• Tue, 21 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

خود سے دوستی کر لیجئے، فائدہ اسی میں ہے

Updated: October 21, 2025, 2:37 PM IST | Nikhat Anjum Nazimuddin | Mumbai

زندگی کے ہر موڑ پر کچھ لوگ ملیں گے جو آپ کے احساسات کو سمجھ نہیں پائیں گے۔ کچھ آپ پر تنقید کریں گے، کچھ آپ کی خامیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کریں گے اور کچھ آپ کی خاموشی کو کمزوری سمجھیں گے۔ مگر ان سب کے باوجود اگر آپ اپنی روشنی کو قائم رکھ سکتی ہیں تو یقین کیجئے آپ جیت گئی ہیں۔

Instead of giving importance to the words and comments of others, prioritize yourself, life will feel pleasant. Photo: INN
دوسروں کی باتوں اور تبصروں کو اہمیت دینے کے بجائے اپنی ذات کو ترجیح دیں، زندگی خوشگوار محسوس ہوگی۔ تصویر: آئی این این
زندگی کے ہنگامہ خیز سفر میں ہم اکثر دوسروں کے رویوں کے اسیر بن جاتے ہیں۔ کسی کے ایک لفظ، کسی کے ایک تیکھے جملے یا بے توجہی کے کسی لمحے کو ہم اپنے دل کے گرد لپیٹ لیتے ہیں اور پھر وہی لمحہ ہماری زندگی کی خوشیوں اور اطمینان پر غالب آجاتا ہے۔ ہم مسکرانا بھول جاتے ہیں، جینا بھول جاتے ہیں اور اپنے اندر کے روشن حصے کو اندھیروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ مگر کبھی رک کر سوچا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ زندگی دراصل اتنی ارزاں نہیں کہ ہم اسے دوسروں کی ناپسندیدگی کے خوف میں گزار دیں۔ زندگی جینے کا ہنر اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب انسان یہ سیکھ لے کہ دوسروں کی رائے کو خود پر حکومت نہ کرنے دے۔ ہر شخص کا زاویۂ نظر الگ ہے اور ہر فرد کی سوچ مختلف۔ کوئی آپ کو سمجھ نہیں پایا تو اس میں آپ کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ شاید اُس شخص کی نگاہ میں وہ روشنی نہیں تھی جو وہ آپ کی اچھائیوں اور خوبیوں کو دیکھ پاتا۔ اس لئے افسوس کرنے کے بجائے مسکرائیے کیونکہ یہ مسکراہٹ ہی آپ کا اعلانِ حیات ہے۔
انسان کی سب سے بڑی طاقت اسکی خاموش خود اعتمادی ہے۔ وہ اعتماد جو چیخ کر نہیں بلکہ سکون سے کہتا ہے کہ ’’مَیں خود کو جانتا ہوں، مجھے کسی کی توثیق درکار نہیں۔‘‘ یہ احساس جب دل میں جگہ بنا لیتا ہے تو انسان کے اندر کی بےچینی خود بخود ختم ہونے لگتی ہے۔ پھر تنقیدیں زخم نہیں بن پاتیں بلکہ درسِ حیات بن جاتی ہیں۔ ہمارا زندگی جینے کا طریقہ اوروں سے مختلف ہوسکتا ہے کیونکہ عام طور پر دنیا میں دو اقسام کے لوگ ہوتے ہیں، ایک وہ جو دوسروں کے ’اپروول‘ پر زندہ رہتے ہیں۔ انہیں اپنی شخصی اوصاف، کامیابی اور خوشیوں کیلئے دیگر لوگوں کی رائے اور ریمارکس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور دوسرے وہ جو اپنے ضمیر کی آواز پر زندگی گزارتے ہیں۔ اپنے کاموں اور کارکردگی سے مطمئن ہوتے ہیں۔ پہلا گروہ ہمیشہ تھکن کا شکار رہتا ہے اور دوسرا پُر سکون۔ جو لوگ اپنی خوشی کے فیصلے خود کرتے ہیں، وہ کبھی حالات کے غلام نہیں بنتے۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ خوش رہنا صرف ایک انتخاب نہیں بلکہ ایک شعوری فیصلہ ہے۔ اگر آپ کو کبھی زندگی کے دباؤ، رشتوں کی پیچیدگیوں یا ماضی کی یادوں نے تھکا دیا ہو تو خود سے بھاگنے کے بجائے خود کے قریب جائیے۔ ایک کپ چائے کیساتھ چند لمحے خاموشی میں گزاریں۔ خود سے گفتگو کیجئے، جیسے کسی پرانے دوست سے بات کر رہے ہوں۔ آپ حیران رہ جائینگے کہ آپ کے اندر کتنا حوصلہ، کتنی روشنی اور کتنا سکون چھپا ہوا ہے۔ بس بات یہ ہے کہ آپ نے کبھی خود کو وقت ہی نہیں دیا اور نہ ہی خود کو جانا ہے۔ غم اور تکلیف زندگی کے لازمی حصے ہیں۔ مگر انسان وہی کامیاب ہوتا ہے جو انہیں اپنی شخصیت کا مرکز نہیں بناتا۔ دنیا کے کامیاب ترین اور خوش ترین لوگ وہ نہیں جو دکھ سے آزاد ہیں بلکہ وہ ہیں جنہوں نے دکھ کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ہر طوفان کے بعد ایک پُرسکون خاموشی ہوتی ہے اور ہر زخم کے لگنے کے بعد حوصلوں کو ایک نئی روشنی ملتی ہے جو حالات سے نبردآزما ہونے میں کام آتی ہے۔
زندگی کی خوبصورتی اس بات میں پوشیدہ ہے کہ آپ کسی دکھ کے باوجود مسکرانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ یہ حوصلہ انسان کے کردار کو بلند کرتا ہے۔ لوگوں کے رویے اگر تلخ ہوں، ان کے الفاظ اگر چبھ جائیں تو یاد رکھئے کہ ان کا زہر صرف تب اثر کرتا ہے جب آپ اسے دل میں جگہ دیتے ہیں۔ دل کے دروازے پر پہرہ رکھئے۔ صرف ان احساسات کو اندر آنے دیجئے جو آپ کے سکون کو بڑھائیں۔ دنیا بدل جائے تو بدل جائے مگر اپنے دل کا اطمینان ہاتھ سے نہ جانے دیجئے۔ کسی کی نفرت، کسی کی غلط فہمی یا کسی کی بے نیازی کو اپنی خوشی پر اثر انداز نہ ہونے دیں۔ جہاں دل تنگ ہو وہاں سے ہٹ جائیے۔ جہاں لفظ دل دکھائیں وہاں خاموش ہو جائیے۔ آپ کو ہر کسی کے ہر سوال کا جواب دینا ضروری نہیں۔ ہر منفی تبصرے پر اپنا ردعمل دینا ضروری نہیں ہے۔ ہر تنقید پر خود کو غلط سمجھنا ضروری نہیں ہے کیونکہ تنقید ہر وقت اصلاح کے لئے ہو یہ ضروری نہیں۔ کچھ تنقیدیں برائے تنقیص بھی ہوتی ہیں اور یہ ان افراد کی جانب سے ہوتی ہیں جن کی آنکھیں آپ کی روشنی سے خیرہ ہوگئی ہیں۔ اسی لئے کبھی کبھی خاموشی سب سے خوبصورت جواب ہوتی ہے۔
ہر صبح آئینے میں دیکھ کر خود سے کہئے کہ ’’مَیں وہ شخص ہوں جو اپنے دکھوں کے باوجود جینا جانتا ہے، جو اپنے زخموں کو چھپا کر اوروں کو مسکراہٹ بانٹ سکتا ہے۔‘‘ یقین جانئے یہی وہ لمحہ ہے جب زندگی واقعی خوبصورت محسوس ہونے لگتی ہے۔ اپنے وجود کو کمزوریوں سمیت قبول کیجئے۔ تب آپ کو محسوس ہوگا کہ زندگی کتنی نرم، کتنی حسین اور کتنی قیمتی ہے۔ یہ چند برسوں کی امانت ہے، اس پر غم کی گرد جمنے مت دیجئے۔ اپنی مسکراہٹ کو اپنی پہچان بنا لیجئے کیونکہ شاید دنیا کو ابھی بھی کسی ایسے چہرے کی ضرورت ہے جو دکھوں کے باوجود مسکرا سکتا ہو۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK