کر دیتی ہے۔ یہی بچت ہمارے مشکل وقت میں بہت کام آتی ہے۔ زیاد تر گھروں میں جھگڑے پیسوں کی قلت کی وجہ سے ہوتے ہیں، اگر ہم سمجھداری سے چلیں تو ان سے نجات پا سکتے ہیں اس لئے کفایت شعاری بہت ضروری عمل ہے۔ خریداری مال سے نہ کرکے تھوک مارکیٹ سے کی جائے تو کافی پیسوں کی بچت ہوسکتی ہے۔ کہیں بھی جائیں تو صرف ضرورت کا سامان ہی خریدیں، فضول کی خریداری سے بچیں۔ مہینے کا سامان ایک ساتھ لینے سے بھی کفایت ہو جاتی ہے۔ گھر کا سامان استعمال کرنے میں بھی کفایت شعاری کرنی چاہئے۔ کھانا اتنا بنائیں کہ پھینکنا نہ پڑے۔ ہر سامان کو قائدے سے استعمال کریں۔ مہنگی چیزیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں تاکہ وہ اُسے برباد نہ کریں۔ تھوڑی سمجھداری سے ہم بہت کفایت کرسکتے ہیں۔
ہما انصاری (مولوی گنج، لکھنؤ)
ضرورت کے مطابق سامان خریدیں
ہمارے دین نے اسراف سے روکا ہے اور کفایت شعاری کا راستہ بتایا ہے۔ کفایت شعاری اور کنجوسی میں بہت فرق ہے۔ اسی طرح ضرورت کے مطابق چیزیں خریدنا اور استعمال کرنا کفایت شعاری کہلاتا ہے جیسے ایک جوڑی چپل کافی ہے پھر ہم کیوں دو چار جوڑی چپل خریدیں۔ کچھ جوڑے کپڑوں میں گزارا ہوسکتا ہے پھر ہم کیوں خوب سارے کپڑے خریدیں۔ ضرورت کے مطابق سامان خریدیں اور استعمال کریں۔ غیر ضروری سامان ضرورت مند کو دیں تاکہ مستحق لوگوں کی ضروریات بھی پوری ہوسکیں۔ ہم نیا کپڑا خریدیں تو پرانا کسی کو دے دیں کیونکہ ہماری روزی میں اللہ نے دوسروں کا حصہ بھی لکھا ہے۔
فاطمہ عابد حسین (مالیگاؤں، ناسک)
تنخواہ کا ۱۰؍ فیصد حصہ بچائیں
تنخواہ کا آدھا یا دس پندرہ فیصد الگ کر دیں جو وقت ضرورت کام آسکے۔ اچانک ضرورت کے وقت پریشانیوں سے نجات کا آسان حل ہے۔ آج کے دور میں آمدنی کا ایک بڑا حصہ بلوں پر خرچ ہو جاتا ہے۔ اپنے گھر میں تمام فضول بجلی کے آلات بند رکھیں صرف اور صرف ضرورت کے وقت استعمال کریں۔ غیر ضروری شاپنگ سے پرہیز کریں۔ فضول خرچی نہ خدا کو پسند ہے نہ رسولؐ کو۔ اس میں اپنا ہی نقصان ہے جہاں ۱۰؍ روپے سے کام چل جائے وہاں سیکڑوں روپے صرف اپنی شان بڑھانے کیلئے کیا جائے سراسر بیوقوفی ہے۔ بچوں کو بھی بچت کرنے کی تلقین کریں۔ کفایت شعاری ایسی عادت ہے جو ہر حال میں مفید ثابت ہوتی ہے۔ یہ عادت پریشانیوں کو کم کرتی ہے اور زندگی سکون سے گزرتی ہے۔
مرزا تقدیس جاوید بیگ (غیبی نگر، بھیونڈی)
زندگی میں سادگی کو شامل کریں
کفایت شعاری ایک بہترین چیز ہے۔ اسلام جس طرح ہر شعبۂ زندگی میں سادگی، اعتدال اور میانہ روی کی تلقین کرتا ہے اسی طرح مال خرچ کرنے میں بھی اعتدال اور میانہ روی کا درس دیتا ہے۔ حقیقت میں کفایت شعاری زندگی گزارنے کا ایک ایسا عمل ہے جو پریشانی کے دنوں میں ہماری مددگار بن کر کم خرچ میں جینا سکھاتی ہے۔ یاد رکھیں! اپنی آمدنی بڑھانا جتنا مشکل ہے، اس سے زیادہ دشوار اس کو سلیقے سے خرچ کرنا ہے۔ اپنے گھر اور خاندان کی اقتصادی صورت حال منظم رکھ کر فضول خرچی نہ کی جائے اسی کا نام کفایت شعاری ہے۔ اور اسے اختیار کرنے کی کچھ صورتیں یہ ہیں: ماہانہ و ہفتہ وار خرچ کا اچھے طریقے سے جائزہ لیں کہ کب؟ کہاں؟ کیوں؟ کیسے؟ اور کتنا خرچ کرنا ہے۔ ماہانہ تنخواہ کو منظم انداز میں استعمال کریں۔ بے جا خواہشات کو ترک کرکے ضروریات کی طرف توجہ دیں۔ زندگی میں سادگی کو شامل کریں۔ مانا کہ گھر کا قوام مرد ہوتا ہے لیکن اگر اس کی بیوی سلیقہ مندی اور کفایت شعاری سے گھر چلائے تو گھر کو جنت کا نمونہ بنا سکتی ہے۔ خرچ کرنے میں ایسے کنجوس بھی نہ بنو کہ اپنے گھر والوں کو جائز صورتوں سے محروم رکھو اور اتنے سخی بھی نہ بنو کہ سارا مال ایک ہی دن میں خرچ کر ڈالو اور پھر سوال کرتے پھرو بلکہ دونوں کے درمیان اعتدال کو اختیار کرو۔
زیبا فاطمہ عطاریہ (امروہہ، یوپی)
کم خرچ بالانشین
کفایت شعاری اچھی عادتوں میں شمار کی جاتی ہے۔ یہ عادت دکھاوے اور اسراف سے بچاتی ہے اور مقروض ہونے سے بھی بچنے میں مدد ملتی ہے۔ تدبر سے کی گئی کفایت شعاری ترقی اور خوشحالی لاتی ہے۔ مزاج پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ لیکن توازن کے ساتھ کہیں کسی کی حق تلفی نہ ہو جائے۔ کفایت شعاری ہر ایک نعمت کی ہونی چاہئے۔ قرآن میں اللہ بندوں سے مخاطب ہے، ’’تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔‘‘ برتن کپڑا دھونے کے دوران نل کو بقدر ضرورت کھولا جائے، ان کاموں کو انجام دیتے وقت لاپروائی برتنے سے بہت سارا پانی ضائع ہو جاتا ہے، نہانے میں بھی بہت زیادہ پانی بہانے سے گریز کرنا چاہئے۔ بجلی استعمال میں احتیاط گھر کے سبھی افراد کریں۔ کام یا آرام کے بعد پنکھا، ہیٹر وغیرہ بند کرتے ہوئے باہر نکلیں۔ خاتونِ خانہ باورچی خانہ کی نگراں ہیں، اشیاء خورد نوش منگوانے سے پہلے کچن کا جائزہ لیں جس سے بچی ہوئی اشیاء کا علم ہوگا جنہیں دوبارہ کام میں لاسکتے ہیں۔ گھر میں ادرک، شہد، کالی مرچ، اجوائن رکھی جائے، ہلکی پھلکی بیماری میں دیسی نسخوں کو آزمائیں۔ اپنی نانی سے کبھی یہ کہاوت سنی تھی ’’کم خرچ بالانشین‘‘۔
بنت شبیر احمد (ارریہ، بہار)
جتنی چادر اتنے پیر پھیلانا چاہئے
کفایت شعاری کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہ کام با صلاحیت خواتین ہی کرسکتی ہیں۔ خواتین سے بہتر بجٹ ساز کوئی نہیں ہو سکتا۔ جو گھر کا نظم اچھا چلاتی ہیں وہی کفایت شعاری کے معاملے میں مہارت رکھتی ہیں۔ اعتدال پسندی اسلامی شعار ہے۔ ہر کام میں اعتدال سے پیش آنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ جتنی چادر ہو اتنا ہی پیر پھیلانا چاہئے۔ آمدنی کو مد نظر رکھتے ہوئے گھر کے اخراجات اور تمام ضرورتوں کو بجٹ بنا کر کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور کچھ رقم پس انداز کی جا سکتی ہے۔ کفایت شعاری چند اقدام کئے جا سکتے ہیں: (۱) جیسے جیسے کوئی ضروری کام ذہن میں آئے اس کو تحریر کر لینا چاہئے۔ غیر ضروری چیز فہرست کا حصہ نہ بنے۔ (۲) بازار جانے سے پہلے لسٹ میں ضروری اشیاء لکھ کر لے جائیں۔ (۳) کھانے پر، کپڑوں پر، تعلیم پر، صحت و علاج پر ضروری اخراجات کرنے چاہئے۔(۴) دوسروں کو دیکھ کر ان کی نقل نہیں کرنی چاہئے۔ (۵) اپنے گھر کا کام خود کرنا چاہئے۔ اس سے تسلی اور تشفی ہوتی ہے۔
