• Wed, 03 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

زمانہ بدلا، سوچ بدلی اور بیٹیوں نے آسمان اپنے نام کر لیا

Updated: December 03, 2025, 4:36 PM IST | Sheikh Farzana Muhammad Shahid | Mumbai

موجودہ دور میں خواتین نے ہر شعبے میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ کمزور نہیں ہیں۔ حال ہی میں کرکٹ ورلڈ کپ میں ہندوستان کی خاتون ٹیم کی جیت نے ملک کے ہر شہری کا سر فخر سے اونچا کر دیا ہے۔ مگر اب بھی سماج میں بہتری کی ضرورت ہے اور اس مضمون میں اِس جانب توجہ دلائی ہے۔

Today, daughters are getting higher education and holding high positions in government and private companies, but their numbers are small. Picture: INN
آج بیٹیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے سرکاری و نجی کمپنیوں میں اونچے عہدے پر فائز ہو رہی ہیں مگر ان کی تعداد کم ہے۔ تصویر:آئی این این
اللہ رب العالمین کی سلطنت زمین اور آسمان ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں عطا فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹوں سے نوازتا ہے۔ بیٹیاں اللہ کی رحمت ہوتی ہیں اور بیٹے نعمت۔ یہ قدرت کی بہترین تخلیق ہیں اور لازم و ملزوم ہیں۔ انسان نے اپنی سہولتوں کے حساب سے طبقات بنا لئے کہ کون اعلیٰ ہے؟ اور کون ادنیٰ؟ دراصل تحقیقات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ نہ کوئی اعلیٰ ارفع ہے نہ ہی کوئی ادنیٰ اور کمزور.... یہ ہمارے سماج کی دین ہے کہ لڑکیوں کو کمزور اور لڑکوں کو بہادر سمجھ لیا گیا ہے۔ ماضی میں یہ خیالات متعصب ذہنیت کو اجاگر کرتے تھے کہ بیٹیاں گھر کی چار دیواری میں ہی اچھی لگتی ہیں۔ وہ گھر سے باہر نکلیں گی تو سماج کیا کہے گا؟ ان کے والدین کی بدنامی ہوگی وغیرہ وغیرہ....
یہ کہہ کہہ کر ان کی زندگی کتنی دشوار کر دی گئی کہ لڑکیاں گھر کے کام کاج کیلئے ہوتی ہیں ان کا نصیب روٹیاں بنانا چولہا چکی کرنا ہوتا ہے.... وہ کمزور ہیں۔ صرف لڑکے ہی طاقتور اور باہمت ہوتے ہیں۔ لڑکے ہی باہر کے کام کرسکتے ہیں۔ لڑکیاں کچھ کر نہیں سکتیں۔ یہ سوچ کئی دہائیوں تک لوگوں کے ذہنوں میں نہ صرف محفوظ رہی بلکہ اس پر انتہائی شدت سے ہمارے آباء و اجداد عمل پیرا رہے۔
لیکن زمانہ بدلا، لوگوں کی سوچ بدلی اور بیٹیوں نے اپنا مقدر خود لکھنا شروع کر دیا۔ بیٹیاں ہر میدان میں اترنے کے لئے اپنے پَر تولنے لگیں۔ گھر کے کام سے لے کر انہوں نے دنیا کے ہر میدان کو فتح کرنے کے لئے کمر کس لی۔ پہلے پہل ٹرین صرف مرد چلاتے تھے، ہوائی جہاز کی اڑان کے لئے مرد پائلٹ ہوا کرتے تھے اور میدانی کھیل صرف مردوں کے لئے ہی مختص ہو کر رہ گئے تھے۔ اب تو ٹرین جہاز ہوائی جہاز سب کی کمانڈ عورتوں نے سنبھال لی ہے۔ صرف گھر ہی نہیں بلکہ باہر کے بھی سارے کاموں میں عورتوں نے اپنا جوہر منوایا ہے۔ چاہے پروفیشنل آئی ٹی ڈپارٹمنٹ ہو یا آئی ایس آفیسر ہو، پولیس محکمہ ہو یا فوج کے کرنل، ایک ٹیچر ہو یا منسٹر ہر شعبے میں اس کی موجودگی درج ہو چکی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ کھیل کے میدان میں بھی اس نے اپنی آن بان اور شان کو کم ہونے نہیں دیا۔ کبڈی کھوکھو سے لے کر ہاکی اور ہاکی سے لے کر کرکٹ اور کرکٹ میں تو بس تاریخ ہی مرتب کر دی۔ ساری دنیا میں اپنے ملک کا پرچم فخر سے اونچا کر دیا اور ساری دُنیا نے دیکھ لیا کہ سر زمین ہندوستان کی بیٹیوں نے کرکٹ ورلڈ کپ جیت لیا۔ اب بتائیے کیا لڑکیاں کسی میدان میں بھی پیچھے ہیں؟ بیٹیوں کو یوں ہی رحمت نہیں کہا گیا ہے۔ بیٹیاں والدین کے لئے خوشی و مسرت کا باعث ہوتی ہے بیٹیوں سے محبت کرنے والے والدین کے چہرے ہمیشہ فخر سے چمکتے نظر آتے ہیں۔ جو والدین اپنی بیٹیوں کی عزت کرتے ہیں ان کی خواہشات کا احترام کرتے ہیں ان کی بیٹیاں سماج میں ایک اہم مقام پر پہنچ کر اپنے والدین کا نام روشن کرتی ہیں۔
سچ ہی کہا گیا ہے کہ جس شخص نے بیٹیوں کی پرورش اور تربیت بہترین طریقے سے کی اس نے دین و دنیا میں اپنی جنت بنا لی۔ آج کی بیٹیاں ہمارا فخر ہے۔ ہمارا غرور ہے۔ بیٹیوں کو مادر شکم میں موت کے گھاٹ اتارنے والوں کے لئے یہ بڑی عبرتناک بات ہے کہ جس نے بیٹی کی قدر نہ کی اس کی قدر دنیا کے کسی کونے میں نہیں ہوسکتی یہاں تک کہ آخرت میں بھی اس کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ بچیوں کی تربیت کے دوران ہم کئی پابندیاں اُن پر ایک بہت بڑے بوجھ کی طرح لاد دیتے ہیں اور بیٹوں کی تربیت کرنا بھول جاتے ہیں۔ بیٹیوں کو نگاہ نیچے رکھ کر چلنا سکھاتے ہیں اور بیٹوں کو یہ بات سکھانا بھول جاتے ہیں کہ آپ بھی اپنی نظریں نیچی رکھیں۔ پڑھائی کے لئے لڑکوں کو بےجا لاڈ پیار کیا جاتا ہے کہ بیٹے گھر کے کسی کام کو ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ اور بیٹیاں گھر کے تمام کام کرکے پڑھائی کے لئے بیٹھیں گی۔
یہ سماج کا کیسا انصاف ہے؟ جس نے خود ہی جنس کے نام پر ایک کو بلندی پر تو دوسرے کو پستی میں دھکیل دیا ہے۔ باتیں سننے میں پڑھنے میں عجیب ضرور محسوس ہوں گی لیکن اگر غور کیا جائے تو ہر گھر میں یہی کہانی چل رہی ہے۔ ہم سب جو آج کی نسل کی پرورش کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں، ان میں والدین اور استاد کا سب سے اہم کردار ہے۔ تو کیوں نہ والدین اور اساتذہ مل کر یہ طے کر لیں کہ ہماری اولاد جو لڑکا ہو یا لڑکی ان میں بغیر تفریق کئے مساوی تعلیم اور ان کے ساتھ یکساں سلوک کرینگے۔ یہ ہمارے گھر کے ہمارے سماج کے در نایاب ہیں جو صرف نصیب والوں کے گھر کی زینت بنتے ہیں۔
اولاد سب سے بڑی نعمت ہیں اس کی قدر کریں اور ایسی تربیت کریں جس سے ہم سماج کو بہتری شہری دے سکیں۔ لڑکا اور لڑکی، دونوں کو تعلیم یافتہ بنائیں۔ لڑکیاں تعلیم کے میدان میں آگے ہیں جبکہ لڑکے دسویں تک بھی پہنچ نہیں پاتے۔ اس فرق کو کم کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں اور بچیوں کی اعلیٰ تعلیم کی راہیں ہموار کریں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK