گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔
EPAPER
Updated: September 21, 2023, 5:50 PM IST | Saaima Shaikh | Mumbai
گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔
غلطی کا اعتراف کرنے سے معاملہ سلجھ جاتا ہے
مَیں اپنی غلطی کا اعتراف کرنا اس لئے ضروری سمجھتی ہوں کیونکہ غلطی کا اعتراف کرنا، کامیابی کی ایک منزل طے کرنا ہے۔ اعتراف کرنے والا اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ اس نے حقائق کو تسلیم کر لیا ہے اور آئندہ اس غلطی کو نہیں دہرائے گا۔ مزید اپنی غلطی کا اعتراف کرنا ایک بہترین خصوصیت ہے اس سے نفس میں عاجزی پروان چڑھتی ہےاور تکبر کمزور ہوتا ہے۔ رب کریم کا اس انسان پر یہ بہت بڑا انعام و رحمت ہے جس کے اندر یہ صفت پیدا ہو جائے۔ بعض لوگوں کا گمان یہ ہوتا ہے کہ جھک جانا آدمی کی عزت کو پامال کر دیتا ہے۔ در حقیقت ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا بلکہ اس کے بر عکس آدمی اپنے اندر خفت محسوس کرتا ہے اور دوسرے کی نظر میں بھاری ہو جاتا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ غلطی کا اعتراف بڑے بڑے اختلافات و جھگڑوں کو آگے بڑھنے سے فوراً روک دیتا ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ اس ذرا سی بات کے لئے کوئی تیار نہیں ہوتا۔ ہمیں اپنی غلطیوں کا اعتراف فوری طور پر کر لینا چاہئے تاکہ دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی رسوائی سے بھی نجات حاصل کرسکیں۔
زیبا فاطمہ عطاریہ (امروہہ، یوپی)
مجھے اپنی اصلاح کا موقع ملتا ہے
غلطی کرنا غلطی نہیں ہوتی لیکن اسے نہ سدھارنا اور اس کا اعتراف نہ کرنا بہرحال ایک غلطی ہے۔ ہم خود کو پرفیکٹ سمجھتے ہیں لیکن ہم اپنی اصلاح تب ہی کرسکیں گے جب ہمارے اندر اپنی غلطیوں اور خامیوں کو دیکھنے کا حوصلہ ہوگا۔ مجھ سے اگر کوئی بھول ہوجائے تو مَیں اس کا اعتراف اس وقت تو نہیں کرتی لیکن کچھ وقت گزرنے کے بعد میں اپنی غلطی مان لیتی ہوں اور اس بات کو بھی تسلیم کرتی ہوں کہ مجھے ایسا نہیں کرنا یا کہنا چاہئےتھا۔ ایسا کرنے سے میرا دل اور ذہن دونوں مطمئن ہو جاتے ہیں کہ مَیں نے کچھ غلط کیا اور اسے مان لیا۔ اس طرح سے مجھے اپنی اصلاح کرنے کا بھی موقع مل جاتا ہے۔ دوسروں کے یا گھر والوں کے تجربات کی روشنی میں مَیں اپنی غلطیوں کو سمجھ پاتی ہوں اور اسے دوبارہ دہرانے سے گریز کرتی ہوں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مَیں خود ایک ماں ہوں جب تک مجھ میں اپنی غلطیوں کو تسلیم کی عادت نہیں ہوگی تو میرے بچوں میں بھی یہ خصلت نہیں آئے گی اور جب ماں اپنی اصلاح نہیں کرے گی تو وہ اپنے بچوں کو کس طرح درست کرے گی۔ اس لئے مَیں اپنی غلطیوں کا اعتراف ضروری سمجھتی ہوں کہ جب تک ہم میں اپنی غلطیوں کو دیکھنے کی صلاحیت نہیں ہوگی ہم دوسروں کی اصلاح نہیں کرسکیں گے۔
انصاری لمیس (بھیونڈی، تھانے)
غلطی تسلیم کرنا اعلیٰ ظرف شخص کی نشانی
انسان اپنی اصلاح چاہتا تو اس کے لئے لازمی ہے کہ وہ غلطیوں کو قبول کرے۔ میں غلطیوں کا اعتراف کرلینا اس لئے بھی ضروری سمجھتی ہوں کہ جب تک ہم یہ نہیں سمجھ لیتے ہیں کہ ہم سے غلطی سرزد ہوئی ہے تب تک اصلاح کا عمل ممکن نہیں۔ اور بغیر اصلاح کے ارتقاء کا عمل رُک سکتا ہے۔ ترقی کا عمل مشروط ہے۔ غلطیوں کو تسلیم کرنے میں جو یہ کلیہ سمجھ جائے گا وہ اپنی ہر غلطیوں کو کامیابی میں بدل دے گا کیونکہ غلطیوں سے ہی صحیح چیز کا ادراک ہوتا ہے۔ غلطیوں کو تسلیم کرلینا اعلیٰ ظرفی کی نشانی ہے۔ زندگی میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور سب کی نظر میں ایک اچھا انسان بننا چاہتے ہیں تو اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں
شبنم فاروق (گوونڈی، ممبئی)
ایک بوجھ سے چھٹکارا مل جاتا ہے
۱) غلطی کا اعتراف کرنا بڑے ہی ظرف کی بات ہے۔ اس سے ہم اپنے رشتے مزید بہتر اور خوشگوار بنا سکتے ہیں۔ اپنی غلطی کو مان کر خود کو سدھارنے سے ہماری ذاتی اصلاح ہوتی ہے اور برداشت کرنے کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ۲) غلطی کا اعتراف کر لینے سے کئی رشتے سنبھل جاتے ہیں۔ بد مزاجی، خوشگوار ماحول میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ہم اپنے چھوٹوں کے لئے رول ماڈل ثابت ہو سکتے ہیں۔ ۳)یہ ایک بہترین خصوصیت ہے جس سے نفس میں عاجزی پروان چڑھتی ہے اور تکبر کمزور ہوتا ہے۔ ۴)شخصیت سازی ہوتی ہے۔ جسم و روح کو سکون میسر ہوتا ہے۔ خود کو بہت ہلکا محسوس کرتے ہیں جیسے کسی بھاری بوجھ سے چھٹکارا ملا ہو۔
مومن رضوانہ محمد شاہد (ممبرا، تھانے)
نادانی میں ایک غلطی
انسانی فطرت ہی میں ہے کہ وہ غلطی کرے لیکن وہ اس کا اعتراف کرے یہ انسانیت ہے۔ مجھ سے بھی ایسی غلطی ہوئی جس کا میں اعتراف کرنا چاہتی ہوں۔ میرے بی ایڈ کے کالج کے وقت میں میری ایک ساتھی تھی تو جب میں باہر ناشتہ کے لئے جاتی تو وہ مجھے وڑا پاؤ لانے کے لئے کہتیں۔ میں بھی اُنہیں بنا پیسے مانگے لاکر دے دیتی تھی۔ وہ ایسا اکثر کرنے لگیں تب ایک بار میں نے واپسی پر ان کے کہنے کے باوجود نہیں لائی اور اُن سے کہہ دیا کہ میں بھول گئی وہ خاموش رہیں۔ مجھے بعد میں خود پر غصہ آرہا تھا کیونکہ میں اُس کے حالات سے واقف تھی۔ میں ہمیشہ دے سکتی تھی۔ آج بھی اس حرکت پر مجھے افسوس ہوتا ہے۔
شاہدہ وارثیہ (وسئی، پال گھر)
یہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ ہے
میرے نزدیک اپنی غلطی کا اعتراف کرنا اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ ہے۔ اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کے بعد ہو سکتا ہے کہ آپ کو وقتی شرمندگی محسوس ہو کچھ طنزیہ باتوں کا سامنا کرنا پڑے لیکن آپ ہمیشہ کیلئے ایک مثال بن جاتے ہیں کیونکہ میرے نزدیک اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ اگر آپ سے کوئی غلطی سرزد ہو گئی ہے تو اسے قبول کرنے میں کوئی شرمندگی نہیں ہونی چاہئے۔ اور میرے خیال سے اگر آپ اپنی کسی غلطی کو ماننے سے انکار کرتے ہیں تو آپ کے اندر ہمیشہ یہ پچھتاوا باقی رہے گا کہ کاش میں نے اسی وقت اپنی غلطی کو قبول کر لیا ہوتا اور اکثر ٹوٹ کر بکھرتے ہوئے رشتے بھی دوبارہ سے جڑ جاتے ہیں۔ اور آپ سامنے والے کی نظروں میں اپنا ظرف بھی بلند کر لیتے ہیں کیونکہ اپنی غلطی کا اعتراف کرنا آسان بھی نہیں ہے، جیسا کہ میں نے کہا یہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ ہے اور یہ ایک باہمت انسان ہی کر سکتا ہے۔
سارہ فیصل (مئو، یوپی)
میری غلطی اور دسویں کا نتیجہ
ہماری سب سے بڑی غلطی ہی اپنی غلطیوں سے بے خبر رہنا ہے۔ یہ تب کی بات ہے جب میں دسویں جماعت میں تھی۔ بچپن سے لے نویں جماعت تک اچھے نمبرات سے پاس ہونے کی وجہ سے میرے ذہن میں یہ گمان ہو گیا کہ دسویں جماعت میں بھی میں اول درجہ لاؤں گی۔ میری اس خود اعتمادی کو ضرب تب پڑی جب میں نے دیکھا کہ میں نے دوم درجہ حاصل کیا ہے۔ مجھے برا تو بہت لگا مگر جب میں نے خود کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ غلطی تو میری ہی تھی۔ میں نے اتنی محنت ہی نہیں کی تھی جتنی مجھے کرنی چاہئے تھی۔ اس غلطی کے بعد سے آج تک میں اپنے ذہن کو اس قسم کی سوچ کا محور نہیں بننے دیتی۔ سچ ہی ہے جو لوگ اعتراف جرم نہیں کرتے ان کا احساس ہی جرم انہیں مار دیتا ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ : جو کرنا ہے آج کر لو/ کل تو خود کل کے انتظار میں ہے!
اُمّ ِ کلثوم محمد مستقیم شیخ ( ممبئی، مہاراشٹر)
بچوں کے کھانے میں نخرے اور میری غلطی
جب میرے بچے چھوٹے تھے تو وہ کھانے پینے میں بہت زیادہ ستاتے تھے یہ نہیں کھانا وہ نہیں کھانا تب میرے بڑے مجھے سمجھایا کرتے تھے کہ کبھی کبھار بچوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے۔ کچھ دیر بھوکے رہ کر پھر وہ کھانے کے لئے راضی ہو جاتے ہیں لیکن چونکہ اس وقت میں خود بھی کچھ ناسمجھ تھی تو میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی اور بچے اگر کسی کھانے سے منع کرتے تو تھوڑی منت سماجت کرنے کے بعد میں ان کی پسندیدہ اشیاء فراہم کر دیتی۔ اب ان کی یہ عادت پختہ ہوچکی ہے لہٰذا وہ مجھے اور زیادہ تنگ کرنے لگے ہیں اور مجبوراً مجھے ان کی فرمائشیں پوری کرنی پڑتی ہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ بزرگوں کی بات نہ مان کر میں نے بہت غلطی کی اور اعتراف اس لئے ضروری ہے کہ جو مائیں میری تحریر پڑھ رہی ہیں وہ اپنے بچوں کو بچپن ہی سے ساری چیزیں کھانے کا عادی بنائیں۔ بچوں سے بھوک برداشت نہیں ہوتی اس لئے کچھ دیر بھوکے رہنے کے بعد وہ بخوشی کھانے کے لئے رضا مند ہو جاتے ہیں اور دھیرے دھیرے انہیں وہ اشیاء پسند بھی آنے لگتی ہیں اس طرح آپ اپنے بچوں کو مقوی غذا کا عادی بنا سکتی ہیں۔
رضوی نگار (اندھیری، ممبئی)
غصے نے اپنوں کو تکلیف پہنچائی
غلطی کرنا انسانی فطرت ہے لیکن اس کا اعتراف کرنا سمجھداری ہے۔ مجھ سے غلطیاں ہوتی ہیں اور مَیں ان کا اعتراف بھی کرتی ہوں۔ مجھے غصہ بہت آتا ہے۔ دھیرے دھیرے میرے اپنے مجھ سے دور ہونے لگے تب احساس ہوا کہ میری غلطی کیا ہے۔ اپنی اس عادت کی وجہ سے مَیں نے اپنوں کو تکلیف پہنچائی ہے مگر اب مَیں اپنی اس غلطی کو دور کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہوں۔
زرمین مومن (بھیونڈی، تھانے)
ایک رشتہ دار کو تکلیف پہنچانے کی غلطی
عرصه قبل کی بات ہے، میں اس وقت ۱۳؍ سال کی تھی۔ میرے چند رشته داروں نے سازش کرکے مجھے اور میری امی کو بہکا کر اپنے گاؤں لے گئے اور ۲۲؍ دنوں تک یرغمال بنا کر رکھا۔ ہماری تواضع اور خاطر و مدارات میں قطعاً کوئی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ میں نے اسے اپنائیت سمجھا۔ وہاں وہ لوگ اپنی دور نزدیک کی دو تین رشته دار لڑکیوں کو میری دلجوئی کے لئے بلوا کر پہلے ہی سے رکھا ہوا تھا۔ میں ان کی سازشوں کو سمجھ نہیں سکی اور ان کے ساتھ گھل مل کر اور ان کا ہتھکنڈہ بن کر اپنے ایک رشته دار کو ذہنی، قلبی اور روحانی صدمه پہنچانے میں معاونت کی۔ آج مجھے اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوتا ہے اور میں عہد کرتی ہوں کہ آئندہ ایسی غلطی پھر کبھی نہیں کروں گی۔
ناز یاسمین سمن (پٹنه، بہار)
اگلی بار غلطی کرنے سے محتاط رہتے ہیں
انسان غلطیوں کا پلندہ ہے، اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، جانے انجانے، باتوں باتوں میں ہم سے کچھ نہ کچھ غلط ہو ہی جاتا ہے۔ بات تو تب ہے جب ہم اپنی غلطی پر نظر ثانی کرکے اس کا اعتراف کرکے اس کو سدھار لیں۔ اگر بر وقت غلطی کا اعتراف نہیں کیا جائے تو ہمارا ضمیر ہمیں بار بار ملامت کرتا رہتا ہے۔ اعتراف کر نے کے بعد ہم اگلی بار غلطی کرنے سے محتاط رہتے ہیں۔ اپنی غلطی کا کسی کے سامنے اعتراف کرنا بہت ہی مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ ہمیں لگتا ہے کہ اعتراف کے بعد اگلے کی نظروں میں ہم گر جائیں گے یا میرے بارے میں وہ کیا سوچے گا یہی باتیں ہمیں غلطیوں کا اعتراف کرنے سے روکتی ہیں۔ لیکن اگر وقت رہتے اعتراف کرلیں تو اس وقت تو اگلے کو برا لگتا ہے مگر بعد میں اس کی نظروں میں ہم معتبر ہونے کے ساتھ ہی ساتھ خود سے بھی نظریں ملانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
فرح حیدر (اندرا نگر، لکھنؤ)
ہم بروقت فیصلہ نہ کرسکے
انسان ہونے کی علامت ہے کہ اس سے خطائیں سرزد ہوگی لیکن اپنی غلطی کا اعتراف کرنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں نہ اس کو اس قدر ضروری گردانا جاتا ہے۔ ہاں میں یہ اعتراف کرتی ہوں کہ مجھ سےایک نہیں بلکہ دو غلطیاں سرزد ہوئیں۔ میری بڑی بیٹی کا ۱۱؍ ویں (سائنس) میں سومیہ کالج کی لسٹ میں نام آیا۔ دور ہونے کی وجہ سے دوسری لسٹ کا انتظار کیا،جس میں برلا کالج آیا۔ کلیان میں کالج اور امبرناتھ میں کلاسیز لگا دی۔بچی کی ضد تھی کہ سومیہ کالج اور ممبئی میں ہی کوئی کلاس میں داخلہ کروایا جائے۔ہم نے طویل سفر اور تھکان کا عذر پیش کرکے اسے راضی کرلیا۔ ۱۲؍ ویں میں ۸۲؍ فیصد اور سی ای ٹی میں ۱۳۶؍ نمبرات ملنے پر ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ اس سے زیادہ نمبر آنے کی امید تھی اور ممبئی میں ایم بی بی ایس کروانے کی خواہش کی تکمیل نہ ہوسکی۔ دوسری غلطی یہ ہوئی کہ کہ کچھ دنوں بعددھولیہ کالج میں ایم بی بی ایس میں نام آیا مگر مسئلہ ہنوز دوری کا تھا۔ آج تعلیم کے حصول کے لئے بچیاں لندن امریکہ بھی چلی جاتی ہیں اور والدین بھی اس میں کوئی تردد یا مضائقہ نہیں سمجھتے۔آج تک مجھے اپنی اس غلطی پر افسوس ہے۔بیٹی بی ایچ ایم ایس ڈاکٹر تو بنی لیکن یہ قلق ہمیشہ رہے گا کہ قدرت نے مو قع دیا تھا اور بیٹی ذہین بھی تھی مگر ہم بر وقت فیصلہ نہ کرسکے۔
رضوانہ رشید انصاری (بیلجیم،یورپ)
غلطیاں قبول کرنے سے شخصیت میں نکھار پیدا ہوا
مَیں یازدہم میں زیر ِ تعلیم ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ غلطی کو تسلیم کرنا ایک اعلیٰ ظرف انسان کی علامت ہے۔ ایک باشعور انسان اپنی شخصیت کو نکھارنے کے لئے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرکے ان کی صلاح کرتا ہے۔ غلطیاں چاہے چھوٹی ہوں یا بڑی، آخر غلطی ہوتی ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں باقی تو غلطیاں کرکے بھی شیر بن جاتے ہیں لیکن اعلیٰ ظرف لوگ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرکے اپنا احتساب کرتے ہیں جو انسانی بقاء کے لئے نہایت اہم ہے۔ غلطی کا اعتراف کرنا ایک اچھی عادت ہے۔ مَیں نے اس صلاحیت کو اپنے اندر پروان چڑھانا چاہا، مَیں نے خود کا جائزہ لینا شروع کیا، مجھ سے کہاں غلطی ہوئی اسے نوٹ کیا اور اسے تسلیم کرکے اسے سدھارنے کی کوشش کی۔ ایسا کرنے سے مجھے لگا کہ میری خود کی نظر میں میری عزت دوبالا ہوئی۔ لوگ مجھ پر اعتماد کرنے لگے۔ میرے دوست مجھ سے کوئی بھی بات کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اب میں انہیں سمجھ کر ان کی صلاح میں معاون ثابت ہوگی۔ ان باتوں سے مجھے لگا کہ غلطیوں کا اعتراف کتنا ضروری ہے۔ اور اب میں خود اپنا جائزہ لیتی ہوں اور اپنی اصلاح خود کرتی ہوں۔
زرنین آرزو عبداللطیف شاہ (جلگاؤں، مہاراشٹر)
سچ چھپا کر بڑی غلطی کی
ہر شخص اپنی زندگی میں کوئی نہ کوئی غلطی کرتا ہے۔ مَیں بھی غلطی کرتی ہوں اور اس کی اصلاح کی کوشش بھی کرتی ہوں۔ لیکن میری ایک بات چھپانے کی وجہ سے مجھے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ دراصل مَیں نے اپنے سسرالی رشتے داروں سے متعلق اپنے والدین کو حقیقت نہیں بتائی تھی۔ وہ لوگ مجھ پر ظلم کرتے تھے۔ ۳؍ سال کے بعد میرے والدین کو حقیقت معلوم ہوئی اور ان کی مداخلت کی وجہ سے آج میری زندگی بہتر ہے۔ سچ چھپا کر مَیں نے بڑی غلطی کی۔
ایس انصاری (ممبئی، مہاراشٹر)
غلطی کا معترف ہی زندگی کو چمکا سکتا ہے
صرف اللہ کی ذات ہی مکمل ہے۔ انسان غلطیوں کا پتلا ہے۔ غلطی ہر کسی سے ہو جاتی ہے۔ اس کا اعتراف وہی کرتا ہے جو روشن خیال ہو۔ ایک قسم کی غلطی بار بار کرنا حماقت کہلاتی ہے۔ میں اپنی غلطی کا اعتراف کرنا اس لئے ضروری سمجھتی ہوں کہ اس سے خود کا دل بھی صاف ہو جاتا ہے اور بچوں پر بھی مثبت اثر پڑتا ہے۔ انسان کے کردار میں چمک اسی وقت آ سکتی ہے جب وہ احتیاط کے ساتھ کام کرے اور بھرپور کوشش کرے کہ اس سے وہ غلطی دوبارہ نہ ہو۔وہی انسان قابل اعتبار اور قابل اعتماد ہوتا ہے جو غلطی ہونے پر اس کا اعتراف کرتا ہے اور بحث نہیں کرتا۔
نجمہ طلعت (جمال پور، علی گڑھ)
غلطی کا احساس ہونا ضروری ہے
مَیں اپنی غلطی کا اعتراف کرنا اس لئے ضروری سمجھتی ہوں کہ غلطی انسان ہی سے ہوتی ہے اور اگر ہم غلطی کا احساس وقت رہتے کرلیں گے تو زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائے بحث کرکے خود کو صحیح ثابت کرنا بیوقوفی ہے۔ مَیں سمجھتی ہوں کہ غیر ضروری بحث کرکے خود کو درست ٹھہرانے اور سامنے والے سے تعلقات خراب کرنے سے بہتر ہے کہ اپنی غلطی کا اعتراف کر لیں۔ میری بھی یہی کوشش ہوتی کہ اپنی غلطی کا جلد اعتراف کر لوں۔
قریشی عربینہ محمد اسلام (بھیونڈی، تھانے)
مسئلہ حل ہو جاتا ہے
انسان خطاؤں کا پتلا ہوتا ہے۔ لاکھ احتیاط کے باوجود بھی اس سے غلطی ہوجاتی ہے۔ غلطی ہوجانا کوئی معیوب بات نہیں ہے لیکن اس غلطی پر ڈٹے رہنا، اس کا اعتراف نہ کرنا اور اسے سدھارنے کی کوشش نہ کرنا ضرور معیوب ہے۔ میں اپنی غلطی کا اعتراف کرنا اس لئے ضروری سمجھتی ہوں کہ اس سے تعلقات بحال ہوتے ہیں۔ باہمی اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے۔ ذہنی تناؤ کم ہوتا ہے اور مسائل کا حل مل جاتا ہے۔ غلطی کا اعتراف زندگی کو پُرسکون بنا دیتا ہے۔
نکہت انجم ناظم الدین (جلگاؤں، مہاراشٹر)
اپنی اصلاح کے لئے
ہم انسان ہیں غلطیاں ہونا فطری ہے مگر اپنی غلطی کا اعتراف کرنا بہت ضروری ہے۔ جب ہم اپنی غلطی جان لیتے ہیں تو پھر اسے دہراتے نہیں۔ میں اپنی غلطی کا اعتراف کرنا اس لئے ضروری سمجھتی ہوں تاکہ خود کو مزید بہتر بنا سکوں۔ اپنی غلطی مان لینا ایک اچھی خوبی ہے۔ جب تک ہمیں اپنے غلطی کا احساس نہیں ہوگا ہم غلطیوں پر غلطیاں کرتے رہیں گے اور دوسروں کے ساتھ خود کی نظروں میں بھی گرتے رہیں گے۔ اپنی غلطیوں سے سیکھ حاصل کرنے ہی سے ہم زندگی میں آگے بڑھ سکیں گے۔
ہما انصاری ( مولوی، گنج لکھنؤ)
فوراً اعتراف کر لیتی ہوں
غلطی ہر انسان سے ہوتی ہے کوئی اپنی غلطی مان لیتا ہے کوئی نہیں مانتا۔ لیکن ہر غلطی ہمیں کچھ نہ کچھ سیکھا دیتی ہے اگر ہم سیکھنا چاہیں تو۔ میرا یہ ماننا ہے کہ اگر ہم اپنی غلطی کا اعتراف کرلیں تبھی ہم اپنی اصلاح کرسکتے ہیں اور کوشش کریں گے دوبارہ اپنی غلطی نہ دہرائیں۔ لیکن اگر ہم اپنی غلطی کو غلطی ہی نہ سمجھیں تو اصلاح کہاں سے ہوگی اور ہم غلطی پر غلطی کرتے جائیں گے اسی لئے اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوجائے تو میں اعتراف کر لیتی ہوں۔
یاسمین محمد اقبال (میرا روڈ، تھانے)
اگلے ہفتے کا عنوان: میری ڈائری کا سب سے اہم ورق۔ اظہار خیال کی خواہشمند خواتین اس موضوع پر دو پیراگراف پر مشتمل اپنی تحریر مع تصویر ارسال کریں۔ وہاٹس ایپ نمبر: 8850489134