Inquilab Logo Happiest Places to Work

اوڑھنی اسپیشل: ایسی بات جو آپ نے سیکھی اور اس کا فائدہ ہوا

Updated: December 14, 2023, 2:52 PM IST | Saaima Shaikh | Mumbai

گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔

Photo: INN
زندگی ہمیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع دیتی ہے بشرطیکہ آپ سیکھنا چاہتے ہوں۔ تصویر: آئی این این

ایک مشورہ نے بہت کچھ سکھایا
ایک مرتبہ ہم لوگ کسی موقع سے اپنے آبائی گاؤں میں جمع تھے۔ وہاں پر مَیں نے ایک ایسی بات سیکھی جس نے میرے اعتماد میں اضافہ کیا۔ باتوں ہی باتوں میں وہاں میری پھوپھی زاد بہن نے مجھے بتایا تھا، ’’ہر کسی پر اپنا دکھ درد ظاہر مت کرنا۔ عزیز غمزدہ ہوں گے دشمن خوش۔‘‘ اس جملے میں بڑی تاثیر تھی جس کا اثر محسوس کرنے لگی اور اس کا فائدہ یہ ہوا کہ میرے اندر خود اعتمادی پیدا ہونے لگی۔ پہلے کے مقابلے حوصلہ میں پختگی آگئی۔ کسی حد تک مخلص اور حاسد کی پہچان ہوگئی۔ دراصل طبیعت حساس ہے جس کی وجہ سے اپنی پریشانی کا ذکر کسی سے کرتی ردعمل نہ ملتا تو اور پریشان ہو جاتی، کسی نے ذرا ہمدردی ظاہر کی اس پر بھروسہ کرنے لگتی۔ اب اللہ کا شکر ہے ایسے کسی موقع پر خود پر قابو رکھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ ساری بھلائی کی امید بس اسی ایک پاک ذات سے رکھتی ہوں۔ اپنے سارے دکھ درد اس کے حضور رکھ کر مطمئن ہو جاتی ہوں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ خودپسند اور اپنوں سے لاتعلق ہوگئی ہوں۔ اپنے محسن اور مخلص لوگوں کی دل سے قدر کرتی ہوں۔
بنت شبیر احمد (کملداھا، ارریہ، بہار)
موبائل فون کا ایک حد میں استعمال کرنا


کبھی کبھی زیادہ تھکن اور ٹینشن کی وجہ سے مجھے رات میں نیند نہیں آتی تھی جس کی وجہ سے مَیں نے موبائل فون پر پاکستانی ڈرامے دیکھنا شروع کیا۔ دھیرے دھیرے مجھے اس کی عادت ہوگئی اور میں راتوں کو جاگ جاگ کر پروگرام دیکھنے لگی۔ جب تک میں پروگرام دیکھ نہ لیتی مجھے چین نہیں آتا۔ میں پریشان رہنے لگی اور میری صحت پر بھی اس کا برا اثر پڑنے لگا۔ پھر میں نے ڈاکٹر اسرار احمد کا ایک بیان سنا اور ذہنی سکون کیلئےقرآنی آیات سننے کا معمول بنا لیا، خاص طور پر سورہ ضحی۔ اس طرح مجھے اچھا محسوس ہونے لگا۔ اسکے بعد میں نے موبائل فون کا استعمال کم کر دیا۔ اب مجھے اچھی اور پُر سکون نیند آتی ہے۔ مَیں نے ایک سبق سیکھا کہ ہمیں ہر چیز کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے کیونکہ جو چیز ہمارے لئے کارآمد ثابت ہوسکتی ہے وہی ہمیں بے حد زیاں بھی پہنچا سکتی ہے۔
نسیم شیخ (کرلا، ممبئی)
اپنے دکھ درد اللہ سے کہیں
ماضی کے حالات اور تجربات سے میں نے جو اہم بات سیکھی ہے وہ یہ ہے کہ اپنے دکھ اور پریشانیاں ہر کسی سے نہ بانٹیں کیونکہ لوگوں میں خلوص اور ہمدردی ناپید ہے۔ وہ خود غرضی اور منافقت کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں اور ہمدردی کے لبادے اوڑھ کر ہماری باتیں تو سنتے ہیں لیکن دکھوں اور پریشانیوں کا مداوا نہیں کرتے۔ اور ہم جیسے سادہ دل انسان جو مخلص رشتوں سے محروم ہیں دکھ بانٹ کر صرف اور صرف پچھتاوے کی آگ میں جلتے ہیں لہٰذا ایسے موقع پر میں صرف اور صرف اپنے دکھ خدائے واحد سے بانٹتی ہوں۔ دو رکعت نفل نماز پڑھ کر رب کے سامنے انکساری کے ساتھ بیان کرکے مدد مانگی ہوں اور بے پناہ سکون حاصل کرتی ہوں۔ علاوہ ازیں کسی بھی دشوار گزار مرحلے میں بھی صرف اور صرف استخارے کے ذریعے اپنے پیارے رب ہی سے مشورہ کرتی ہوں۔ الحمدللہ زندگی میں ٹھہراؤ سا آگیا ہے اور بے چینی، اداسی اور کرب کا خاتمہ ہوچکا ہے اور بیشتر معاملات میں کامرانیاں قدم بوسی کرتی ہیں، الحمدللہ!
مومن ناہید کوثر جاوید احمد (مالیگاؤں، ناسک)

سچ اور حق بات کہنا 


ہر بچے کے سب سے پہلے اور اہم استاد ہوتے ہیں اس کے والدین۔ جو بھی تربیت ہمیں ملتی اپنے والدین سے ملتی ہے۔ میرے والدین کے دل میں جو بات ہوتی تھی وہی زبان پر بھی ہوتی تھی۔ میں نے اپنے والدین سے سچ اور حق بات کہنا سیکھا۔ سچ بولنے کے کئی فائدے حاصل ہوئے ہیں، اول تو ہم گنہگار بننے سے بچ گئے۔ اس کے علاوہ ہمیں کسی کا ڈر نہیں رہا نہ ہی ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے کئی جھوٹ بولنے پڑے۔ سچ اور حق بات کہنے سے فضول کے لوگوں سے نجات ملی۔ بات منہ پر بولو تو کڑوی ضرور لگتی ہے لیکن پیٹھ پیچھے بولنے سے کہیں بہتر ہوتی ہے۔ بات جب مَیں نے منہ پر بولی تو نقلی چہروں کی اصلیت بھی سامنے آئی۔
ہما انصاری ( مولوی گنج، لکھنؤ)
انسانیت کا درس
جیسے زندگی کا ہر لمحہ ہمیں بہت کچھ سکھاتا ہے اسی طرح کورونا کے وقت نے ہمیں بہت کچھ سکھایا۔ اپنوں سے نہ چاہتے ہوئے بھی دور رہنا پڑا۔ قید میں رہ کر پتہ چلا کہ جانور کی تکلیف کیا ہوتی ہے۔ کہیں کسی عزیز کے لئے پورے محلے نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھایا تو وہیں کچھ نے اپنوں کی لاشوں کو بھی ٹھکرا دیا۔ اور تو اور کوئی کوسوں میل دور پیدل اپنے گھر کو آیا وہیں کچھ انسانوں نے انسانوں کو کھانا کھلایا۔ اس سے ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کیلئے محبت کوٹ کوٹ کر بھر گئی اور احترام بھی جھلکنے لگا۔ انسانیت تو یہی کہتی ہے کہ ہم سب مل جل کر رہیں۔
حافظہ سنجیدہ فاطمہ (اعظم گڑھ، یوپی)
کم سے کم توقعات وابستہ کرنا


ایک بات جو عملی زندگی میں بے پناہ سکون کا باعث بنتی ہے وہ یہ کہ کسی سے توقعات وابستہ نہ کرنا۔ زندگی میں اس زرین اصول پر عمل پیرا ہوکر بے شمار نعمتوں سے مستفید ہوا جا سکتاہے۔ جن میں سے ایک ہے اپنی خودداری کی بقا، لوگوں کی خود غرضی کا راز عیاں ہونا کہ کون اپنا ہے اور کون پرایا۔ اپنے بل بوتے پر ہم‌ جو کام کرسکتے وہی کریں گے اور کسی کے نہ کرنے سے کوئی افسوس نہیں ہوگا، بلکہ جو ہم‌ نے خود کیا اس سے ہم‌ کو قلبی سکون اور مسرت ملے گی اور اپنا آپ مکمل لگنے لگےگا۔ کسی سے وابستہ کی ہوئی امیدیں اور توقعات پر جب وہ کھرے نہیں اترتے تو خود کی بے توقیری محسوس ہوتی ہے اور عجیب سی جھنجھلاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں کہ آپ نے ہماری امیدوں کا قلعہ مسمار کردیا، آپ کو ایسا نہیں، ایسے کرنا تھا۔ اپنے کسی کئے گئے احسان کا بدلہ دنیا میں اس کے بندوں سے نہیں بلکہ لازوال ہستی رب العالمین سے مانگے، جو دے کر احسان نہیں جتاتا۔ ساری توقعات جب رب سے وابستہ کر لی جائیں تو یہ دنیا حقیر محسوس ہونے لگے گی۔ امن و سلامتی، چین و سکون والی زندگی کی خواہش ہے تو لوگوں سے توقعات نہ رکھیں۔ کسی کی مدد بے لوث ہو کر بطور فی سبیل اللہ کرنے کا مزہ الگ ہی ہوتا ہے جس سے بے پناہ مسرت حاصل ہوتی ہے۔ آجکل بعض اوقات اپنے اولاد کی پرورش بڑی محنت سے کرنے والے کئی والدین کو یہ طعنہ کچھ ناخلف بچے دیتے ہیں کہ آپ نے ہماری تربیت، تعلیم و تدریس پر خرچ کیا بدلے میں ہم سے یہ توقعات رکھیں کہ ہم‌ آپ کی عمر رسیدگی میں آپ کا خیال رکھیں۔ یہ سن کر والدین کا دل کرچی کرچی ہو جاتا ہے کہ ان کی بے پایاں محبت کو سودے کا نام دے دیا۔ اپنے فرض کو احسان سے ملانے لگے اور توقعات سے وابستہ کرنے لگے۔ جس قدر ہم لوگوں پر انحصار کرنا کم کرتے ہیں اس قدر ہماری خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے اور مزید کچھ کر گزرنے کی امنگ پیدا ہوتی ہے۔
رضوانہ رشید انصاری (امبرناتھ، تھانے)
یہ ۳؍ باتیں سیکھیں
زندگی ایک سیکھنے کا عمل ہے۔ جب تک آپ سیکھتے ہیں تب تک آپ آگے بڑھتے رہتے ہیں اس لئے ہمیشہ کچھ نہ کچھ ضرور سیکھنے کی کوشش کریں۔ مَیں نے اپنی زندگی میں ۳؍ باتیں سیکھیں اور اس کا مجھے بہت فائدہ حاصل ہوا۔
(۱) اللہ سے تعلق کو مضبوط کیا اور جب بھی اللہ سے تعلق مضبوط ہوتا ہے تو آپ زندگی میں کبھی بھی خود کو تنہا نہیں محسوس کریں گی، کوئی پریشانی بڑی نہیں لگے گی۔
(۲) دوسروں کی برائی اپنے اندر دیکھنا شروع کیا اور اچھائی دوسروں میں۔ یقین جانئے اس عمل سے بدگمانی دور ہوگئی۔
(۳) مختلف پوڈ کاسٹ سننا شروع کیا جس سے علم کے ساتھ ساتھ خود کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔
ہما عاصم (لکھنؤ، یوپی)
یوٹیوب پر ویڈیو اپلوڈنگ


بی ایڈ کرنے کے بعد سات سال پرائیویٹ اسکول میں ٹیچنگ کیا۔ کووڈ کی بیماری میں اسکول بند ہوئے تو سبھی لوگ گھروں میں قید ہوگئے۔ گھر میں رہتے ہوئے میں نے یوٹیوب پر کھانے کا اور پھر پڑھانے کا چینل شروع کیا۔ چینل شروع کرنا آسان نہیں تھا اس کے لئے مجھے ویڈیو ایڈیٹنگ، کمپیوٹر پر اور موبائل، دونوں پر سیکھنی پڑی۔ جس میں کیمرے سے ویڈیو شوٹ کرنا، ایڈٹ کرنا، اس میں آواز شامل کرنا اور شاٹ ویڈیو بنانا شامل وغیرہ ہیں۔ اس کے لئے سالانہ ادائیگی کرنا ہوتا ہے اُن ایپ کو جس ایپ سے میں ایڈیٹنگ کرتی ہوں۔ تھمبنیل بناتی ہوں۔ ان کاموں میں تین سے چار گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ ایجوکیشن چینل کے لئے بھی تین سے چار گھنٹے لگتے ہیں۔ اب میرے ویڈیوز انسٹاگرام، فیس بک، یوٹیوب، شاٹ ویڈیوز پر اپلوڈ کرتی رہتی ہوں۔ ایڈیٹنگ سیکھنے کا فائدہ یہ ہوا کہ ڈھائی سال میں مجھے میرے دونوں یوٹیوب چینلوں کے ذریعے آمدنی ہونے لگی۔ اللہ کے کرم سے میری محنت کامیابی میں بدل گئی، الحمدللہ!
شاہدہ وارثیہ (وسئی، پال گھر)
درگزر کرنا


معافی اور درگزر کرنے پر اللہ تعالیٰ بندے کی عزت بڑھاتا ہے۔ اللہ کی خاطر عاجزی کرنا تو اللہ اس کا درجہ بلند کر دیتا ہے۔ یہ باتیں اپنے بڑوں سے سنتے تھے۔ لیکن کوئی خاص اس پر عمل نہیں کیا۔ ایسا لگتا تھا یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی ہمارے حق میں برا سوچے اور برا کرے تو ہم اسے کیسے معاف یا درگزر کرسکتے ہیں؟ کچھ تو ہمارا ردعمل ہونا چاہئے۔ لیکن جب عملی زندگی شروع ہوئی تو کئی دفعہ کچھ ایسی باتیں ہوجاتی تھیں کہ دل کہتا تھا اس بندے کو معاف نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی درگزر کرنا چاہئے۔ لیکن جب بھی ایسا معاملہ ہوا بس اپنے بڑوں کی کہی یہ بات یاد آتے ہی ان کی کہی ہوئی بات پر عمل کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس سے معاملہ ہوا وہ میرے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے اس کا تو علم نہیں مگر بڑوں کی کہی باتوں پر عمل کرکے مجھے ذہنی سکون ملا۔
ثمینہ علی رضا خان (کوسہ، ممبرا)
انگریزی سیکھی


انسان کی زندگی میں سیکھنے کا عمل تاحیات جاری رہتا ہے۔ انسان زندگی کے ہر موڑ پر اور ہر مقام پر کچھ نہ کچھ سیکھتا ہے اور اس سے فیضیاب بھی ہوتاہے۔ مَیں نے اپنی زندگی میں جو چیز سیکھی اور اس کا مجھے فائدہ حاصل ہوا وہ ہے انگریزی زبان۔ جی ہاں مَیں نے انگریزی زبان سیکھی البتہ کوئی کورس نہیں کیا ہے بلکہ مَیں نے ملازمت کے دوران اس میں مہارت حاصل کی ہے۔ دراصل مَیں انگلش اسپیکنگ انسٹی ٹیوٹ میں کام کرتی تھی۔ میری ذمہ داری یہ تھی کہ لوگوں کو انگلش اسپیکنگ کورس سے متعلق معلومات فراہم کروںاور وہ معلومات مَیں مادری زبان میں دیتی تھی۔ کام کے دوران میرے پاس کافی وقت ہوتا تھا۔ اس دوران انسٹی ٹیوٹ کے ذمہ داران نے مجھے مشورہ دیا کہ خالی وقت کو ضائع کرنے کے بجائے انگلش سیکھنے کی کوشش کرو۔
 ابتدا میں مجھے یہ مشورہ بالکل پسند نہیں آیا لیکن دھیرے دھیرے میں انگلش سیکھنے کی کوشش کرنے لگی۔ تقریباً چھ ماہ میں مَیں نے اس زبان میں مہارت حاصل کرلی۔ فی الحال ایک اسکول میں انگلش ٹیچر کے فرائض انجام دے رہی ہوں، الحمدللہ!
قریشی عربینہ محمد اسلام (بھیونڈی، تھانے)

سہیلی نے حالات کا سامنا کرنا سکھایا
ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے میری زندگی میں کچھ پریشانیاں آگئی تھیں اور مَیں بہت غمزدہ رہنے لگی تھی۔ اسکول میں بھی میرا من بالکل نہیں لگتا تھا اور ہر چیز سے دلچسپی جیسے ختم ہوگئی تھی۔ اس کا علم جب میرے ایک سہیلی کو ہوا تو اس نے مجھے مؤثر انداز میں سمجھایا کہ زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں اس لئے حالات جیسے بھی ہوں انہیں قبول کرکے جینا سیکھو۔ کس کی زندگی بہت خوشگوار ہے؟ سب کی زندگی میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور ہے۔ غرض کہ وہ یہ بات ہر روز کسی نہ کسی طریقے سے مجھ سے کہتی اور اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر مجھے فون کرکے سمجھاتی۔ بہرحال اس کی باتوں سے مجھے بہت حوصلہ ملا اور مَیں نے خود کو بدلنے کی کوشش کی اور خود پر توجہ بھی دینے لگی اور مَیں نے اپنی سہیلی سے سیکھا کہ کسی غم کو خود پر سوار نہیں کرنا چاہئے اور اس میں مَیں آج بہت حد تک کامیاب بھی ہوں۔
آیت چودھری (موتی گنج، یوپی)
میری رائٹنگ بہتر ہوئی


انسان کو اپنے وقت کا صحیح استعمال کرنا چاہئے۔ مَیں ساتویں جماعت میں زیر تعلیم ہوں اور میری رائٹنگ گزشتہ چند دن پہلے انتہائی خراب تھی تو مَیں دیوالی کی تعطیلات میں موبائل فون پر یوٹیوب چینل سے رائٹنگ بہتر بنانا سیکھی اور ماشاء اللہ اب میری رائٹنگ پہلے سے کافی بہتر ہے اور مجھے اس کا یہ فائدہ ہوا کہ مجھے انعامات ملنے لگے ہیں۔ مَیں آپ لوگوں سے یہ کہنا چاہوں گی کہ ہمیں میسر وقت کا فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ڈجیٹل ٹیکنالوجی کا صحیح استعمال کرتے ہوئے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔ مختلف کورسیز کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً رائٹنگ، پینٹنگ، ٹائپنگ، کرافٹنگ، کوکنگ، ڈرائنگ، انگلش اسپیکنگ، مہندی کورس، فیشن ڈیزائننگ وغیرہ۔ اس طرح ہم کئی کورسیز کرسکتے ہیں اور اپنی شخصیت کو نکھار سکتے ہیں۔ انسان کتابوں کا مطالعہ کرکے بھی بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ دیکھا جائے تو سیکھنے کے کئی مواقع ہیںا ور ان کے فوائد اتنے ہیں کہ یہاں لکھنا مشکل ہے۔
انصاری شفاء عابد علی (نائیگاؤں، بھیونڈی)
خاموشی میں نجات ہے
حدیث کے اندر تین دن سے زائد ترک کلام کرنے والے کی نماز کو غیر مقبول بتایا گیا ہے۔ یہ تو بندے کی اعمال کے قبولیت اور نہ قبول ہونے کی بات ہے، جن کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے۔ لیکن میں نے سیکھا ہے کہ آپسی اختلافات اپنی جگہ، بحث و مباحثہ اپنی جگہ، بات معمولی ہو یا بڑی، اگر کسی سے ہم کلام ہونا چھوڑ دیا جائے تو رنجشیں کدورتیں بڑھتی ہیں، بدگمانیاں بھی جنم لیتی ہیں اور حدیث میں بدگمانی کو سب سے جھوٹی بات کہا گیا ہے۔ مزید یہ کہ حاسدین یا جو صلح کروانا نہیں چاہتے ہیں اور تماشائی بنے رہتے ہیں ان کو اختلافات بڑھانے اور فریقین کے درمیان دوریوں کا فاصلہ طویل تر کرنے اور اپنے مفاد کو حاصل کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ صرف ہم کلامی ترک کرنے سے کئی سارے نقصانات ہوسکتے ہیں۔ میری کسی سے کتنی بھی لڑائی ہو، میں نے یہ بات سیکھی ہے کہ بات کرنا نہیں چھوڑنا ہے، بھلے وقتی طور پر خاموشی اختیار کرلو اور خاموشی میں نجات بھی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ وقتی غصہ آنا فطری امر ہے لیکن میرے دل میں بفضل اللہ کسی کے لئے کینہ اور حسد نہیں ہے۔ 
بنت رفیق (جوکھن پور، بریلی)