نجمہ طلعت (جمال پور، علی گڑھ)
قناعت پسند بنیں
قرآن اور حدیث کی روشنی میں کفایت شعاری کے تعلق سے تنبیہ ہے، جو کفایت شعاری کریگا وہ ہمیشہ برکت سے سرفراز رہے گا۔ غیر ضروری خواہشات انسان کو پریشان اور قرض کی دلدل میں ڈال دیتی ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا، حضورؐ نے پوری زندگی بھی پیٹ بھر اور سیر ہو کر نہیں کھایا۔ صبح کھائے تو رات بھوکے رہے اسی کا نام قناعت ہے۔ جتنی چادر اتنا ہی پیر پھیلائیں۔ اگر پیاس آدھے گلاس کی ہے تو گلاس بھر کے پانی نہ لیں۔ اسی طرح کھانا جتنا کھانا ہے اتنا ہی برتن میں نکالیں تاکہ کھانا ضائع ہونے سے بچ جائے۔ دو پانچ جوڑ کپڑے میں بھی گزارا کیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ لوگ اتنے جوڑ بنا لیتے ہیں کہ ایک بار پہن لئے تو مہینوں اُس جوڑے کا نمبر نہیں آتا۔ اسی طرح فضول خرچی سے بھی پرہیز ضروری ہے۔ جس کی زندگی قناعت اور سادگی سے بھری ہوتی ہے وہ کامیاب ہوتا ہے اور اس کا دل سکون سے لبریز رہتا ہے۔
شگفتہ منصوری (شہادہ،نندوربار)
فضول خرچ شیطان کا بھائی ہوتا ہے
اسلام نے ہمیں میانہ روی، سادگی اور اعتدال کا درس دیا ہے۔ اور فضول خرچی، عیش و عشرت اور نمود و نمائش سے باز رہنے کی تلقین کی ہے۔ سورہ بنی اسرائیل میں فضول خرچ کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے۔ اس تناظر میں ہمیں ہمیشہ زندگی کے ہر معاملات میں میانہ روی اختیار کرنا چاہئے۔ عموماً خواتین گھریلو یا پھر دیگر معاملات میں بھی ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش میں سرگرم رہتی ہیں۔ اور اسی مقابلہ آرائی میں وہ بے پناہ فضول خرچی کی مرتکب ہوتی ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ دوسروں سے مقابلہ آرائی نہ کریں۔ اپنے آپ کو برتر اور دوسروں کو کمتر دکھانے کی کوشش میں بے جا اصراف نہ کریں۔ نمود و نمائش سے گریز کریں۔ سادگی میں حسن ہے، اس بات کا خیال رکھیں۔ اس کے علاوہ شاپنگ کے لئے آپ جب بھی جائیں، صرف ضروری اشیاء کی خریداری ہی کریں، خواہ کسی بھی شے پر کتنی ہی پرکشش آفر کیوں نہ ہو۔ ماہانہ جمع خرچ کا حساب ضرور رکھیں۔ ان اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ہم کفایت شعار بن کر اپنے گھر کو جنت کا نشان بناسکتے ہیں۔
مومن ناہید کوثر جاوید احمد (مالیگاؤں، ناسک)
اعتدال ضروری ہے
خوشحال زندگی گزارنے کے بہترین اصولوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کفایت شعاری اختیار کی جائے۔ کفایت شعاری سے مراد یہ ہے کہ انسان اعتدال قائم رکھے۔ میانہ روی اختیار کرے۔ اپنی تمام ضرورتوں کا خیال رکھے لیکن خواہشات کا غلام نہ ہو۔ اپنی ضرورت اور مالی استطاعت کے مد نظر ہی خریداری کرے۔ بلا ضرورت خریداری یا بلا ضرورت چیزوں کی تلاش فضول خرچی پر ہی ختم ہوتی ہے۔ فضول خرچی اپنے ساتھ کئی مسائل لاتی ہے مثلاً چیزیں تو خرید لیں لیکن اب انہیں استعمال کرنے کا صحیح موقع نہیں آیا۔ جو چیزیں خریدیں ہیں، انہیں رکھنے کا مسئلہ درپیش ہے۔ بجٹ الگ متاثر ہوتا ہے۔ اگر ہم اس نقطۂ نظر سے بھی سوچیں تو کفایت شعاری کرنے میں مددگار ہے یہ طریقہ کار۔
شیخ رابعہ تبریز عالم (ممبئی)
قرینہ و سلیقہ
استعمال شدہ اشیاء کو نئی تشکیل دے کر جیسے پرانے سوٹ سے تکیہ، کشن کا غلاف، دسترخوان، ڈیکوریشن کا سامان، بیگ وغیرہ بنانا۔ پرانے موزے، پیکنگ، تھرما كول، گتے، خالی بوتلیں، لکڑی کے ٹکڑے، ڈوریاں، ان تمام چیزوں کی کٹنگ کو چپکا کر یا سلائی کے ذریعہ رنگوں کا استعمال کرکے کوئی نئی اور خوبصورت آرٹ اور کرافٹ کی چیزیں بنائی جا سکتی ہیں۔ بچے ہوئے کورے کاغذوں کو یکجا کرکے ایک نئی کاپی بنائی جاسکتی ہے۔ اگر گھر کے مختلف کام سب لوگ آپس میں مل جل کر کریں تو اس میں برکت تو ہے ہی، اس کے علاوہ دل کو تسلی بھی ملتی ہے، سب کے اشتراک سے کھانا بھی ذائقہ دار بنتا ہے۔ خاتونِ خانہ سارے کام نفاست سے کرنے چاہئیں۔ خاتونِ خانہ بچے ہوئے چاول سے پاپڑ، کھچڑی، بچی ہوئی سبزی سے پراٹھے بنا سکتی ہیں یا چاول میں ڈال کر نئی ڈش تیار کی جاسکتی ہے۔ بچے ہوئے قورمہ سے حلیم تیار ہوسکتا ہے۔ گھر کے تمام افراد کو چھوٹے موٹے کام خود بھی کرنے چاہئیں۔ سبزی اور پھلوں کے چھلکے ری سائیکل کرکے کمپوسٹ کھاد بنا کر باغیچے میں گملوں میں ڈالی جاسکتی ہے۔ یہ تمام کام بے کار اشیاء کے مناسب بندوبست (ویسٹ مینجمنٹ) میں کافی مددگار ثابت ہوسکتے ہیں اور اس طرح ماحولیات کو بہتر بنانے میں ہم بڑا رول ادا کرسکتے ہیں۔ گھر بیٹھے فاصلاتی تعلیمی نظام کے ذریعے کوئی آن لائن کورس کرسکتے ہیں جس میں عمر کی قید نہ ہو۔ اگر ہم فاصلاتی تعلیمی نظام کے ذریعے اپنے ڈراپ آؤٹ بچوں، نوجوانوں اور بالغوں کو تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دے سکیں اور اپنا شرح تعلیم بہتر کرسکے تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی۔
سلطانہ صدیقی (اوکھلا وہار، جامعہ نگر، نئی دہلی)
نفسیاتی خواہشات پر قابو پانا
مذہب اسلام یہ درس دیتا ہے کہ اہل و عیال پر خرچ کرنا صد قہ ہے وہیں حد سے زیادہ تجاوز نہ کرنے کا بھی علم دیتا ہے۔ اپنی ضرورتوں کی تکمیل ہو جانے کے بعد بے جا صرف کرنا، درست نہیں۔ انسانی خواہشات لا محدود ہوتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر خواہش پوری کی جائے۔ جب نفس آپ کو اکسائے تو ان معصوم اور یتیم بچوں کو یاد کریں جو ایک وقت کی روٹی کو بھی ترسے ہوئے ہیں اور ان خواتین کے متعلق بھی خیال کرلیں جن کے سر پر کوئی سائبان نہیں۔ روزمرہ کے اخراجات میں سے کچھ رقم کی بچت کر لی جائے اور ساتھ ہی میانہ روی اختیار کرکے لایعنی خواہشات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
رحمانی کاشفہ ڈاکٹر عرفان احمد (مالیگاؤں، ناسک)
کچھ حصہ کی ہر ماہ بچت ہو
منظم زندگی گزارنے میں کفایت شعاری جیسے سنہری اصول کی پابندی ضروری ہے۔ سرمایہ ہونے کے باوجود اسے استعمال کرنے کا سلیقہ اور شعور بھی ہونا چاہئے۔ کفایت شعاری کا مطلب کنجوسی یا بخیلی نہیں ہوتا ہے۔ کفایت شعاری کا مطلب ہوتا ہےحسب ضرورت چیزوں کا میسر ہونے کے باوجود نامناسب اخراجات سے پرہیز کرنا اور میانہ روی اختیار کرنا۔ مذہب اسلام میں بھی اعتدال پسندی سے زندگی گزارنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اور فضول خرچ انسان کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے۔ مکان سے لے کر دکان تک، کچن سے لے کر کاروبار تک، ہر معاملے میں کفایت شعاری ہونی چاہئے۔ جیسے گھر میں ضرورت ہونے پر ہی بجلی کے آلات کا استعمال کریں۔ جہاں ضروری نہ ہو وہاں کے بجلی کے آلات بند رہنے دیں۔ پانی کے استعمال میں احتیاط برتیں۔ حسب ضرورت پانی استعمال کریں زیادہ پانی نہ بہائیں۔ گھر کا سب سے اہم حصہ کچن ہوتا ہے وہاں پر زیادہ احتیاط برتیں۔ اناج یا دیگر اشیاء کی خریداری کرتے وقت اپنی ضرورت کو مدنظر رکھیں۔ لباس کی خریداری میں بھی ضرورت کا خیال رکھیں۔ اگر نئے لباس خریدنا ہو تو اپنے استعمال کئے ہوئے کپڑے کسی مستحق کو دے دیں۔ اور بار بار خریداری نہ کریں بلکہ ایک وقفہ کا تعین کر کے خریداری کریں۔ اپنی کمائی میں سے خواہشات اور اخراجات کی تکمیل کے بعد کچھ حصہ کی ہر ماہ بچت کرنے کی کوشش کریں۔ کفایت شعاری بہت اچھی عادت ہے۔ کفایت شعاری کی وجہ سے مستقبل میں ہونے والی پریشانیوں سے بچا جا سکتا ہے۔ زندگی کے ہر معاملے میں ہمیں کفایت شعاری کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے۔
سمیرہ گلنار محمد جیلانی (برکت پورہ، ناندیڑ)
پانی کی بچت آج کی اہم ضرورت ہے
کفایت شعاری یا بچت ایک ہی سکے کے دو الگ رخ ہیں۔ کفایت شعاری کا مطلب کنجوسی نہیں بلکہ ہر چیز کا استعمال اس کی ضرورت کے مطابق کرنا، ہوتا ہے۔ کفایت شعاری یا بچت کی جب بھی بات ہوتی ہے اس وقت عام طورپر ہمارے ذہن میں پیسوں کی بچت کا ذکر ہوتا ہے۔ روزمرہ کی زندگی میں ہر شعبہ میں کفایت شعاری کی جانی چاہئے۔ قدرت کی ہر شے کو کفایت شعاری سے استعمال کرنی چاہئے۔ ان قدرتی چیزوں میں ’’پانی‘‘ کا استعمال بھی کفایت شعاری سے کیا جانا چاہئے۔ ۳۰؍ اکتوبر عالمی یوم کفایت شعاری کے طور پر منایا جاتاہے۔ پانی کی بچت پہلے اپنی ذات سے، خاندان سے، سماج اور ملکی سطح پر ہونی چاہئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ پانی کے ذخائر میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ ماحول کے توازن میں بگاڑ آنے کی وجہ سے بارش کا تناسب کم ہوتا جارہا ہے۔ آبادی میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے لہٰذا ہمیں چاہئے کہ پانی کا استعمال کفایت شعاری سے کریں۔ آس پاس بہتا نل دیکھیں تو بند کر دیں۔ نل کے بجائے بالٹی میں پانی نکال کر استعمال کریں۔ یاد رہے جل (پانی) ہے تو کل ہے۔
کوشلیہ شیواجی راؤ دیشمکھ (شولاپور، مہاراشٹر)
فضول خرچی نہ کریں
