آج سے سات آٹھ دہائی قبل بڑوں کے احترام، عزت اور قدر کا ایک الگ ہی پیمانہ تھا۔ لیکن آج کا دور مختلف ہے۔ آج تو صحیح کو بھی ’غلط‘ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا بلکہ اپنی غلط بات منوانے میں ایسی مہارت رکھتا کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ اس وقت بچوں کی درست سمت میں رہنمائی کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
نئی نسل کے رویوں کیلئے ان کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے مثبت سمت میں اُن کی ذہن سازی کریں۔ تصویر: آئی این این
رب العالمین کی سب سے بہترین تخلیق انسان ہے اور اس خوبصورت سر زمین پر ایک ذرّے سے لے کر آفتاب تک ہر شے خوبیوں سے مزین ہیں اور سب سے بڑھ کر رب کی تخلیق.... ابن ِ آدم۔ ہر بندے میں خوبیوں کا خزانہ پوشیدہ ہے۔ ہر شخص باصلاحیت ہے اور اسے استعمال کرنا بھی بخوبی جانتا ہے لیکن آج کے دور میں نوے فیصد لوگ اپنی ہی خوبیوں سے نابلد ہیں خاص کر آج سے سات آٹھ دہائی قبل کی ’بومر جنریشن۔‘ جس نے اپنی قدر کبھی نہیں کی۔ جبکہ ان میں سے بیشتر کی تاریخ رقم کی۔ یہ وہ عظیم شخصیات ہیں جنہوں نے کئی چیزیں ایجاد کیں بغیر کسی نام و نمود کے، لالچ کے۔ ان کے دلوں میں علم کے خزانے پوشیدہ تھے لیکن انہوں نے کبھی بھی تکبر نہیں کیا اور نہ ہی علم کی تقسیم میں بخیلی سے کام لیا.... انہوں نے ایسی فصلیں تیار کیں جس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔
بچپن میں سنتے تھے زمانہ بدل گیا لیکن اصل میں اب زمانہ بدلا ہے۔ آج سے سات آٹھ دہائی قبل بڑوں کے احترام، عزت اور قدر کا ایک الگ ہی پیمانہ تھا۔ کسی کی مجال نہیں تھی کہ اپنے بڑوں سے کچھ کہہ دیں۔ ان کی غلطیوں کی نشاندہی کریں۔ غلط کو بھی غلط کہنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ لیکن آج کا دور مختلف ہے۔ آج تو صحیح کو بھی ’غلط‘ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا بلکہ اپنی غلط بات منوانے میں ایسی مہارت رکھتا کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ آج کے لوگ بہت زیادہ پراعتماد اور زمانہ شناس ہیں۔ مروت، خلوص، احساس اور جذبات جیسے بیش قیمت الفاظ کہیں کھو گئے ہیں۔ آج کے دور کا انسان اپنے آپ کو ہمیشہ اعلیٰ و ارفع سمجھتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ انہیں اعلیٰ بنانے میں سماج کا سب سے بڑا کردار رہا ہے۔ جس نے شور مچایا وہی ’سچا‘ کہلایا کچھ اس طرح کا ماحول آج نظر آرہا ہے۔
وہ کون لوگ تھے جن کی سوچ، فکر اور خیالات صرف اور صرف قوم و ملت کیلئے ہوتی تھی۔ ان کے اذہان صرف نسلوں کی آبیاری کیلئے تڑپتے تھے۔ وہ کوئی آسمانی مخلوق نہیں بلکہ عظیم شخصیات تھیں جن کی تربیت ایسی مٹی سے کی جاتی، جس میں خلوص، ایمانداری، نیکی اور اعتماد کے ذرات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوتے تھے۔
آج کی نسل کی اگر ہم بات کریں تو اس میں ہم دیکھیں گے کہ تربیت ہی سب سے بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ بچوں کی تربیت میں گھر کے بزرگوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ بزرگوں کے زیر ِ سایہ پرورش پانے والے بچے مہذب اور باادب ہوتے ہیں۔ مشترکہ خاندان میں وہ ہر طرح کے کردار سے واقف ہوتے ہیں.... کب کس سے روٹھنا ہے، کب کس کو منانا ہے،کب کس سے دوری اختیار کرنی ہے، اور کب کس کو قریب کرنا ہے؟ یہ فن بچے اپنے بڑوں کی صحبت میں رہ کر سیکھتے ہیں اور آپ دیکھیں گے کہ ۹۹؍ فیصد کامیاب بچوں میں مشترکہ خاندان کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔ مشترکہ خاندان میں بزرگوں کی موجودگی اور ان کی مشاورت کی اہمیت ہوتی ہے، جو نوجوانوں کو صحیح رہنمائی دیتی ہے۔ بچے گھر کے تمام افراد کی محبت اور توجہ کا مشاہدہ کرتے ہیں، جس سے ان کی بہترین تربیت ہوتی ہے اور اسی تربیت سے مستفیض ہو کر یہ قوم و ملت کے فیض کا سبب بنتے ہیں۔ موجودہ دور میں بچے، بوڑھے اور نوجوان، سبھی دوسروں کی نظر میں خود کو برتر ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اس ہوڑ نے زندگی کا اصل حسن چھین لیا ہے۔ بغیر محنت سے نام و شہرت کو حاصل کرنے کی سوچ بچوں کو غلط راہ پر لے کر جا رہی ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ یہ راستہ انہیں دلدل میں لے جائے گا، جہاں سے باہر نکلنا تقریباً ناممکن ہے۔ دراصل آج کے بچے محنت کئے بغیر ہر چیز اپنی مٹھی میں کرنا چاہتے ہیں۔ بچوں کے اس رویے کے فروغ میں بچوں سے زیادہ والدین اور اساتذہ کی غلطی ہے جنہوں نے بچوں کے ناتواں شانوں پر حد سے زیادہ ذمہ داریاں ڈال دی ہیں۔ بچوں کی ذہنی و جسمانی استطاعت کا اندازہ کئے بغیر وہ ان سے ڈھیر ساری امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں اور نتیجہ بچے بغیر محنت کئے دوسروں کی نظر میں نمایاں ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔
سماجی طور پر ہر شخص کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنے اطراف پر گہری نظر رکھے۔ یہ ایک بہترین شہری ہونے کی نشانی ہے۔ دوسروں پر انگلیاں اٹھانا نہایت آسان ہوتا ہے لیکن کسی گرتے ہوئے کا ہاتھ تھام کر اسے کھڑا کرنا یہ صرف اور صرف عظیم لوگوں کا کام ہوتا ہے۔ آج کی نئی نسل کو سب کچھ فوراً چاہئے۔ جس مقام کو حاصل کرنے کے لئے ہمارے آباء و اجداد نے خوب مشقتیں کیں، نئی نسل کو سب کچھ فوراً مل جا رہا ہے اس لئے انہیں قدر نہیں ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اس نئی نسل کی تربیت میں اقدار کو شامل کیا جائے۔ ’مَیں‘ کا پہاڑہ پڑھنے کے بجائے ’ہم‘ کا پہاڑہ پڑھیں کیونکہ جو شخص ’مَیں‘ کا پہاڑہ پڑھتا ہے، وہ زمین کی تختی سے ہمیشہ کے لئے مٹ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے نام لیوا بھی نہیں رہتے۔