غصے کی حالت میں خود پر قابو پانا


انسان یوں تو ساری عمر ہی طالب علم ہوتا ہے اور سیکھنے کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔ لیکن غصے کی حالت میں خاموشی اختیار کرنا ایسا عمل ثابت ہوا میرے لئے جس نے مجھے کئی دفعہ پریشانیوں سے بچایا۔ غصے کی حالت میں انسان کا ذہن قابو میں نہیں ہوتا اور نہ ہی زبان ساتھ دیتی ہے۔ آپ کئی دفعہ ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جن کا احساس غصہ ختم ہونے کے بعد ہوتا ہے لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ رشتوں میں دراڑ پڑنے کی ایک بہت بڑی وجہ بھی یہ ہے۔ لیکن خاموشی اختیار کرنے کی کوشش نے مجھے کئی جگہوں پر رسوا ہونے سے بچا لیا۔ یہ بھی ہوا کہ جس وقت غصہ آیا اس وقت کے مکمل حالات کا علم نہیں تھا، وہ بعد میں معلوم ہوئے لیکن غصے میں کچھ نہ کہنے سے شرمندگی سے بچ گئی۔ تو یہ ایک ایسی بات ہے جو میں نے سیکھی اور اس سے استفادہ حاصل ہوا۔
شیخ رابعہ تبریز عالم (ممبئی)
اللہ اور خود پر بھروسہ کرنا
زندگی ہمیں روزانہ ایک نیا سبق دیتی ہے۔ اب یہ ہماری ذات پر منحصر ہے کہ ہم اس تجربے سے کیا سیکھتے ہیں۔ میں نے بھی اپنی زندگی میں سیکھا ہے کہ ہمیں ہر چھوٹے بڑے کاموں میں صرف اللہ تعالیٰ پر اور اپنی ذات پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ دوسروں پر حد سے زیادہ بھروسہ یا امیدیں ہماری کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ اس لئے میں اپنے امتحانات میں بجائے دوسروں پر منحصر ہونے کے خود سے مکمل نصاب پڑھ کر جاتی ہوں جس کا مجھے ہمیشہ فائدہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دن بھر میں کچھ لمحات اپنے بزرگوں (دادی دادی، نانا نانی وغیرہ) کے ساتھ گزارنا چاہئے کیونکہ ان کے پاس بیٹھ کر زندگی جینے کا فلسفہ سیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے تجربات ہماری مشکل زندگی کو آسان بنا سکتے ہیں۔ اس سے ان کی تنہائی دور ہو جاتی ہے اور ان کے پاس بیٹھنے سے انہیں اپنی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ سیکھنے کا یہ عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔
شیخ صافیہ ریاض احمد ( بھیونڈی، تھانے)
کتابوں کا مطالعہ کرنا
کتابیں انسان کی سب سے اچھی دوست اور رہنما ہوتی ہیں لیکن یہ بات سمجھنے میں مجھے کافی وقت لگا اور مجھے یہ بات سمجھائی میرے والد صاحب نے۔ مَیں اللہ تعالیٰ کی شکر گزار ہوں کہ اللہ نے مجھے بہترین والدین سے نوازا۔ میرے والدین نے میری دینی، دنیاوی، اخلاقی ہر اعتبار سے اچھی تربیت کی۔ اور اس میں میرے والد صاحب کی طرف سے ہدیہ کے طور پر ملی ہوئی کتابوں کا ذخیرہ بھی میرے لئے بہت بڑی نعمت ہے۔ میرے والد صاحب وقتاً فوقتاً ہمارے گھر میں موجود ہر افراد کے مطابق ہمیں ہدیہ کے طور پر کتابیں دیتے رہتے ہیں لیکن میں ان کتابوں کو پڑھتی نہیں تھی۔ لیکن ابو جان کتاب پڑھنے پر اصرار کرتے رہتے ہیں اور مزید کتابیں لاتے رہتے ہیں۔ پھر جب میں نے ابو جان کے اصرار پر کتابوں کو پڑھنا شروع کیا تو مجھے ان کو پڑھنے کا لطف آنے لگا اور اس سے میرا ذہن بھی روشن ہونے لگا۔ اب میں ابو جان کی لائی ہوئی ہر کتاب چاہے پورا نہ سہی لیکن تھوڑا تھوڑا ضرور پڑھتی ہوں۔ اور انقلاب پڑھنے کی عادت بھی انہوں نے ہی ہمیں ڈالی۔ انقلاب کے ہر مضمون کو پڑھنے کی تاکید کرتے ہیں اور جو مضمون ہم میں سے جس کے اعتبار سے خاص ہوتا ہے اسے الگ سے فوٹو کاپی کروا کر دیتے ہیں۔ اور مجھے اس مطالعے کے بے شمار فائدے حاصل ہوئے ہیں۔ مطالعہ کرکے میری معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ میری اخلاقی اعتبار سے بھی اصلاح ہوتی رہتی ہے اور مجھے ہر قسم کی کتاب پڑھنے کا شوق پیدا ہوتا ہے، دینی بھی دنیاوی بھی۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کتابیں ہر قدم پر میری رہنمائی کا ذریعہ بنیں گی، ان شاء اللہ۔ میں اپنے والد صاحب کی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میرے اندر مطالعہ کا بھر پور شوق پیدا کیا جس کا مجھے عمر بھر استفادہ ہوتا رہے گا۔ اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مجھ میں مطالعے شوق دن بہ دن پروان چڑھتا جائے (آمین)۔
شازیہ رحمٰن (غازی آباد، یوپی)
منظم منصوبہ بندی کا ہنر


انسان ساری زندگی سیکھنے کے عمل سے گزرتا ہے۔ مسلسل سیکھتے رہنا ہماری نجی اور پیشہ ورانہ ترقی میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ مجھے جہاں اور جب بھی کسی سے کچھ سیکھنے کا موقع ملا میں نے سیکھا۔ ان دو برسوں میں میں نے اپنے استاد (پی ایچ ڈی ریسرچ گائیڈ) ڈاکٹر ساجد علی قادری سر سے کچھ بہترین باتیں سیکھی ہیں۔ جن میں بہت اہم بات کام کرنے کا جذبہ اور منظم منصوبہ بندی کے ساتھ اپنے کام کو انجام دینا ہے۔ میں جاب کرتی ہوں،گھر کی ذمہ داریاں ہیں،پی ایچ ڈی مقالہ لکھنے کیلئے بہت سارا وقت درکار ہوتا ہے۔ ان تمام سرگرمیوں کو انجام دینے کے بعد اپنے دیگر مشاغل کیلئے وقت نکال پانا اور ہمت جٹا پانا مجھے بہت مشکل لگتا تھا۔ لیکن منظم منصوبہ بندی اور اپنی ورکنگ اسپرٹ کو برقرار رکھتے ہوئے میں نے جو کام انجام دیئے وہ اس طرح ہیں: اپنی تحریری اور تخلیقی صلاحیت کو بروئے کار لانا۔ اپنے سیکھنے کے عمل کو جاری رکھتے ہوئے مختلف شہروں کا دورہ کرنا۔ اپنا ریسرچ کا کام مکمل کرنا۔ سیمینار اٹینڈ کرنا۔ ریسرچ پیپر لکھنا پڑھنا۔ مشاہیران ادب سے ملاقاتیں کرنا۔ غرضیکہ میں نے اپنی علمی و ادبی دلچسپی کے میدان میں بہت سے کام کئے ہیں۔ اس کا مجھے اکیڈمک تو فائدہ ہوا ہی ہے ساتھ ہی خوداعتمادی میں اضافہ ہوا ہے۔ تخلیقی اور تحریری صلاحیت میں نکھار آیا ہے اور سب سے بڑی حصولیابی یہ ہے کہ مجھے اطمینان قلب حاصل ہوا ہے کہ میں نے اپنی منزل کے طرف قدم بڑھا دیئے ہیں اور ان شاء اللہ بہت جلد اپنے ہدف کو حاصل کر لوں گی: ہر دم مجھے تلاش نئے آسماں کی ہے!
نکہت انجم ناظم الدین (جلگاؤں، مہاراشٹر)
کئی ساری چیزیں سیکھیں


کہتے ہیں وقت اور زندگی سب سے بڑا استاد ہے۔ زندگی لمحہ بہ لمحہ ایک نئے انداز میں اور نئے چیلنجز کے ساتھ کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع دیتی ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں کئی چیزیں سیکھیں اور اپنی شخصیت کو مزید متاثر کن بنانے کی کوشش کی ہے: (۱) درگزر کرنا یا معاف کرنا: اس عمل سے بہت بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ دل پر سکون رہتا ہے۔ کسی بھی قسم کی الجھن اور پریشانی سے کم و بیش دور ہی رہتے ہیں۔ یہ کام مشکل ہوتا ہے مگر اس عمل کے بعد ہم خود کو بے حد ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہیں۔ (۲) انکساری اور ہمدردی: جذبات میں انکساری اور نرمی کی جھلک ہو تو دل میں کسی بھی ذی روح کیلئے نرمی پیدا ہوتی ہے۔ دل میں محبت کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ (۳) غصے پر قابو پانا: اکثر چیزیں ہمارے مطابق نہیں ہو پاتیں اور انسانی رد عمل ہوتا ہے کہ ہم آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ میرے مطابق کئی بار غصے پر قابو پانے سے میں زبان کی تلخی سے بچ گئی۔ میری کوشش رہتی ہے کہ کسی کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے۔ غصے اور جنون میں کئے گئے فیصلے غلط ثابت ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات مَیں غلط فیصلے کرنے سے بچ جاتی ہوں۔ غصہ میں اپنی توانائی کو ضائع کرنے کے بر عکس اس توانائی کا بہتر طور پر استعمال کرنے کے بے حد فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ (۴) سمجھوتہ کرنا: حالت کے ساتھ سمجھوتہ کر لینےسے اکثر و بیشتر غیر ضروری باتوں سے اور جھگڑوں سے بچا جا سکتا ہے۔ (۵) صبر اور شکر کرنا: کامیاب زندگی کا باکمال ہنر ہے۔ صبر اور شکر کرنے سے میں نے محسوس کیا ہے اللہ راضی ہوتا ہے۔ بگڑے کام بن جاتے ہیں۔ خدا کے ساتھ رشتہ مضبوط ہوتا ہے اور اس پر توکل پائیدار ہوتا جاتا ہے۔
مومن رضوانہ محمد شاہد (ممبرا، تھانے)
وقت کی پابندی کرنا
سیکھنا وہ عمل ہے جو تاحیات جاری رہتا ہے۔ ہر گھڑی، ہر پل، ہر لمحہ ہم کچھ نہ کچھ سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ سیکھنے کے عمل کے بغیر زندگی کا وجود ہی نہیں۔ سیکھنے سے مراد عموماً ’’ برتاؤ میں تبدیلی‘‘ سمجھا جاتا ہے جس کا مظاہرہ ہم سیکھے گئےطریقوں پر عمل کر کے کرتے ہیں۔ سیکھنا دراصل علم، برتاؤ، مہارت، اقدار، ترجیحات اور فہم کے حصول کا نام ہے۔ سیکھنے سے مراد معلومات کی روشنی میں کوئی نتیجہ اخذ کرنا بھی ہو سکتا ہے۔ میرے سیکھنے کا سفر جاری ہے اس لئے کسی ایک بات کو یہاں پیش کرنا مشکل ہے۔ ہاں! ایک بات ہے جو کہی جا سکتی ہے۔ وہ ہے وقت کی پابندی۔ میری امی بچپن میں مجھ سے کہتی تھیں، ’’بیٹا! وقت پر کام کیا کرو، وقت کسی کے لئے نہیں رکتا۔‘‘ اس وقت اتنی سمجھ تو نہیں تھی۔ لیکن امی کا یہ جملہ بار بار سننے ملتا اور تب ہی سے مجھ میں وقت کی پابندی پر عمل کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی۔ وقت پر نماز کی ادائیگی، قرآن کی تلاوت، وقت پر اسکول کے لئے تیاری، وقت پر گھر کام، غرضیکہ بچپن سے اس کے ان گنت فوائد مجھے حاصل ہوئے ہیں۔ کالج ٹائم میں میری روم میٹس مجھے الارم کہہ کر بلاتی تھیں۔ الحمد للہ آج بھی یہ عادت برقرار ہے۔ اب بھی مجھے کئی فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔ میرے ساتھ ساتھ میرے بچے وقت کی قدر کرتے ہیں۔ گھر کے کام کاج سے لے کر کالج کے کاموں میں بھی اعتدال کے ساتھ ساتھ کامیابی ملتی ہے۔ بہت سے لوگوں سے جب سنتی ہوں کہ ’’وقت نہیں ملتا....‘‘ تو بے حد افسوس ہوتا ہے۔ جب تک ہم وقت کی پابندی کرنا نہیں سیکھیں گے تب تک ہر دوسرے فرد سے یہی جملہ سننے کو ملے گا۔ آج میں یہی کہہ سکتی ہوں کہ یہی وہ وقت ہے جو ہمیں آسمان کی بلندیوں پر پہنچاتا ہے تو زمین کے اندھیروں میں بھی غرق کر دیتا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ وقت کی پابندی کی عادت کو اپنائیں، ان شاء اللہ دونوں جہان کی سرخروئی مقدر بن جائے گی۔
فردوس انجم ( بلڈانہ مہاراشٹر)
خاموش رہنے میں عافیت


خاموشی سے مَیں نے بہت کچھ سیکھا ہے اور خود میں رونما ہونے والی تبدیلیاں بھی محسوس کی ہیں۔ خاموشی سے حیرت انگیز فوائدحاصل ہوتے ہیں۔ یہ ایک نعمت ہے اور خود کو خود سے آشنا کرواتی ہے۔ (۱)خاموش رہنے سے سب سے پہلے زبان کے گناہ سے ہم محفوظ ہو جاتے ہیں۔ (۲)چغلی اور غیبت جیسی برائیوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ (۳) خاموش رہنے سے ہم ہمارے اِرد گرد کے ماحول کا بآسانی اور بغور جائزہ لے سکتے ہیں۔ ماحول کا بآسانی مشاہدہ اور معا ئنہ کرسکتے ہیں۔ (۴) خاموش رہنے سے نئی نئی تجاویز و ترکیبیں ذہن میں آنا شروع ہو جاتی ہیں جن کے بارے میں کسی کو بتائے بغیر عمل کیا جاسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ان ترکیبوں پر عمل کرنے سے ہمیں کامیابی یا ناکامی مل سکتی ہے لیکن اس بارے میں دوسروں کو معلوم نہیں ہوپاتا اور یوں ہم بے عزت ہونے سے بھی بچ جاتے ہیں۔ (۵) غلطیوں سے بچنے کا موقع ملتا ہے، ذہن مزید ذہین ہونا شروع ہوتا ہے، غیر ضروری سوچ و فکر سے ذہن محفوظ ہتا ہے جس کا فائدہ یہ ہوا کہ مزاج میں مثبت پہلو شامل ہوگیا۔ خاموشی کے لا تعداد فوائد ہیں، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ مجھے دنیا کو مزید قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ گزشتہ زمانے کے بارے میں غور و فکر کرنے پرکچھ ایسے خیالات ذہن میں آئے جنہیں کبھی قلمبند نہیں کیا۔
آفرین شیخ (شولاپور، مہاراشٹر)
اللہ پر توکل کرنا


ہر انسان اپنی زندگی میں کچھ نہ کچھ ضرور سیکھتا ہے۔ میں نے بھی اپنی زندگی میں بہت کچھ سیکھا ہے جس سے میں برابر استفادہ کر رہی ہوں۔ مَیں نے قرآن کریم کے مطالعے سے اللہ پر توکل کرنا سیکھا۔ وہ توکل جیسا کہ اس پر توکل کرنےکا حق ہے تو اس کے بہت سارے فائدے مجھے حاصل ہوئے اور یہ سلسلہ اج بھی جاری ہے۔ توکل کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس سے قلبی سکون ملتا ہے اور قلبی سکون اللہ کی بڑی نعمتوں میں شامل ہے۔ دنیا کے تمام فائدے ایک طرف اور قلبی سکون سے ہونے والا فائدہ ایک طرف۔ قلبی سکون سے انسان کو حوصلہ و ہمت کے ساتھ ساتھ شکر گزاری اور قناعت پسندی کاجذبہ ملتا ہے اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ میرے ساتھ جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو میں پورے بھروسے اور اعتماد کے ساتھ اس باری تعالیٰ کے سامنے رکھتی ہوں تو میرے تمام مسائل حل ہو جاتے ہیں۔
ترنم صابری (سنبھل، یوپی)
بڑوں کی کارآمد باتیں سیکھیں
جب ہم کوئی بات سیکھتے ہیں تو یقیناً اس سے فائدے ہی ہوتے ہیں اور ان پر عمل کرنا فائدے سے خالی نہیں۔ میری جب شادی ہوئی میں بہت کم عمر تھی اور مجھے کچھ آتا نہیں تھا۔ جب میری پہلی بچی ہوئی تو میری ساس نے بہت سی باتیں مجھے سمجھائیں۔ پہلی بات یہ کہ بچے کو زیادہ گود کی عادت نہیں ڈالنی چاہئے۔ بچے کا پیٹ بھرنے کے بعد اسے لٹا دینا چاہئے۔ اللہ کے فضل سے بچی کو لیٹ کے کھیلنے کی عادت ہوگئی۔ میں تنہا رہتی تھی۔ مجھے کافی فائدہ پہنچا۔ دوسری بات یہ کہ جب بچہ کو ٹھنڈ لگ جائے تو انہوں نے کہا کہ اجوائن، پان، بادام کا سفوف بنالیں اور مکو کے رس میں ملا کر چھوٹی چھوٹی گولیاں بنا لیں اور چھوٹے بچوں کو صبح شام ایک ایک گولی دینے سے اللہ کے فضل و کرم سے ٹھنڈ کا اثر کبھی نہیں ہوا اور میرے بچے صحت مند رہے۔ ان کی بہت سی باتیں میرے ذہن میں آج تک محفوظ ہیں اور انہی چیزوں کو میں اپنے پوتی، پوتا، نواسی، نواسہ پر دیتی آ رہی ہوں۔ اللہ کے فضل سے میرے بچوں کو آج انگریزی دوا سے زیادہ دیسی دوائیاں فائدہ دیتی ہیں اور آس پاس کی خواتین بھی اس سے مستفیض ہوتی ہیں۔ میری والدہ اور نانی صاحبہ نے مجھے بہت اچھی تربیت دی اور میں ان پر ہمیشہ عمل کرتی آ رہی ہوں۔ میں نے اپنی بچیوں اور بہوؤں کو بھی یہی ترغیب دے رہی ہوں۔ بڑوں کی باتیں ماننے میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔
نجمہ طلعت (جمال پور، علی گڑھ)
گاڑی چلانا
مجھے ہمیشہ کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے کا بے حد شوق ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں بہت ساری چیزیں سیکھیں۔ مَیں نے کچھ سال پہلے سائیکل چلانا سیکھا۔ ابتدا میں بہت دقت ہوئی لیکن مَیں بہت جلد سیکھ گئی۔ سائیکل چلانے کے بعد مجھے بائیک چلانا بھی آگیا۔ بائیک سیکھنے سے مجھے کافی سہولت ہوگئی۔ اب میرے کئی کام آسانی سے ہوجاتے ہیں۔ اب مَیں چار پہیہ گاڑی چلانا چاہتی ہوں۔
بنت احمد (ممبئی)
والد صاحب کی حلال رزق کی تلقین


بچپن کی سنی ہوئی اور سیکھی ہوئی باتیں دل پہ نقش ہوجاتی ہیں۔ ابّا کی سکھائی ہوئی ایسی بہت سی باتیں ہیں جو تب سمجھ میں نہیں آتی تھیں مگر یاد رہ گئی ہیں۔ ایک بات ابّا تقریباً روزانہ امی اور ہم پانچوں بہنوں سے کہا کرتے تھے کہ اللہ سے ہمیشہ رزقِ حلال مانگنا۔ تھوڑا کھانا مگر حلال کھانا۔ ابّا ساری زندگی اس بات پر سختی سے عمل کرتے رہے۔ جب شادی ہوئی تو مَیں نے اپنے شوہر کو بھی اسی پر عمل کرتے دیکھا وہ بھی مجھے ہمیشہ ہی کہا کرتے تھے کہ دعا کرنا اللہ حلال رزق عطا کرے۔ اپنے بچوں کو دیکھ کر وہ کہا کرتے تھے کہ مَیں ہمیشہ کرتا ہوں کہ میرے بچوں کے پیٹ میں حرام کا ایک لقمہ بھی نہ جائے۔ مَیں تب ان سے کہتی تھی کہ جب ہماری تربیت غلط نہیں تو ڈر کس بات کا؟ مگر وہ کہتے تھے کہ دونوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے مگر اچھی تربیت دینے کے باوجود اگر ہم اپنے بچوں کو حرام کھلائیں تو آگے کی زندگی میں وہ کیا کریں گے اس کی کوئی ضمانت نہیں ہوگی کچھ بھی غلط کرسکتے ہیں۔ غلط راستے پر جاسکتے ہیں لیکن اگر ان کی پرورش حلال رزق سے ہوگی تو وہ کبھی بھی غلط راستے پر نہیں جائیں گے۔ آج نہ میرے ابّا ہیں نہ میرے شوہر مگر ان کی باتیں ہمیشہ یاد رہیں گی۔ مَیں اُن باتوں پر عمل بھی کرتی ہوں۔ الحمدللہ میرے بچے بھی اپنے ابّا کی سکھائی ہوئی ہر بات پر عمل کر رہے ہیں۔
یاسمین محمد اقبال (میرا روڈ، تھانے)

اگلے ہفتے کا عنوان: گھر کا نظم چلانے کے اصول۔ (اظہار خیال کی خواہشمند خواتین اس موضوع پر دو پیراگراف پر مشتمل اپنی تحریر مع تصویر ارسال کریں۔ وہاٹس ایپ نمبر: 8850489134)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK