Inquilab Logo Happiest Places to Work

اوڑھنی اسپیشل: نفرت کا جواب مَیں اس طرح دیتی ہوں

Updated: January 11, 2024, 3:40 PM IST | Saaima Shaikh | Mumbai

گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔

Photo: INN
نفرت کا بہترین جواب آپ کا حسنِ سلوک ہے، اس سے سامنے والا آپ سے محبت کرنے لگتا ہے۔ تصویر: آئی این این

نیکی اور ہمدردی کے ساتھ 


میری زندگی میں نفرت کرنے والوں کے دو اقسام رہی ہیں۔ ایک وہ لوگ جنہیں میری کسی غلطی نے، لاپروائی اور بے توجہی نے تکلیف پہنچائی اور وہ مجھ سے نفرت کر بیٹھے۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو مجھ سے اس لئے نفرت کرتے ہیں کہ باقی لوگ مجھ سے محبت کیوں کرتے ہیں؟میں ان سے زیادہ کامیاب کیوں ہوں؟اور ان کے مقابلے اللہ نے مجھے زیادہ نعمتیں کیوں عطا کی ہیں؟پہلی قسم کے لوگوں کی نفرت کا جواب میں نیکی اور ہمدردی کے ساتھ دینا پسند کرتی ہوں۔ دوسرے قسم کے لوگوں کی نفرت کو میں اپنی زندگی میں بطور تحریک کے استعمال کرتی ہوں۔ ان کی نفرت کا جواب مزید حصولیابیوں اور کامیابیوں کے ذریعے دیا جا سکتا ہے۔ میں نے ان کی نفرت کا جواب ہمیشہ اسی طرح دیا ہے۔
نکہت انجم ناظم الدین (جلگاؤں، مہاراشٹر)
معاملات سلجھانے کی کوشش کرتی ہوں


کبھی کبھی ہماری زندگی میں کچھ ایسے حالات پیش آ جاتے ہیں جو ہمارے لئے غیر متوقع ہوتے ہیں اور ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ بھائی اس میں ہمارا قصور کیا تھا یا ہے؟ کبھی ہمیں شدید قسم کی تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑ تا ہے کبھی کسی کے طعنے تشنے بھی سننے پڑ جاتے ہیں اور کبھی کبھی تو نفرت کا شکار بھی ہونا پڑتا ہےاور ایسا ہر کسی کے ساتھ ہوتا ہے۔ میں ایسے حالات میں ماحول کو دیکھ کر کام کرتی ہوں یعنی جہاں ضرورت ہو وہاں بات کرکے معاملات کو درست کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ اس شخص کے ساتھ بات کرکے اس کی غلط فہمی کو دور کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتی ہوں۔ اس کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس کی نفرت کا جواب ہی نہیں دیتی ہوں بلکہ اسے نظرانداز کردیتی ہوں۔
نسیم رضوان شیخ ( کرلا، ممبئی)
نفرت کا بہترین جواب محبت


آپسی رشتوں میں تلخیاں، کوتاہیاں اور غلطیاں ہونا ایک فطری بات ہے اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ یہ سب چیزیں نفرت کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور اس نفرت کا جواب نفرت سے دینا، یہ غیر انسانی عمل ہے جو مناسب نہیں ہے۔ لہٰذا مَیں نفرت کا جواب محبت سے، مسکراہٹ سے اور تحفے دے کر دیتی ہوں۔ اس عمل سے دلوں میں آئی ہوئی نفرت ختم ہو جاتی ہے اور پھر وہی خوشگوار ماحول دوبارہ بن جاتا ہے جیسے کہ پہلے تھا۔ میرے نزدیک نفرت کے ماحول کو ختم کرنے کا یہی سب سے احسن طریقہ ہے۔
ترنم صابری (سنبھل، یوپی)
نرم لہجہ اپناتی ہوں


نفرت سے دلوں میں خرابی پیدا ہوتی ہے۔ اور نفرت کبھی مسائل کا حل ہو بھی نہیں سکتی۔ اس لئے مَیں ہمیشہ مثبت انداز میں سوچتی ہوں۔ اور جہاں تک ہو سکے سامنے والے کو در گزر کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ میں جانتی ہوں کہ نفرت کے موضوع پر ہم جتنی بھی بحث کریں گے بات اتنی ہی اُلجھتی چلی جائے گی۔ لہٰذا نفرت کا جواب اگر محبت سے دیں تو دلوں سے برائی ختم ہو جاتی ہے۔ اسلام بھی ہمیں محبت اور اُلفت کا درس دیتا ہے۔ ہمیں دلوں سے نفرت اور عداوت نکال پھینکنی چاہئے۔ مجھے کسی کا دل دکھانا قطعی پسند نہیں۔ میرا ماننا یہی ہے کہ بات کو بڑھنے سے روک دیں تو نفرت کم ہو جاتی ہے۔ سخت رویہ اپنانے سے میں پرہیز کرتی ہوں کیونکہ سخت رویہ اپنانے سے ہم اپنے ہی رشتے ناطوں سے دور ہونے لگتے ہیں۔ بات بات پر جھڑک دینا، ڈانٹنا معیوب باتیں ہیں اور ان سب سے مَیں دور ہی رہنا پسند کرتی ہوں۔ نرم لہجہ اور اچھے اخلاق سے نفرت کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔
سیدہ نوشاد بیگم (کلوا، تھانے)

سبھی سے خلوص سے پیش آتی ہوں


اللہ کا شکر ہے کہ مَیں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کے ذریعے نفرت کا سامنا نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی سے اختلاف رائے یا ناراضگی ہوئی ہی نہیں مگر نفرت کا مظاہرہ کسی نے نہیں کیا۔ مَیں اپنے رشتہ داروں سے خلوص سے ملتی ہوں۔ اگر کسی سے اختلاف رائے ہو جائے تو میں مکمل خاموش ہو کر سامنے والے کی بات کو بغور سنتی ہوں اور سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ پھر مناسب طریقے سے اپنے نظریے کو پیش کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ اس کے علاوہ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمیشہ اتنی ہی عاجز مزاجی سے کام لیتی ہوں۔ انسان ہوں، تکلیف مجھے بھی ہوتی ہے اور یہ فطری عمل ہے کہ کبھی کبھی مزاج طبیعت کے برخلاف ظاہر ہوتے ہیں۔ جب کبھی ایسے حالات رونما ہوتے ہیں تو پھر خود کو پرسکون کیفیت میں لا کر ان حالات کے متعلق غور و فکر کرتی ہوں۔ اگر میری غلطی ہوتی ہے تو فوری طور پر معذرت طلب کرتی ہوں یا پھر غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔
مومن رضوانہ محمد شاہد (ممبرا، تھانے)
درگزر کر دیتی ہوں


مَیں نفرت کا جواب آپؐ کے اسوہ حسنہ سے دینے کی قائل ہوں یعنی محبت، انسیت، اپنا پن، خیر خواہی، اخوت اور درگز والا رویہ اپنا کر تاکہ نفرت، دشمنی میں نہ بدل جائے۔ نفرت ہمیں اللہ سے دور کر دیتی ہے اور شیطان کے قدموں کی پیروی کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ کبھی کبھی نفرت کسی غلط فہمی، یا کسی کے اکسانےیا کان بھرنے کا شاخسانہ بھی ہو سکتی ہے لہٰذا ہمیں تصدیق کئے بغیر کوئی حتمی رائے قائم نہیں کرنا چاہئے۔ جتنی جلدی ہو پیار و محبت سےنفرت مٹا دیں۔ گھر کی چہار دیواری میں خانگی، آپسی چپقلش سے بھی نفرت جنم لیتی ہے، اس نفرت کو بچوں میں منتقل ہونے سے پہلے اس کا قلع قمع کرنا لازمی ہے۔ بات چیت کے ذریعے ہر معاملہ سلجھا یا جا سکتاہے۔ بطور ایک ماں، بہو، بیوی، بھابھی، جیٹھانی، دیورانی نفرت کے خاتمے کیلئے ہمیں جو بھی اقدام اٹھانا پڑے، تھوڑا بہت جھکنا پڑے تو بھی کر گزرو، ایک خوشحال کامیاب خاندان کی بنیاد محبت اور قربانی سے رکھی جاتی ہے جو نسلوں تک منتقل ہوتی ہے۔
رضوانہ رشید انصاری (امبرناتھ، تھانے)
بھول جانا یا معاف کرنا پسند کرتی ہوں


زندگی ایک جیسی نہیں چلتی۔ اُتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ رشتوں کو نبھانا بھی پڑتا ہے۔ ہم سوچتے ہیں ہم صحیح ہیں سامنے والا خود کو صحیح سمجھتا ہے، غلطی کس کی ہے؟ اگر ہم یہ بتانے گئے تو نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے تو بہتر یہ ہوگا کہ ایسے ماحول میں تھوڑا دوری بنائے رکھیں، کم ملا کریں، کم بولا کریں۔ سامنا ہونے پر سلام دعا ضرور کریں۔ میں اپنی بات کروں تو مَیں نفرت کا جواب دینا پسند نہیں کرتی بھول جانے یا معاف کرنے میں یقین رکھتی ہوں۔ باتوں کو طول نہیں دیتی ہوں اور اللہ دلوں کے حال بہتر جانتا ہے۔
شاہدہ وارثیہ (وسئی، پال گھر)
مسکراہٹ سے دیتی ہوں


مَیں نفرت کا جواب مسکراہٹ سے دیتی ہوں۔ بعض دفعہ نفرت کی وجہ آپ کی ترقی اور کامیابی ہوتی ہے۔ جب سامنے والے کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ اُن سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں تو اس کے دل میں نفرت پنپتی ہے اور اس نفرت کا بہترین جواب مسکراہٹ ہے۔ اس سے آپ کے قلب کو سکون ملتا ہے۔ مَیں سوشل میڈیا انفلوئنسر ہوں۔ سوشل میڈیا پر لوگ ایک دوسرے کو نفرت کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ ان منفی رویوں سے مایوس ہونے کے بجائے تحریک لینی چاہئے۔ ان کی تنقیدوں سے آگے بڑھنے کا حوصلہ حاصل کرنا چاہئے۔ یقین جانیں، نفرت کا بہترین جواب آپ کی مسکراہٹ ہے۔ مَیں نے ہمیشہ اس پر عمل کیا ہے اور نتیجہ مثبت آیا ہے۔
آفرین عبدالمنان شیخ (شولاپور، مہاراشٹر)
مثبت سوچتی ہوں


نفرت ایک ایسا عمل ہے جو چھوٹی چھوٹی بدگمانیوں سے پنپتا ہے۔ اس کے لئے ہمیں خود ہی کوشش کرنی چاہئے، کبھی باتوں کو نظر انداز کرکے، بدگمانی دور کرکے اپنی سوچ کو مثبت رنگ دے کر آگے بڑھ جانا چاہئے۔ ابھی کچھ دن پہلے مجھے کچھ اپنوں سے ایسا رویہ ملا جس کی مجھے اُمید بھی نہیں تھی، اور مجھے تکلیف بھی ہوئی۔ خیر میں نے ان سب باتوں کو نظرانداز کرکے اپنا وہی پرخلوص رویہ رکھا جو ہمیشہ رکھتی ہوں، اور نتائج بہت مثبت آئے، جس کی مَیں نے توقع کی تھی، الحمدللہ۔
فرح حیدر (اندرا نگر، لکھنؤ)
اچھا رویہ اپنانا


مَیں رشتوں کی قدر کرتی ہوں۔ لوگوں کی غلطیوں کو نظرانداز کرتی ہوں۔ سامنے والے کو درگزر کرتی ہوں اور رشتہ داروں کی تلخ باتیں جو کبھی ناراضگی اور نفرت کو ظاہر کرتی ہے، مَیں سب کچھ صبر کے ساتھ سن لیتی ہوں۔ ہمارے نبیؐ نے فرمایا ہے کہ نفرت کا جواب محبت سے دو، اپنی زبان سے کسی کو دکھ نہ پہنچاؤ۔ کسی کا نام لے کر اس کو رسوا نہ کرو۔ زبان کی لگائی ہوئی آگ سارے رشتوں کو جلا کر خاک کر دیتی ہے۔ اس لئے مَیں نے لوگوں کو معاف کرنا سیکھا۔ سلام و خیریت پوچھنا، ان کیلئے دعا کرنا، مسکرا کر ملنا، دلوں میں کوئی بغض نہ رکھنا، مصافحہ کرنا، گلے لگانا، اچھے اخلاق سے پیش آنا وغیرہ، ان سب باتوں پر مَیں نے عمل کرکے ان کی نفرت کا جواب محبت سے دیا ہے۔ کچھ رشتے ٹھیک ہوگئے تو کچھ دوست بن گئے صرف اچھے اخلاق اور اچھے رویوں سے۔
انصاری رفعنا حفیظ الرحمٰن (نائیگاؤں، بھیونڈی)

دل کو محبت سے جیتا جاسکتا ہے


میرا ماننا ہے کہ ہماری سوشل لائف کو محبتیں آباد کرتی ہیں اور نفرتیں برباد! اس لئے مَیں کوشش کرتی ہوں کہ نفرتیں مٹاؤں اور محبتیں بڑھاؤں، ’میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے‘۔ مَیں جلدی کسی سے بدگمان نہیں ہوتی۔ کسی کی تلخ بات کو حتی الامکان درگزر کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ منفی خیالات کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتی۔ اگر دل میں کسی کی بات سے کوئی تکلیف ہوتی ہو تو دماغی طور پر قبول نہیں کرتی۔ میرا دماغ ہمیشہ اس انسان کی طرف سے وضاحت اور دلائل دیتا رہتا ہے۔ مَیں دعا کرتی ہوں کہ رب کریم اس نفرت کو محبت میں بدلنے کے اسباب فرما دے۔ مَیں کبھی خود سے بات چیت بند کرنے میں شروعات نہیں کرتی۔ سلام ضرور کرتی ہوں۔ مَیں ہمیشہ صلح میں پہل کرنے پر یقین رکھتی ہوں کیونکہ ایسا کرنے والا جنت میں بھی جانے میں سبقت کر لے گا۔ مَیں حالات، واقعے پر نظرثانی کرتی ہوں اور مجھے کہیں سے بھی اپنی کوئی کمی، خامی نظر آتی ہے تو فوراً سے پیشتر معافی مانگ لیتی ہوں۔ میرا ماننا ہے کہ رشتے قدرتی موت نہیں مرتے ان کو ہمیشہ انسان قتل کرتا ہے نفرت سے، نظر اندازی اور غلطی فہمی سے۔ دل کو جیتا جاسکتا ہے جب دل میں محبت داخل ہوگی تو نفرت خود ہی نکلنا شروع ہو جائے گی۔
انصاری عائشہ آبشار احمد (گرانٹ روڈ، ممبئی)
نرمی اور عاجزی کا رویہ


اگر کوئی شخص مجھ سے نفرت کرتا ہے اور اس کا رویہ مجھے دکھ اور اذیت پہنچاتا ہے تو مَیں اس سے نفرت نہیں کرتی ہوں بلکہ مجھے اس پر افسوس ہوتا ہے کہ وہ حسد کرکے اپنے ایمان اور شخصیت کو نقصان پہنچا رہا ہے مجھے اس پر ترس آتا ہے۔ جب میری ملاقات اس سے ہوتی ہے تو مَیں اس کو سلام کرتی ہوں اور اس کو یہ احساس دلائے بغیر کہ اس نے ماضی میں میرے ساتھ نازیبا سلوک کیا تھا اور ا س کے سلوک سے مجھے بہت نقصان پہنچا تھا پھر بھی مَیں اس سے نرمی اور عاجزی کے ساتھ ملتی ہوں اور اس سے اس کی خیریت بھی دریافت کرتی ہوں۔ اگر کبھی وہ کسی مشکل میں ہوتا ہے تو اس کی مدد بھی کرتی ہوں۔ دراصل محبت ہی نفرت کو مٹا سکتی ہے۔
گل شہانہ صدیقی (امین آباد، لکھنؤ، یوپی)
اس سے دوری اختیار کر لیتی ہوں


جب کبھی مجھے محسوس ہوا کہ کسی کے دل میں میرے لئے نفرت ہے تو میں اس سے کسی بھی مسئلے پر بحث بازی نہیں کرتی ہوں نہ ہی اس کے آگے پیچھے گھومتی یا منتیں کرتی ہوں۔ سامنے والے کی نفرت کا احساس ہوتی ہی میں خاموشی کے ساتھ اس سے دوری اختیار کر لیتی ہوں۔ اگر کبھی سامنا ہوتا بھی ہے تو میں اپنے مزاج کے مطابق نرمی ہی سے سلام دعا کرکے کنارہ کش کر لیتی ہوں۔ مجھے نفرت کا جواب نفرت سے دینا پسند نہیں کیونکہ پھر اُن میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔ کسی سے بھی نفرت کرنا یہ میری فطرت نہیں۔
ہما انصاری (مولوی گنج، لکھنؤ)
سلام کرنے میں پہل


ہماری شریعت ہے نفرت کا صرف اور صرف محبت ہی سے مٹایا جاسکتا ہے۔ یہ پیغام ہمیں قرآن اور حدیث کی روشنی میں واضح طور پر ملتا ہے۔ مَیں نے زندگی ہمیشہ اخلاص سے کچلا ہے۔ یہی عمل نفرت کو شرمندہ کرسکتا ہے۔ محبت اور حسن ِ سلوک ہی سے انسان دلوں پر حکومت کرسکتا ہے۔ یہی ہمارے دین نے بھی ہمیں سکھایا ہے۔ سلام کرنے میں پہل کر لی جائے تو دشمن بھی دوست بن جاتا ہے۔
منصوری رومانہ تبسم (شہادہ، نندوربار)
خاموش رہتی ہوں


کسی سے نفرت کرنا ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔ اگر مجھے لگتا ہے کہ کوئی مجھ سے نفرت کرتا ہے تو پہلے مَیں وجہ جاننے کی کوشش کرتی ہوں۔ بات چیت کرکے وجہ معلوم کرتی ہوں۔ اگر واقعی میری وجہ سے دل شکنی ہوئی ہو تو مَیں معافی مانگنے سے نہیں جھجکتی اور اگر وجہ معقول نہیں ہے بس بلاوجہ کوئی مجھ سے نفرت کریں اور مَیں سمجھانے میں ناکام ہوگئی تو خاموشی کو اہمیت دیتی ہوں تاکہ نفرت کی شدت میں کمی آجائے۔ کبھی تو اس انسان کو محسوس ہوگا کہ یہ نفرت بلاوجہ تھی۔ حالات جو بھی ہوں اختلافات جو بھی ہوں، ہر حال میں لوگوں کا احترام لازمی کرتی ہوں۔
ثمینہ علی رضا خان (کوسہ، ممبرا)
دوری ضروری ہے


الحمدللہ آج تک کسی کی نفرت کا شکار ہونے کا موقع تو نہیں آیا مگر ہاں کبھی کبھار کسی کے رویے سے یہ محسوس ہوا کہ فلاں مجھے کچھ خاص پسند نہیں کرتا تو ایسا ہونے پر مَیں اپنے آپ کو اس شخص سے فاصلے پر کر لیتی ہوں۔ ابتدا میں میری کوشش ہوتی ہے کہ ان کا دل میری طرف سے صاف ہو جائے لیکن اگر اس میں کامیابی نہ ملے تو پھر مَیں بغیر کسی لڑائی جھگڑے کے ان کو نظر انداز کرنا شروع کر دیتی ہوں۔ خواہ یہ میری اچھی عادت ہو یا بری لیکن میرے مزاج میں کسی کے خواہ مخواہ کے نخرے برداشت کرنا موجود نہیں ہے۔ لہٰذا خاموشی سے اپنے آپ کو ان سے دور کر لیتی ہوں۔ کیونکہ مثل مشہور ہے ایک چپ سو سکھ۔ اس لئے مَیں اس پر خاطر خواہ عمل کرتی ہوں۔
نگار رضوی (اندھیری، ممبئی)
صبر و تحمل کا دامن تھام لیں


حسن ِ سلوک کو انسان اپنے کردار میں ڈھال لیں تو ہر مشکل کام آسان ہوجاتا ہے۔ نفرت کو محبت سے زیر کیا جاسکتا ہے۔ نفرت کا جواب صبر و تحمل سے دیں۔ دوست، احباب اور رشتے دار سبھی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ سبھی کے ساتھ حسن ِ سلوک سے پیش آئیں، یقین جانیں ہر کوئی ہمیں اپنے دل میں جگہ دے گا اور محبت سے پیش آئے گا۔
شگفتہ منصوری (شہادہ، نندوربار)

خوش اخلاقی سے ملتی ہوں
مَیں جب بھی کسی انسان کے دل میں اپنے لئے نفرت کا جذبہ محسوس کرتی ہوں، اس کے ساتھ ملاقاتیں بڑھا دیتی ہوں اور بے پناہ خوش اخلاقی اور حسن سلوک سے اس کے دل میں جو نفرت کا الاؤبھڑک رہا ہے اسے سرد کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ یقین مانیں وجوہات جو کچھ بھی ہوں، بھلے ہی بد گمانیاں عروج پر ہوں مگر آہستہ آہستہ اس کی نفرت کی شدت کم ہو جاتی ہے۔ پھر میں وجہ تلاش کرکے بدگمانی دور کرنے کی کوشش کر تی ہوں۔ اس طرح نفرت کا جواب نفرت کے بجائے محبت سے دے کر آپ بھی آزمائیں، نفرتیں دور ہوجاتی ہیں۔ حدیث پاک کا مفہوم بھی ہے کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔ اس لئے ہم چونکہ تعلیم یافتہ ہیں اس لئے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہمیں حسن سلوک کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ 
مومن ناہید کوثر جاوید احمد (مالیگاؤں، ناسک)
محبت ہی نفرت کا تریاق ہے
نفرت کی بلبلاتی ندی کو محبت کے بے کراں آبشاروں کی روانی سے رام کیا جا سکتا ہے۔ محبت ہی نفرت کا تریاق ہے۔ جو بھی مجھ سے نفرت کرتا ہے وہ اس کا فعل ہے۔ میں اس کے ساتھ محبت اور خلوص سے پیش آتی ہوں اور اللہ کی رضا کی خاطر اس کو میں رات ہونے سے پہلے ہی معاف کر دیتی ہوں۔ یہی حضور کا فرمان ہے کہ سب کو معاف کرکے سویا کرو۔ میں جانتی ہوں کہ نفرت کرنے والا خود نفرت کی آگ میں جھلس جاتا ہے اور کافی نقصان اٹھانے کے بعد اس کو احساس ہوتا ہے کہ نفرت سے کچھ نہیں ملا۔ جب بھی وہ میرے سامنے آتا ہے میں اس کو سلام پیش کرتی ہوں۔ تہوار پر اس کو نذرانہ بھیجتی ہوں اور شادی بیاہ کے موقع پر جب اس سے ملاقات ہوتی ہے تو میں اس کے پاس جا کر اس کو سلام کرتی ہوں اس کا حال چال پوچھتی ہوں۔ اس طرح میں نفرت کا جواب دیتی ہوں۔
نجمہ طلعت (جمال پور، علی گڑھ)
محبت کی شمع جلائے رکھنا چاہئے
نفرت کا حل جو متعدد احادیث و قرآنی آیات سے بھی ثابت ہے وہ ہے: سلام کہنا، مسکراکر ملنا، ملاقات اور تیمارداری کیلئے جانا، تحائف کا تبادلہ کرنا اور خیر خواہی کرنا۔ مَیں یہ نہیں جانتی کہ مجھ سے کون نفرت کرتا ہے۔ ہاں! یہ ضرور ہے کہ حسد کا مادہ موجود ہے جو فطری ہے، ہم چاہ کر بھی اسے روک نہیں سکتے۔ اس لئے جو لوگ مجھ سے حسد کرتے ہیں، مَیں ان سے بہت محبت و شفقت سے پیش آتی ہوں، ہمیشہ دعائیہ کلمات سے ان کا استقبال کرتی ہوں، چہرے پرمسکراہٹ سجائے رکھتی ہوں اور انہیں اس بات کا موقع نہیں دیتی ہوں کہ وہ میری نکتہ چینی کریں۔ مجھے لگتا ہے کہ نفرت کو مٹانے کا واحد راستہ محبت ہے۔ ہمیں بھی محبت کی شمع جلائے رکھنا چاہئے تاکہ کوئی چاہ کربھی ہم سے نفرت نہ کر سکے۔
فردوس انجم (بلڈانہ مہاراشٹر)
صبر کے ساتھ اللہ پر بھروسہ رکھیں
میرا حوصلہ اتنا وسیع نہیں ہے کہ مَیں ان لوگوں کو معاف کروں جنہوں نے میرے ساتھ انتہائی برا برتاؤ اختیار کیا ہو، میں اس قسم کے افراد سے دوری بنا لیتی ہوں۔ نہ اچھا نہ برا، کسی بھی قسم کا رشتہ نہیں رکھتی ہوں کیونکہ ایسے لوگ اپنی بیہودہ باتوں اور رویوں سے بعض نہیں آتے۔ ایک نیک شخص نے نصیحت کی کہ، ’’اچھے لوگوں کے ساتھ ان کی اچھائی کی وجہ سے اچھا سلوک کرو کیونکہ برے لوگوں کے لئے ان کی برائی کافی ہے۔‘‘ سورہ یوسف میں یہی ہے کہ زندگی میں کبھی قریبی لوگ آپ کے خلاف ہوجائے تو صبر کے ساتھ اللہ پر بھروسہ رکھیں۔ اللہ آپ کو وہ مقام دے گا  جو نفرت کرنے والے دیکھتے رہ جائیں گے۔
مرزا تقدیس جاوید بیگ (غیبی نگر، تھانے)
خلوص اور خوش اخلاقی سے دیں
مَیں نفرت کا جواب ہمیشہ محبت سے دیتی ہوں کیونکہ مَیں ڈرتی ہوں کہ نفرت کی وجہ سے دوریاں اور نا اتفاقیاں نہ بڑھ جائیں۔ میرے خیال سے نفرت کو کبھی نفرت سے نہیں مٹایا جاسکتا اس لئے میں کسی کی نفرت کا جواب نفرت سے نہیں بلکہ محبت سے دیتی ہوں۔ ہماری اسلامی تعلیم ہمیں حسن اخلاق اور عمدہ برتاؤ کا درس دیتی ہے۔ مَیں نے اپنے والدین سے سیکھا ہے کہ نفرت کا مقابلے نفرت سے نہیں بلکہ انکساری اور نرمی، جذبہ، خلوص اور خوش اخلاقی سے دینا چاہئے۔ زندگی بہت مختصر ہے کب اور کہاں ساتھ چھوڑ دے اس لئے دل میں کینہ اور بغض نہیں رکھنا چاہئے۔ انسان بھی بہت عجیب ہے نفرت کے اظہار میں تاخیر نہیں کرتا اور محبت کو چھپاتا پھرتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ نفرت کا جواب محبت سے دیں۔ سامنے والے کو معاف کر دیں۔
صبیحہ سلفی محمد شاکر اسلامی (مدھوبنی، بہار)
نفرت کا جواب ’السلام علیکم‘ سے دیتی ہوں
حدیث کا مفہوم ہے، جو تم سے کٹے تم اس سے جڑو۔ ہمارے اسلاف کا شعار بھی بُرے سلوک کا جواب اچھا سلوک ہی رہا ہے۔ اسی درس پر عمل کرتے ہوئے نفرت کا جواب ’السلام علیکم‘ سے دیتی ہوں۔ حال احوال بھی دریافت کرتی ہوں۔ لیکن بعض دفعہ یہ نہیں معلوم ہو پاتا کہ سامنے والے کی نفرت کا سبب کیا ہے۔ بحیثیت انسان فرد کی زیادتی کا احساس ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اس وقت انسان جذباتی نہ ہوتے ہوئے یکطرفہ نہ سوچے بلکہ اپنا محاسبہ کرے کہ کہیں اس کی اپنی کوئی غلطی تو نہیں ہے۔ ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنے پر جہاں فریق مخالف کی غلطی نظر آئے گی وہیں اپنی بھی خامی کا پتہ چلے گا۔ پھر وہ اپنی اصلاح کے ساتھ معاشرے میں پھیلی نفرت کو دور کرنے میں معاون ہوگا۔ اس طرح محبت بھرا گھر، خاندان، سماج کا وجود عمل میں آئے گا۔
بنت شبیر احمد (ارریہ، بہار)
حسن ِ اخلاق اور عمدہ برتاؤ


ہماری زندگی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بیش بہا نعمت ہے۔ ہمیں اس نعمت کی شکر گزاری کرنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ اور رسولؐ اللہ کے احکام کی پابندی کرنی چاہئے۔ ہمیں ہماری زندگی کو محبت، حسن ِ سلوک، خوش اخلاق اور عمدہ برتاؤ سے آراستہ کرنا ہے۔ ہماری اسلامی تعلیم بھی ہمیں حسن ِ اخلاق اور عمدہ برتاؤ کا درس دیتی ہے۔ مذہب ِ اسلام نے انسانی زندگی کے ہر شعبے میں غیر مسلموں کے ساتھ بھی عمدہ برتاؤ کا درس دیا ہے۔ حسن ِ اخلاق انسان میں بلندی، اعلیٰ ظرفی اور تحمل کے جذبات کا مظہر ہے۔ خوش اخلاقی ایک قیمتی سرمایہ ہے جس سے ہماری زندگی ایک مثالی نموبہ بن سکتی ہے اور دوسروں کیلئے مشعلِ راہ ثابت ہوسکتی ہے۔ کوئی انسان اگر ہمارے ساتھ جہالت والا معاملہ کرتا ہے تو ہمیں بردباری سے پیش آنا چاہئے۔ وہ اگر ہم سے برائی کرے تو ہمیں بھلائی کرنی ہے۔ غصے اور جوش میں آکر انسان اپنے معاملات کو مزید خراب کرکے اپنی زندگی خود مشکل میں ڈال لیتا ہے۔ ہماری گفتگو میں ایسی شیرینی اور طمانیت ہونی چاہئے جو انسان کے تلخ رویے اور سخت لہجے کو بدل سکیں۔ ہمیں اپنے عمل و کردار اور عمدہ برتاؤ سے ہر انسان کو محبت و رواداری کی جانب راغب کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔
خان نرگس سجاد (جلگاؤں، مہاراشٹر)
محبت اور خلوص پر یقین رکھتی ہوں


نفرت کو کبھی نفرت سے نہیں مٹایا جا سکتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ خلوص، حسن ِ اخلاق، نرم گفتاری، خوش اخلاقی اور اچھے سلوک سے کوئی بھی کسی کی نفرت کو دور کر سکتا ہے۔ اس لئے میں کسی کی نفرت کا جواب نفرت سے نہیں محبت سے دیتی ہوں۔ اگر کوئی ہم سے نفرت کرتا ہے تو جواب میں اس سے نفرت نہیں کرنی چاہئے بلکہ اس بات پر غور و فکر کرنی چاہئے کہ نفرت کی وجہ کیا ہے اور اسے کیسے دور کیا جا سکتا ہے۔ نفرت کرنے والے سے بھی محبت سے پیش آیا جائے کیونکہ محبت میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ دشمن کو بھی دوست بنا سکتی ہے۔ اس لئے میں محبت اور خلوص پر یقین رکھتی ہوں۔ زندگی بہت مختصر ہے۔ اور نفرت کا زہر زندگی کی مٹھاس کو مٹا دیتا ہے۔ ہمارا دل نفرت سے پاک ہونا چاہئے۔ ہمیں اپنے کردار و اخلاق سے محبت اور انسانیت کے پیغام کو عام کرنا چاہئے۔
نازش بیگم (اٹاوہ، یوپی)
محبّت: نفرت کو مٹا دیتی ہے


نفرت وہ بلا ہے جس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ کس کے دل میں کیا ہے؟ کس بات سے کسی کے دل میی نفرت ہے؟ یہ بھی سمجھنا مشکل ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مجھے یہی نہیں معلوم کہ کون مجھ سے نفرت کرتا ہے اور کون نہیں۔ کیونکہ میرے دل میں کبھی کسی کیلئے نفرت پیدا نہیں ہوئی۔ مَیں سبھی کو مشورہ دوں گی کہ وہ ہر انسان اگر خلوصِ دل سے سب سے ملے اور سبھی کیلئے دل میں محبت کا جذبہ رکھے اور محبت سے پیش آئے تو اگر کسی کے دل میں نفرت ہوگی بھی وہ محبت میی بدل جائے گی۔ محبت میں وہ طاقت ہے جو نفرت کو مٹا دیتی ہے۔
نشاط پروین (مونگیر، بہار)
رسول کریمؐ کی حیات طیبہ سے سبق لیں


نفرت کا سب سے آسان جواب تو اور زیادہ نفرت کا اظہار ہے۔ لیکن اگر ہم بھی وہی کریں جو اگلا کر رہا ہے تو ہمیں بھی اپنی سطح پر لا کر وہ کامیاب ہو جائیگا۔ میرے خیال میں اگر ہم اس نفرت کے رویے کو مثبت رخ دینےکا عزم رکھتے ہیں تو ہمیں رسول اللہﷺ کی حیات طیبہ کے چند اوراق پلٹ کر دیکھنے ہوں گے۔ جس میں ابو لہب کی بیوی جو اُمّ ِ جمیل کے نام سے جانی جاتی تھی۔ اس کی رسول خد ا کے تئیں شدید نفرت اور پھر اس نفرت کے جواب پر نگاہ ڈا لنی ہوگی۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہﷺ جس راستے سے گزرتے تھے وہیں اس کا گھر واقع تھا۔ وہ آپ سے اتنی نفرت کرتی تھی کہ جب بھی آپ اس راستے سے گزرتے وہ آپ کے اوپر کوڑا پھینک دیتی۔ ایک دن اس نے کوڑا نہیں پھینکا تو حضورﷺ کو تردد لاحق ہونے لگا کہ کیا بات ہے آج کوڑا نہیں پھینکا۔ لہٰذا وہ اس کی خیریت پوچھنے اس کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا: آج تم نے کوڑا نہیں ڈالا۔ سب خیریت تو ہے؟ قارئین ہمارے نبیؐ نے زندگی کے ہر شعبے میں جو بہترین رجحانات پیش کئے ہیں اگر ہم ان پر عمل کریں تو زندگی کتنی خوبصورت ہو جائے گی۔
ڈاکٹر صبیحہ ناہید (نئی دہلی)
نفرت کا جواب محبت ہی سے ممکن ہے


اینٹ کا جواب پتھر سے دینے میں یقین نہیں رکھتی ہوں، اس سے نفرت کی آگ بڑھ جاتی ہے اور معاملات سلجھنے کے بجائے بگڑ جاتے ہیں۔ جب مجھے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مجھ سے ناراض ہے یا نفرت پال لی ہے تو سامنے کے سارے گلے شکوے دور کرنے کی پوری کوشش کرتی ہوں۔ میرا مقصد ہوتا ہے کہ سامنے والے کا دل میرے لئے صاف ہو جائے۔ اگر سامنے والا بدگمانی کا شکار ہوتا ہے تو مَیں معافی مانگنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتی ہوں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے کو پسند کرتا ہے۔ اس لئے سامنے سے معافی مانگنے کے بعد مجھے اطمینان مل جاتا ہے۔ آخر میں مَیں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ نفرت کو مٹا کر محبت اختیار کریں، آپسی رشتے مضبوط ہو جائیں گے اور زندگی خوشگوار ہو جائے گی۔
صبیحہ خان (بی اے آر سی، ممبئی)
خندہ پیشانی ضروری ہے


سب سے خوبصورت تحفہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل و شعور کا دیا ہے۔ اسی سے میں نے سیکھا ہے کہ نفرت کا مقابلے نفرت سے نہیں بلکہ انکساری اور نرمی سے دوں۔ برسوں سے میں اسی نصیحت پر عمل پیرا ہوں کہ ہمیشہ نفرت کرنے والوں کے ساتھ انکساری اور نرمی سے پیش آؤں۔ ان کو احساس بھی نہیں ہونے دیتی ہوں کہ ان کے نفرت بھرے جملوں نے میری روح تک کو چھلنی کردیا ہے۔ اس کے باوجود میں ان سے اسی طرح خلوص، محبت اور ہمدردی کا رشتہ قائم رکھتی آئی ہوں۔ خندہ پیشانی سے پیش آنا اور ایسے لوگوں کو احسان جتائے بغیر کام آنا یہی نفرت کا بہترین جواب ہے۔
نصرت عبدالرحمٰن شیخ (بھیونڈی، تھانے)
مسکراہٹ کو اپنا شعار بنا لیں


ہم اپنے آپ کو بدل سکتے ہیں لیکن دُنیا کو نہیں۔ نفرت کے بدلے محبت کرنا سیکھیں۔ آپ جن سے نفرت کرتے ہیں ان کو نیچا دکھانے کے لئے ہم اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔ اگر کوئی آپ سے نفرت بھری باتیں کرتا ہے تو اس کی باتوں کا سب سے اچھا جواب آپ کی مسکراہٹ ہوسکتا ہے، ساتھ ہی کچھ کہنے کے بجائے خاموش رہیں۔ یہ طریقہ آپ کے کئی مسائل کو حل کرسکتا ہے۔ ہمیں خود بھی کسی سے نفرت نہیں کرنی چاہئے کیونکہ نفرت کی آگ میں آپ خود ہی جھلستے رہتے ہیں۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ کسی کے لئے اپنے دل میں نفرت نہ رکھیں۔ سب سے محبت سے پیش آئیں، اس کے بدلے میں آپ کو محبت ہی ملے گی۔
رخسانہ خان (غازی آباد، یوپی)
مسکرا کر جواب دیتی ہوں


مَیں نفرت کا جواب ہمیشہ محبت سے دینے کی قائل ہوں کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ نفرت کا جواب نفرت سے دینے سے دوریاں اور نا اتفاقیاں بڑھتی ہی جاتی ہیں اور دلوں میں محبت باقی نہیں رہتی۔ میں ہمیشہ مجھ سے نفرت کرنے والوں کو مسکرا کر ہی دیکھتی ہوں اور حسن سلوک سے پیش آتی ہوں، انہیں احساس دلانے کی کوشش کرتی ہوں کہ ان کی نفرت کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ 
ڈاکٹر روحینہ کوثر سید (ناگپور مہاراشٹر)
نفرت کی وجہ جان کر اُسے دور کرتی ہوں


نفرت بہت بری چیز ہے اگر ہم کریں تو بھی اور کوئی اور ہم سے کرے تو بھی۔ زندگی میں بعض دفعہ حالات ایسے آجاتے ہیں کہ ہم کسی کے عزیز بن جاتے ہیں تو کبھی ہم سے کسی کو نفرت ہو جاتی ہے۔ میں کوشش کرتی ہوں کہ میں کسی سے نفرت نہ کروں اور اگر مجھے پتہ چلے کہ کوئی مجھ سے نفرت کرتا ہے تو میں وجہ جاننے کی کوشش کرتی ہوں۔ اور اس سے بھی پہلے یہ دیکھتی ہوں کہ نفرت کرنے والا میرے لئے غیر ہے یا کوئی میرا اپنا ہے۔ اگر کوئی غیر ہو تو میرے لئے اس کی نفرت کوئی معنی نہیں رکھتی اور میں اسے درگزر کرکے محبت سے كام لیتی ہوں اور اس کی نفرت سے انجان بن کر محبت سے ملتی ہوں اور اگرنفرت کرنے والا کوئی اپنا ہو تو سب سے پہلے میں صبر سے کام لیتی ہوں اور جس بات کی بنیاد پر نفرت تک بات پہنچی ہے اسے سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ اگر واقعی غلطی میری ہے تو اسے سدھارنے کی کوشش کرتی ہوں اور معافی مانگ لیتی ہوں۔ غلط فہمی کی وجہ سے یہ نفرت پیدا ہو تو بھی معافی مانگ کر محبت سے ان کے دل میں جگہ بنانے کی کوشش کرتی ہوں۔
صبا پروین (گوونڈی، ممبئی)
نیک رویہ اپناتی ہوں