انسان کی سمجھداری یہ ہے کہ وہ کفایت شعار ہو۔ کفایت شعاری سے کام لیتے ہوئے پیسوں کا مناسب اور صحیح استعمال کریں۔ فضول خرچی نہ کریں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ فضول خرچی کرنے والا شیطان کا بھائی ہوتا ہے۔ ہمارے پاس جو بھی پیسے ہوں ان میں سے کچھ پیسوں کی بچت کرنی چاہئے تاکہ ہمارے مشکل وقت میں وہ پیسے ہمارے کام آسکے۔ اور ہمیں کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ کفایت شعاری کے بہت سارے فوائد ہیں۔ مثلاً کفایت شعاری اپنانے سے انسان بہتر زندگی گزار سکتا ہے۔ کفایت شعاری کی بدولت انسان کو دلی سکون ملتا ہے۔ کفایت شعاری اپنانے سے انسان بہت سے گناہوں سے محفوظ رہتا ہے۔ وہ رزق حرام کے بجائے حلال روزی کی تلاش کرتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ کفایت شعاری اختیار کریں۔ فضول خرچی اور کنجوسی سے پرہیز کریں تاکہ دنیا اور آخرت میں کامیاب اور پسندیدہ زندگی گزار سکیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل کرسکیں (آمین)۔
انصاری شفاء عابد علی (نائیگاؤں، بھیونڈی)
کفایت شعار شرمندگی سے بچ جاتا ہے
کفایت شعاری ہم اپنی ماں ہی سے سیکھتے ہیں۔ وہی ہمیں زندگی کے اسرار و رموز سکھاتی ہیں۔ ہمیں فضول خواہشات سے بچنا چاہئے۔ جب بھی ضروری اشیاء کی لسٹ بنائیں تو اسے ایک بار پڑھیں جو بہت ضروری ہو وہی خریدیں۔ بعض اوقات ہم فالتو چیزیں خرید لیتے ہیں جن کا کوئی خاص استعمال نہیں ہوتا۔ کفایت شعار اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ فضول خرچ شیطان کا بھائی ہوتا ہے مگر بخیل سے بھی اللہ کی دوستی نہیں۔ ہمیں اعتدال پسند ہونا چاہئے۔ مہنگائی کے اس دور میں اپنی آمدنی کے لحاظ سے خرچ کرنا دانشمندی ہے۔ کفایت شعاری عادت ہمیں شرمندگی سے بچا لیتی ہے۔ شادی کی فضول رسموں کو ختم کریں جن میں نمود و نمائش ہوں۔ اپنی بے جا خواہشوں پر پابندی لگائیں۔ مہمانوں کی تواضع ہو یا رشتہ داری سب میں توازن رکھیں۔ کسی بھی چیز کو ضائع نہیں کریں۔ کفایت شعاری کو اپنا شیوہ بنائیں۔
ایمن سمیر (اعظم گڑھ، یوپی)
کفایت شعاری مالی پریشانی سے بچاتی ہے
پیسوں کو عقلمندی سے خرچ کرنے کا نام کفایت شعاری ہے۔ کفایت شعار انسان کنجوس نہیں ہوتا۔ کنجوسی ایک الگ چیز ہے۔ کفایت شعاری، فضول خرچی اور کنجوسی کی درمیانی حالت ہے۔ روزمرہ کے اخراجات میں میانہ روی اور مستقبل کیلئے بچت کیلئے ضروری ہے کہ ہم کفایت شعاری کو اپنا شعار بنائیں اور فضول خرچی سے احتراز کریں۔ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے پیسے خرچ کرنا ضروری ہے لیکن اپنی استطاعت سے بڑھ کر، لوگوں کو خوش کرنے اور دکھاوے کیلئے زیادہ پیسہ خرچ کرنا غیرمناسب ہے۔ کفایت شعاری اچھی عادت ہے جسے اپنانے سے مالی پریشانیاں کم ہوتی ہیں، آمدنی اور اخراجات میں توازن بنا رہتا ہے اور یہ کامیاب گھریلو زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کفایت شعاری کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنی دانست میں ضروری اشیاء کی ایک فہرست بنائیں۔ پھر غور و فکر کرکے ضروریات اور خواہشات میں ان کی درجہ بندی کریں۔ خریداری کرتے وقت ضروریات کو ترجیح دیں۔ اپنے بچوں اور اہل خانہ میں کفایت شعاری کی عادت کو پروان چڑھانے کے لئے انہیں خواہشات اور ضروریات کا فرق سمجھائیں اور ان میں معاشی خواندگی کو فروغ دیں۔ ان آسان اور قابلِ عمل ٹپس پر عمل کرکے کفایت شعاری کو اپنایا جاسکتا ہے۔
شیخ صنوبر شیخ گلاب (جلگاؤں، مہاراشٹر)
ضرورت سے زیادہ خرچ نہ کریں
کفایت شعاری سے مراد درمیانی روش ہے یعنی اپنی چادر کے مطابق پاؤں پھیلایا جائے۔ کفایت شعاری ایسی عادت ہے جو ہر حال میں مفید ثابت ہوتی ہے۔ تندرستی ہو یا بیماری، تیزی ہو یا مندی، انسان گھر پر ہو یا باہر کفایت شعاری تفکرات اور پریشانیوں کو دور کرتی ہے۔ ضرورت کیلئے خرچ تو بہرحال کرنا ہی پڑتا ہے۔ کوئی ضرورت کے مطابق کرتا ہے تو کوئی ضرورت سے زیادہ کرتا ہے۔ کوئی ضرورت پڑنے پر بھی نہیں کرتا گویا مختلف طریقے ہیں جن سے انسان زندگی گزارتا ہے لیکن بہتر طریقہ یہی ہے کہ جہاں ۱۰؍ روپے کی ضرورت ہو، وہاں ۱۰؍ روپے ہی خرچ کیا جائے۔ مہنگے اور برانڈڈ کپڑے خریدنے سے گریز کریں۔ فضول خرچی نہ اللہ کو پسند ہے نہ ہمارے نبی رسولﷺ کو۔ اپنی ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا نمائش، ریا کاری اور دکھاوا ہے۔ اسے لئے کفایت شعاری اور اعتدال پسندی کو اپنی زندگی کا شعار بنانا چاہئے کیونکہ رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ بہترین کام وہ ہے جس میں میانہ روی اختیار کی جائے۔
شیخ صافیہ ریاض احمد (بھیونڈی، تھانے)
حال و مستقبل کا راز
زندگی بسر کرنا اور اس کی اقتصادیات کو متوازن رکھنا نہایت عقل مندی کا کام ہے اور اس کیلئے سب سے پہلے فضول خرچی پر قابو پانا ضروری ہے۔ اس کے بعد کفایت شعاری کا مرحلہ آتا ہے۔ یہی کفایت شعاری نہ صرف خوشحال زندگی کا راز ہے بلکہ کم خرچ بالا نشین کا نسخہ بھی ہے۔ ہم محض ریا کاری کے شوق میں اپنی آمدنی کا زیادہ تر حصہ غیر ضروری اشیاء پر صرف کردیتے ہیں جس سے گھروں کا سکون ختم ہو جاتا ہے۔ بے برکتی کی شکوہ شکایات رہتی ہیں۔ ہمیں اپنے معاشی ذرائع کو اعتدال کے ساتھ، سوچ سمجھ کر استعمال کرنے چاہئیں تاکہ حال و مستقبل میں خوشی، اور سکون حاصل ہو۔
رخسانہ (علی گڑھ، یوپی)
میانہ روی اپنائیں
کفایت شعاری کا مطلب ہے میانہ روی اور معتدل راستہ اپنانا۔ اب چاہے عبادات کا معاملہ ہو یا بندوں کے آپسی لین دین کا، بہر صورت کفایت شعاری مطلوب اور پسندیدہ ہے۔ کفایت شعاری ہر کام میں درمیانہ راستہ اپنا کر ہوتی ہے۔ فیشن کے چکر میں پھنس کر، لوگوں کو دکھاوے کے مقصد سے بے جا خرچ سے بچا جائے، زندگی کا مقصد لوگوں کی واہ واہی نہیں بلکہ اللہ رب العالمین کے نزدیک اچھا بننا ہے لہٰذا اسی کے احکامات کے مطابق زندگی گزاری جائے۔
گھر کی آمدنی کے تناسب ہی سے اپنا بجٹ بنایا جائے۔ شادی بیاہ ہو یا کوئی دوسرا فنکشن، عید ہو یا کوئی تہوار، کسی کو تحائف دینے ہو یا خود اپنے لئے چیزیں خریدنی ہوں یا گھر کا عام خرچ ہو ہر صورت میں میانہ روی کو ہی اپنایا جائے۔ خواہشات کا لامتناہی سلسلہ تو ختم ہونے والا نہیں ہے لہٰذا نہ تو بہت زیادہ خرچ کیا جائے اور نہ ہی بہت کم، بلکہ درمیانی صورت کو اپنا کر ہی کفایت شعاری ممکن ہوتی ہے۔
بنت رفیق (جوکھن پور، بریلی)
گھر کے بنے کھانوں کو ترجیح دیں
