Inquilab Logo Happiest Places to Work

بچیوں کو باشعور، بااعتماد اور مہذب بنانا ماؤں کا منشور ہو!

Updated: August 12, 2025, 5:34 PM IST | Dr. Qamar Suroor | Mumbai

اگر گھر کا ماحول محبت بھرا، سادہ اور سکون دینے والا ہو تو بچی میں اعتماد اور مثبت سوچ پیدا ہوتی ہے۔ ایک تربیت یافتہ ماں اپنی بیٹیوں کو اخلاق، حیا، وقت کی قدر، محنت، صبر اور مثبت سوچ جیسے اوصاف دیتی ہے، جو انہیں زندگی کے ہر مرحلے میں رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔

For daughters, a mother`s embrace or guardianship is a continuous and moving school. Photo: INN.
بیٹیوں کے لئے ماں کی آغوش یا اس کی سرپرستی مسلسل اور چلتی پھرتی درسگاہ ہوتی ہے۔ تصویر: آئی این این۔

مسلم معاشرے کی بنیاد گھر ہے اور گھر کی اصل رونق بچیاں ہیں، جو کل کو ماں بنتی ہیں، ایک نئی نسل کو پروان چڑھاتی ہیں اور اس نسل کے ذہن و کردار کی سمت طے کرتی ہیں۔ بچی کی تربیت دراصل ایک انسان کی نہیں بلکہ ایک پوری نسل کی تربیت ہے، اسلئے یہ محض گھریلو ذمہ داری نہیں بلکہ ایک معاشرتی اور قومی فریضہ ہے۔ آج کے دور میں، جب معاشرتی اثرات تیزی سے بدل رہے ہیں، یہ سوال پہلے سے زیادہ اہم ہوگیا ہے کہ گھروں میں بچیوں کی تربیت کیوں ضروری ہے؟ بچیوں کی تربیت کا آغاز گھر سے اور خصوصاً ماں کی گود سے ہوتا ہے، کیونکہ ماں پہلی درسگاہ ہے۔ اگر گھر کا ماحول محبت بھرا، سادہ اور سکون دینے والا ہو تو بچی میں اعتماد اور مثبت سوچ پیدا ہوتی ہے۔ ایک تربیت یافتہ ماں اپنی بیٹیوں کو اخلاق، حیا، وقت کی قدر، محنت، صبر اور مثبت سوچ جیسے اوصاف دیتی ہے، جو انہیں زندگی کے ہر مرحلے میں رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ اگر بچیوں کو یہ بنیادی اوصاف بچپن ہی سے سکھا دیئے جائیں تو وہ زندگی کے نشیب و فراز کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتی ہیں اور جلدی بہکنے یا مایوس ہونے سے بچ جاتی ہیں۔
یہ دور ترقی کا دور ہے، لیکن اسی کے ساتھ یہ تیز رفتار تغیرات اور نئے فتنوں کا بھی دور ہے۔ انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور مختلف ثقافتی اثرات نے نوجوان ذہنوں کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ اگر گھر میں تربیت کا فقدان ہو تو بچیاں ان اثرات سے بچ نہیں پاتیں اور اکثر اپنی پہچان کھو بیٹھتی ہیں۔ بچیوں کو اس حقیقت سے روشناس کروانا کہ وہ اپنے خاندان، معاشرے اور خود اپنی ذات کیلئے کتنی اہم ہیں؟ بہت ضروری ہے۔ ایک لڑکی اگر تعلیم یافتہ ہو مگر تربیت یافتہ نہ ہو تو وہ اپنی زندگی کے بڑے فیصلوں میں ٹھوکر کھا سکتی ہے، لیکن اگر وہ باکردار، باشعور اور بااعتماد ہو تو کسی بھی میدان میں کامیاب ہوسکتی ہے۔
بچیوں کی تربیت کا مطلب صرف دین یا مذہب سکھانا نہیں بلکہ عملی زندگی کے تقاضوں کے لئے تیار کرنا بھی ہے۔ انہیں سلیقہ سکھانا، وقت کی پابندی کا عادی بنانا، صفائی کا اہتمام، دوسروں کے ساتھ حسن سلوک، مالی نظم و ضبط، اور خود کو سنبھالنے کی مہارت دینا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔ ایک بچی اگر صبر، برداشت، خوش اخلاقی اور سلیقے کے ساتھ زندگی گزارنے کی عادی ہو تو وہ کل کو نہ صرف ایک اچھی شریک حیات بنے گی بلکہ ایک ذمہ دار ماں بھی ثابت ہوگی جو اپنی اولاد کو بھی انہی اوصاف کے ساتھ پروان چڑھائے گی۔
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ تعلیم اور تربیت میں فرق سمجھا جائے۔ تعلیم محض علم دینے کا نام ہے، جبکہ تربیت اس علم کو کردار میں ڈھالنے کا عمل ہے۔ ایک بچی کو اگر صرف دنیاوی تعلیم دی جائے مگر کردار سازی پر توجہ نہ دی جائے تو وہ محض ڈگری یافتہ ہو کر رہ جائے گی، جو معاشرے میں کوئی مثبت کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہوگی۔ لیکن اگر تعلیم کے ساتھ ساتھ کردار سازی بھی ہو تو وہ کسی بھی شعبے میں کامیاب ہونے کے باوجود اپنے اخلاق، حیا اور معاشرتی اقدار کے ساتھ جڑی رہے گی۔
عملی تربیت کے کئی طریقے ہیں جن پر ہر گھر میں آسانی سے عمل کیا جاسکتا ہے۔ بچیوں کو روزمرہ کے چھوٹے چھوٹے کاموں کی ذمہ داری دینا، وقت کا صحیح استعمال سکھانا، اچھی اور مثبت کتابوں سے مانوس کرنا، اچھی صحبت دلانا، دوسروں کیلئے ہمدردی پیدا کرنا، خود اعتمادی کے ساتھ بات کرنے کا سلیقہ سکھانا اور ان میں خدمت خلق کا جذبہ پیدا کرنا تربیت کا حصہ ہونا چاہئے۔ یہ سب چیزیں بچیوں کو مضبوط بناتی ہیں تاکہ وہ عملی زندگی میں اعتماد اور وقار کے ساتھ قدم رکھ سکیں۔
جب گھروں میں بچیوں کی تربیت پر توجہ دی جاتی ہے تو اس کے اثرات صرف گھر تک محدود نہیں رہتے بلکہ پورے معاشرے پر پڑتے ہیں۔ ایک تربیت یافتہ بچی جب ماں بنتی ہے تو وہ اپنے بچوں کی بہتر تربیت کرتی ہے، خاندان کو جوڑ کر رکھتی ہے، شوہر کیلئے سکون کا ذریعہ بنتی ہے اور معاشرے کیلئے خیر و سلامتی کا پیغام لے کر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے اگر آپ ایک مرد کو تعلیم دیتے ہیں تو آپ ایک فرد کو تعلیم دیتے ہیں، لیکن اگر آپ ایک عورت کو تعلیم اور تربیت دیتے ہیں تو آپ پوری نسل کو پروان چڑھاتے ہیں۔
یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم گھروں میں بچیوں کی تربیت کو سب سے اہم کام سمجھیں۔ محض ڈگریوں یا دنیاوی مقام کے پیچھے بھاگنے کے بجائے کردار سازی پر توجہ دیں، تاکہ ہماری بچیاں باشعور، بااعتماد، مہذب اور مثبت سوچ رکھنے والی ہوں۔ آج ہم اگر اپنی بچیوں کی تربیت کریں گے تو کل کا معاشرہ امن، سکون اور ترقی کی طرف بڑھے گا۔ تربیت ایک ایسا سرمایہ ہے جو ہر مال و دولت سے بڑھ کر ہے، کیونکہ یہ سرمایہ ایک شخصیت کی بنیاد کو مضبوط کرتا ہے اور ایک مضبوط شخصیت ہی معاشرے کو سنوار سکتی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو ہمارے گھروں کو بھی روشن کرے گی اور ہماری آئندہ نسلوں کو بھی کامیاب بنائے گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK