آج جب دنیا تہذیبی انتشار، فکری خلفشار اور اخلاقی زوال کا شکار ہے، تو امت کی بیٹیوں کو سیدہ خدیجہؓ جیسا حوصلہ، سیدہ عائشہؓ جیسا فہم، اور دونوں جیسی استقامت درکار ہے۔ ہمیں خواتین کو محض روایتی دائروں میں قید رکھنے کے بجائے ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کے خزانے کو دریافت کرنا ہوگا۔
ہم ماؤں کو گھروں میں ایسی نسل تیار کرنی ہے جو سیدہ خدیجہؓ کے ایثار کو اپنائے اور سیدہ عائشہؓ کے علم سے روشنی حاصل کرے۔ تصویر: آئی این این
اسلام کی تابناک تاریخ میں اگر چراغ ہدایت، روشنی کا منبع اور ایمان کی پکار بن کر ابھرنے والی شخصیات کو گنا جائے، تو ان میں دو تابندہ ستارے: سیدہ خدیجہؓ اور سیدہ عائشہ صدیقہؓ اپنی انفرادی شان و شوکت کے ساتھ آسمانِ نسوانیت پر ہمیشہ چمکتے رہیں گے۔ ان عظیم المرتبت خواتین نے نہ صرف اسلام کی اولین بنیادوں کو اپنی بے مثال قربانیوں، علم، بصیرت اور استقامت سے سینچا بلکہ وہ ہر دور کی مسلم عورت کے لئے روشنی کا ایسا مینار بن گئیں جس سے رہنمائی حاصل کرنا ہر صاحبِ ایمان خاتون کا دینی و اخلاقی فریضہ ہے۔
سیدہ خدیجہؓ: ایثار، فہم، وفا اور ایمان کی پہلی روشنی
تاریخ جب وفا و ایثار کے ابواب کھولتی ہے تو سیدہ خدیجہؓ کا نام اولین صفحات پر سنہری حروف سے رقم نظر آتا ہے۔ ایک ایسی عظیم المرتبت خاتون، جو جاہلیت کے اندھیروں میں بھی نورِ بصیرت کی حامل تھیں۔ آپؐ کی زوجہ اول، رفیقۂ حیات اور سب سے بڑھ کر وہ پہلی ہستی جنہوں نے نبی کریمؐ کے دعویٰ نبوت پر دل و جان سے یقین کیا، جب دنیا نے انکار کیا، انہوں نے اقرار کیا۔ جب قریش نے طعنہ زنی کی، انہوں نے حوصلہ دیا۔
آپ کی دولت، آپ کی عظمت ِ کردار اور آپ کی خاموش قربانیوں نے اسلام کی جڑوں کو مضبوط کیا۔ وہ لمحہ جب رسولِ رحمتؐ پر غارِ حرا میں پہلی وحی نازل ہوئی اور آپؐ کانپتے دل کے ساتھ سیدہ خدیجہ کے پاس تشریف لائے، وہ لمحہ تاریخ کا ایک ایسا موڑ ہے جب ایک عورت کا عزم، اس کی دانش اور اس کا سکونِ قلب وحی کے اولین مرحلے میں نبیؐ کو تسلی دینے کا ذریعہ بنا۔ ’’اللہ کی قسم! وہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔‘‘ یہ الفاظ محض تسلی نہیں تھے بلکہ ایک روشن پیغام تھے کہ ایک عورت کا ایمان اگر خالص ہو تو وہ مردانِ حق کے کاندھے سے کاندھا ملا کر نبوت کی راہوں کو ہموار کرسکتی ہے۔
سیدہ عائشہؓ: علم و فہم کی بے مثل محافظ
سیدہ عائشہؓ کی ذات گرامی علم، عقل، فراست، فقہ، حدیث، اور بصیرت کا مجسم پیکر تھی۔ وہ رسولؐ اللہ کی محبوب زوجہ تھیں جنہوں نے نصف دین کی تفہیم کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھایا۔ ان کی زبانی ہزاروں احادیث مروی ہیں جن پر اسلامی فقہ کے بنیادی اصول قائم ہوئے۔ ان کی فہم و فراست کا یہ عالم تھا کہ صحابۂ کرام حتیٰ کہ جلیل القدر فقہاء و محدثین بھی ان کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرتے تھے۔
ان کی تعلیمی بصیرت نے عورت کو محض چولہے چکی کی اسیر نہیں، بلکہ علم، استدلال اور فکری بالیدگی کی معراج پر فائز کر دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ عورت نبی کی ہمراز بھی بن سکتی ہے، دین کی ترجمان بھی اور علم کا خزینہ بھی۔
دو عظیم خواتین، ایک نورانی مشن
اگر سیدہ خدیجہؓ نے اسلام کی جڑوں کو ایثار اور ایمان سے سینچا، تو سیدہ عائشہؓ نے اس کی شاخوں کو علم و حکمت کے پانی سے سیراب کیا۔ ایک نے دعوت کا راستہ ہموار کیا، دوسری نے اس راہ پر چلنے والوں کو علم و بصیرت کا زادِ راہ عطا کیا۔ دونوں نے اپنے اپنے وقت میں ثابت کر دکھایا کہ عورت اگر چاہے تو صرف چراغِ خانہ نہیں، چراغِ محفل بھی بن سکتی ہے۔
عصری تقاضے اور نسوانی کردار کی تشکیل
آج جب دنیا تہذیبی انتشار، فکری خلفشار، اور اخلاقی زوال کا شکار ہے، تو امت کی بیٹیوں کو سیدہ خدیجہؓ جیسا حوصلہ، سیدہ عائشہؓ جیسا فہم اور دونوں جیسی استقامت درکار ہے۔ ہمیں خواتین کو محض روایتی دائروں میں قید رکھنے کے بجائے ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کے خزانے کو دریافت کرنا ہوگا۔ علم، ہنر، معیشت اور دین – ہر میدان میں عورت کا کردار لازم ہے، اور یہ کردار سیرتِ خدیجہؓ و عائشہؓ کے مطالعے سے ہی ممکن ہے۔
خواتین کی ترقی فقط نعرہ نہیں، ایک عملی جہاد ہے
معاشرہ کی حقیقی ترقی اس وقت ممکن ہے جب خواتین کو تعلیم، تربیت، اعتماد اور مساوی مواقع دیئے جائیں۔ ہمیں مدارس، اسکولوں، جامعات، اور گھروں میں ایسی نسل تیار کرنی ہے جو سیدہ خدیجہؓ کے ایثار کو اپنائے اور سیدہ عائشہؓ کے علم سے روشنی حاصل کرے۔
آئیے، بیٹیوں کو عظمت کے ان میناروں سے جوڑیں
سیدہ خدیجہؓ اور سیدہ عائشہؓ کا تذکرہ صرف تاریخی حوالہ نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر دعوت ہے۔ یہ پیغام ہے ہر ماں، ہر بیٹی، ہر طالبہ اور ہر معلمہ کے لئے کہ وہ ان روشن میناروں کی روشنی میں اپنی راہ متعین کرے۔
آیئے ہم عہد کریں کہ ہم اپنی بیٹیوں کے دلوں میں خدیجہؓ کی وفا، عائشہؓ کی حکمت اور دونوں کی استقامت کو زندہ رکھیں گے۔ ہم انہیں صرف خواب نہیں، سمت بھی دیں گے – تاکہ وہ خود بھی روشن ہوں اور دوسروں کو بھی منور کریں۔
(مضمون نگار مومن گرلز ہائی اسکول، بھیونڈی کی ہیڈ مسٹریس ہیں۔)