کفایت شعار خاتون بہتر طریقے سے گھر کا نظم چلاتی ہے۔ جو خاتون محدود خرچ میں اپنا گھر سنبھالتی ہے وہ کبھی مالی تنگی کا شکار نہیں ہوتی۔ ایسی خاتون بہت زیادہ خریداری سے بھی گریز کرتی ہے۔ ہوٹل بازی کے بجائے گھر میں ذائقہ دار کھانا بنا کر کھلاتی ہے۔ فضول خرچی سے گریز کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ایسی خاتون ہر ماہ کچھ رقم بچاتی ہے۔ ایک بڑی رقم جمع ہونے پر وہ گھر کا کوئی ضروری سامان خرید لاتی ہے۔ دیکھا جائے تو کفایت شعایت ایسی ہی ہوتی ہے۔
بنت احمد (ممبئی)
انسان معاشی تنگی سے بچ جاتا ہے
اسلام نے انسان کو میانہ روی اختیار کرنے کی تاکید کی ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ وہ انسان تنگ دست نہیں ہو سکتا جس نے میانہ روی اختیار کی۔ ایک اور جگہ آپؐ نے میانہ روی کی یوں تاکید فرمائی، بہترین کام وہی ہیں جن کی بنیاد میانہ روی پر ہے۔ اپنی ضرورت کے مطابق خرچ کرنا اور حد سے آگے نہ بڑھنا کفایت شعاری کہلاتا ہے۔ کفایت شعاری کو اپنا کر انسان اپنی زندگی پرسکون اور خوش حال بنا سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کفایت شعاری اپنانے سے انسان بہتر زندگی اپنا سکتا ہے۔ کفایت شعاری معاشی تنگی سے نکال کر خوشحالی کی طرف لے جاتی ہے۔ کفایت شعاری اپنانے سے انسان بہت سے گناہوں سے محفوظ رہتا ہے۔ وہ رزق حرام کے بجائے حلال روزی کی تلاش کرتا ہے۔ کفایت شعاری کی بدولت انسان کو دلی سکون ملتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم کفایت شعاری اختیار کریں۔ کنجوسی اور فضول خرچی سے پرہیز کریں تاکہ دنیا اورآخرت میں کامیاب اور پسندیدہ زندگی گزار سکیں۔
ترنم صابری (سنبھل، یوپی)
کفایت شعاری میں ہی زندگی کا سکون ہے
کفایت شعاری خوشحال زندگی گزارنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ فضول خرچی بربادی کا پیش خیمہ ہے۔ گھر ہو یا معیشت اخراجات پر کنٹرول کرنا بے حد ضروری ہے تاکہ ہم اپنی زندگی کی الجھنوں اور پریشانیوں سے محفوظ رہ سکیں۔ کفایت شعاری ہم اس طرح کر سکتے ہیں: (۱)ماہانہ یا ہفتہ وار خرچ کا جائزہ لیں کہ کب ؟کہاں ؟کیسے اور کتنا ؟خرچ کرنا ہے۔ (۲)ماہانہ تنخواہ کو منظم انداز میں استعمال کریں اس سوچ سے خود کو دور رکھیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ (۳)خواہشات کو ترک کرکے ضروریات کی طرف توجہ دیں۔ طرز زندگی میں سادگی شامل کریں۔ (۴)اپنے اخراجات اور خریداری کے معاملے میں اعتدال اور توازن اور میانہ روی اختیار کریں نیز غیر ضروری اخراجات سے پرہیز کریں۔ (۵)کفایت شعاری سے زندگی گزار کر ہم دوسروں کی مدد بھی بآسانی کرسکتے ہیں۔ گھر کا جو سامان ہمارے استعمال میں نہیں ہیں انہیں ہم کسی ضرورت مند کو دے سکتے ہیں۔ دین اسلام بھی ہمیں اخراجات میں کفایت شعاری کا اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے کا درس دیتا ہے۔ اس طرح کسی ضرورتمند کے بھی کام آ سکتے ہیں۔ (۶) ہر ماہ ایک طے شدہ رقم بچائے۔ یہ رقم ضرورت کے وقت بڑے کام آتی ہے۔
شازیہ رحمٰن (غازی آباد، یوپی)
اگلے ہفتے کا عنوان: نفرت کا جواب مَیں اس طرح دیتی ہوں۔ اظہار خیال کی خواہشمند خواتین اس موضوع پر دو پیراگراف پر مشتمل اپنی تحریر مع تصویر ارسال کریں۔ وہاٹس ایپ نمبر: 8850489134