نفرت کی بنیادی وجہ ہوتی ہے غلط فہمی۔ دوسروں کی ترقی پر حسد، جلن اور احساس برتری کا اظہار کرنا اور دوسروں کی نظروں میں سامنے والے کو ذ لیل کرنا وغیرہ نفرت کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں۔ مَیں نفرت کرنے والوں کے ساتھ بحث و تکرار نہیں کرتی ہوں اور نہ ہی ترکی بہ ترکی جواب دینا پسند کرتی ہوں بلکہ کچھ دیر خاموش رہتی ہوں اور بہتر طریقے سے غلط فہمی کی وجوہات جان کر اپنے نیک عمل اور نیک رویے سے سامنے والے تک اپنا نظریہ پہنچاتی ہوں۔
شگفتہ راغب شیخ (نیرول، نوی ممبئی)
.....یوں اُس کی نفرت دور ہوگئی


نفرت کا جواب نفرت کبھی نہیں ہو سکتا۔ بلکہ نفرت کا جواب محبت بھری شفقت ہونی چاہئے۔ ساتھ میں حکمت و مصلحت شامل ہو تو نفرت کے خلاف سونے پر سہاگہ کے مترادف ہے۔ کالج کے زمانے میں میری ایک ہم جماعت، جو اتفاق سے ہاسٹل میں میری روم میٹ بھی تھی، صرف اس لئے مجھ سے حسد کرتی تھی کہ میرے نمبرات تقریباً تمام مضامین میں اس سے بہتر آتے تھے۔ پڑھائی کرتے وقت اکثر وہ کمرے کی بتی اچانک بند کر دیتی۔ ایک روز میں نے عظمیٰ (بدلا ہوا نام) سے کہا، ’’ تمہارے بی ٹیک (سیول) والے بھائی کی نوکری ابھی تک کہیں لگی کہ نہیں؟‘‘ اس پر بہت مایوس ہو کر اس نے نفی میں جواب دیا اور مزید کہا، ’’والد صاحب بھی اگلے سال ریٹائر ہونے والے ہیں، جس کی وجہ سے ہم لوگ کافی تناؤ میں رہتے ہیں۔‘‘ مَیں نے اس سے کہا، ’’پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ میرے ابو دبئی میں پروجیکٹ منیجر ہیں۔ مَیں ان سے بات کرتی ہوں۔ ‘‘ الحمد للہ! ابو کی کاوش سے دو مہینے بعد ہی اس کا بھائی برسر روزگار ہو کر دبئی پہنچ گیا۔ یوں عظمیٰ کو میں نے نفرت و حسد کے بدلے محبت و شفقت سے جیت لیا اور وہ آج تک میری معتمد خاص سہیلیوں کی فہرست میں شامل ہے۔ 
ڈاکٹر شیبا افتخار انصاری (سمرو باغ، بھیونڈی)
نفرت کا جواب حکمت عملی سے دیں


میرے جواب کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ نفرت کرنے والا شخص، سماج یا ادارہ کون سا ہے؟ اور اس کی نفرت کا پس منظر کیا ہے؟ وہ ہم سے کن وجوہات کی بنا پر نفرت کرتا ہے؟ یہ نفرت انفرادی بنیاد پر کسی ناخوشگوار واقعہ کی وجہ سے ہے یا پھر وہ کسی ایسی سیاسی تنظیم یا تنگ نظر شدت پسند سماجی تنظیم سے وابستہ ہے جس کی تربیت کی بنا پر وہ نفرت کرنا سیکھ گیا ہے۔ اگر نفرت غير دانستگی طور پر کسی غلط فہمی یا ناخوشگوار واقعہ کی بنا پر ہے تو براہ راست اچھی حکمت عملی کے ساتھ بات چیت کا راستہ نکال کر غلط فہمیوں کو دور کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات چیت اپنی طرف سے نہایت خوشگوار بے باک اور دوستانہ ماحول میں ہونی چاہئے اور اگر ہماری جانب سے کوئی کمی پائی جائے تو اس کا ازالہ کیا جانا چاہئے۔ اس طرح ہم نفرت کرنے والے کا اعتماد حاصل کرکے نفرت کو ختم کر سکتے ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا پر نفرت پھیلائی جا رہی ہے۔ اس کا مقابلہ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر نہایت اثرانداز طریقے سے بغیر نفرت کا سہارا لئے سچ کو شدت کے ساتھ ہر خاص و عام تک پہنچا کر کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے جوابات اور دلائل مضبوط ہی نہیں بلکہ نفرت سے پاک اور لوگوں کو قائل کرنے والے ہونے چاہئیں۔ جھوٹ کے پروں پر سوار نفرت زیادہ دیر ٹھہر نہیں سکتی اگر اس کا مقابلہ سچ، عدم تشدد اور ذہانت کے ساتھ منظم طریقے سے کیا جائے اور ہر خاصی و عام کے مذہبی اور سماجی احساسات کو ذہانت سے سلجھا جائے۔ نفرت کا جواب نفرت نہیں ہے۔ نفرت کو سچائی، دانشمندی اور حکمت عملی کی طاقت سے مسمار کرکے سماج کو اور لوگوں کے کردار کو خراب ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔
سلطانہ صدیقی (جامعہ نگر، نئی دہلی)
مسائل کو حل کر کے معاملات سلجھاتی ہوں
رشتے، کانچ کی طرح نازک ہوتے ہیں۔ ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتے ہیں لیکن ہمیں ہر ممکن اسے زندگی کی سرد و گرم ہواؤں سے بچا کر اور سنبھال کر رکھنا چاہئے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو دل میں جگہ نہ دیتے ہوئے، در گزر سے کام لینا چاہئے۔ اگر کوئی مجھ سے نفرت کر تا ہے تو میں اس کا جواب محبت سے دیتی ہوں، مسائل کو سلجھا کر حالات بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہوں کیونکہ خاتم النبینؐ کا فرمان ہے کہ، قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔ اس حدیث حسنہ کی روشنی میں ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے پڑوسیوں اور رشتےداروں کے تئیں نرم جذبات رکھیں اور اپنی دنیا و آخرت کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں۔
رحمانی کاشفہ ڈاکٹر عرفان احمد (مالیگاؤں، ناسک)
دل میں ہمیشہ معافی کا جذبہ رکھنا چاہئے
نفرت ایک بری شے ہے۔ اگر کوْئی شخص کسی سے نفرت کرتا ہے اور نفرت میں برے برے الفاظ استعمال کرتا ہے تو اس سے نفرت کے بجائے محبت سے جواب دینا چاہئے۔ ہمارے پیارے رسولؐ نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ اپنے کیا غیر، دوست کیا دشمن، سب کی نفرت کا جواب محبت سے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اتنا بڑا درجہ دیا۔ ہم کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنا چاہئے لیکن ہم میں اتنا صبر و استقامت کہاں ہے لیکن پھر بھی کوشش تو کرنی چاہئے۔ ہر کسی سے محبت اور خلوص سے پیش آنا چاہئے۔ پیارے نبیﷺ کے خلوص اور محبت سے کافر مسلمان ہوئے جنہوں نے ان کے ساتھ بدتمیزی کی اور گالیاں دیں ان کو بھی انہوں نے معاف کر دیا۔ دل میں ہمیشہ معافی کا جذبہ رکھنا چاہئے۔ غصہ آ ئے تو اسے پی جانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اپنے اندر نرمی اور محبت کا جذبہ پیدا کریں، زندگی بہتر گزرے گی۔
مومنہ خاتون (علی گڑھ، یوپی)
در گزر کا راستہ اپنایئے
نفرت کے جواب میں ہمارا ردّعمل بے ساختہ یہی ہوتا ہے کہ کھری کھوٹی ہم بھی سنائیں مگر ہم ایسا کرتے نہیں ہیں کیونکہ ہمارے والد صاحب سدا ہمیں صلہ رحمی کی تعلیم دیتے ہیں۔ وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ کوئی ہمارے ساتھ چاہے جتنا برا کرے مگر ہمیں اس سے نفرت سے پیش نہیں آنا چاہئے۔ ہم اپنے عمل کے جواب دہ ہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے۔ محبت کا جواب محبت سے دینا کمال نہیں کمال تو تب ہے جب نفرت کا جواب اس کے بر عکس دیا جائے۔ نفرت سے ہم انقلاب نہیں لا سکتے، محبت سے ہم مثال قائم کرسکتے ہیں اس لئے نفرت کا جواب ہم حسن اخلاق سے دیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم بہت حسن اخلاق سے پُر ہیں مگر اپنے رب کے حکم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض لوگ ہمیں اپنی فطرت سے نفرت پر مجبور کرتے ہیں مگر ہم انہیں اللہ تعالیٰ اور رسولؐ کی رضا کے لئے معاف کر دیتے ہیں۔ نفرت کے جواب میں ہم در گزر سے کام لیتے ہیں۔ شاید آخرت میں اللہ تعالیٰ ہماری نا فرمانیوں کو در گزر کر دے (آمین)۔
ایمن سمیر (اعظم گڑھ، یوپی)
نظرانداز کرتی ہوں
نفرت بھرا لہجہ ہو، لفظ ہو، نگاہ ہو یا انداز، اپنوں کا ہو یا غیروں کا بہر کیف ایک حساس انسان کے اعصاب پر اثر انداز ہوتا ہے اور شدت سے ہوتا ہے مگر ظاہر ہے ہم کسی کے دل میں نفرت کے بیج کو نکال کر نہیں پھینک سکتے، بالخصوص جب یہ تناور درخت کا روپ دھار لے۔ میرے پاس اس لاعلاج بیماری کا بس ایک واحد علاج ہے اور وہ ہے ’’بے نیازی بھرا رویہ‘‘۔ بھلا جو رب کی تقسیم پر اعتراض کرے خود میں نفرت اور حسد کو جگہ دے اسے کم ازکم مَیں سمجھانے کی استطاعت نہیں رکھتی۔ سو بس ایک رویہ اپناتی ہوں اور وہ ہے بے نیازی۔ ان کے اس رویے سے دل میں دور کہیں اگر چہ اذیت ہوتی ہے مگر مَیں یہی ظاہر کرتی ہوں کہ مجھے ان کے رویے کی کوئی پروا نہیں۔ اس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ مجھے سکون میسر ہوتا ہےاور نفرت کرنے والاشخص ایک حد کے بعد رک جانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے ان کی نفرت انگیز رویے کے جواب میں جب ہم نفرت کے بجائے نظر انداز کرنے والااور کسی خاطر میں نہ لانے والا ردّعمل اپنائیں تو ایک نہ ایک دن وہ ضرور اپنے تمام جذبات کو لپیٹ کر مایوس ہو جائے گا۔ رب العزت ہمیں ہمیشہ محبتیں نچھاور کرنے والا بنائے (آمین، ثم آمین)۔
عنبر برکاتی (بھیونڈی، تھانے)
صبر اور خاموشی کا مظاہرہ کرتی ہوں
اللہ رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے۔ سوچنے، سمجھنے اور تجزیہ کرنی کی صلاحیت عطا کی ہے۔ اچھے برے کی پہچان اوردوست دشمن کی پہچان کا شعور عطا کیا ہے۔ انسان اپنے رویے یا احساس کے اظہار و رد عمل کے لئے مختلف جذبوں کا استعمال کرتا ہے جو مثبت یا منفی ہوسکتے ہیں جیسے امید، یقین، خوشی، غم، غصہ، نفرت وغیرہ۔ پیدائشی طور پر ہم کسی سے بھی نفرت نہیں کرتے۔ بعض وقت متعلقہ انسان کا رویہ ہمیں مثبت یا منفی رد عمل کے اظہار پر اکساتا ہے۔ نفرت ناپسندیدگی کا آخری مرحلہ ہے۔ آس پاس تو سبھی محبت کرنے والےپر خلوص لوگ موجود ہیں اور جو چیز ہم بانٹیں گے وہی لوٹ کر آئے گی پھر چاہے وہ محبت ہو یا نفرت۔ کچھ ایسا موقع در پیش آ جائے تو نفرت یا غصہ کے اظہار میں میرا طرز عمل کچھ یوں ہو گاکہ میں کچھ وقت کے لئے نظر انداز کر کے صبر اور خاموشی کا مظاہرہ کرتی ہوں۔ انسان کا ذہنی سکون سب سے زیادہ اہم ہے۔ مثبت اور منفی پہلوؤں پر غور و فکر کر کے حالات کا تجزیہ کر تی ہوں۔ بعض اوقات غلط فہمی بھی رویوں میں تلخی پیدا کرتی ہے۔ ضروری ہے کہ وقت پر شکوک و شبہات کو دور کرکے رویوں میں محبت کی چاشنی ڈال دی جائے۔ 
سمیرہ گلنار محمد جیلانی (ناندیڑ، مہاراشٹر)

اگلے ہفتے کا عنوان: مائیں بچوں کے امتحانات میں اُن کی ذہنی صحت کا کیسے خیال رکھ سکتی ہیں؟ اظہار خیال کی خواہشمند خواتین اس موضوع پر دو پیراگراف پر مشتمل اپنی تحریر مع تصویر ارسال کریں۔ وہاٹس ایپ نمبر: 8850489134

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK