زندگی خوشی و غم کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مشکلات کے ساتھ آسانیاں بھی دی ہیں۔ شدید دھوپ کے بعد سایہ بھی نصیب ہوتا ہے۔ اس لئے
جب زندگی میں پریشانیوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑے تو ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے۔ سب سے اہم، ہمیں صبر سے کام لینا چاہئے۔
زندگی میں آئے دن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ایسے میں ہمت ہارنے کے بجائے اُن کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ تصویر: آئی این این
انسان کی زندگی ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی اور نہ ہی ہماری مرضی کے مطابق چلتی ہے۔ اسلئے دھوپ چھاؤں بھری اس دُنیا میں نہ تو راستے ہی ہمیشہ ہموار، آسان اور دلکش ہوتے ہیں اور نہ ہی سدا کانٹے بھرے۔ وقت زخم دیتا ہے تو اُسے مند مل بھی کر دیتا ہے۔ لیکن عجلت پسندی کے سبب انسانی فطرت اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر جلد آمادہ نہیں ہوتی اور مصائب سے گھبرا کر ہمت ہار جاتی ہے۔ اِس معاملے میں صنف نازک زیادہ حساس ہوتی ہیں۔ خواتین میں پنپنے والی ذہنی پریشانی و انتشار کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر:
وجوہات
(۱)خواتین کی پریشانی کی ایک وجہ اُن پر عائد حد سے زیادہ ذمے داریاں ہوتی ہیں۔ گھر اور بچوں کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ انہیں رشتے بھی نبھانے پڑتے ہیں۔
(۲)معاشی طور پر شوہر اور خاندان کا ساتھ دینے والی خواتین پر آفس کے کاموں کا دباؤ بھی بنا رہتا ہے۔ ساتھی کلیگ کے رویے، ماحول اور باہری عوامل کے نت نئے تجربات و رحجانات انہیں متاثر کرتے ہیں۔
(۳)زندگی کی بھاگ دوڑ میں خواتین کا ٹکراؤ اُن عناصر سے بھی ہوتا ہے جن کا تعلق لوگوں پر تنقید کرنا ہوتا ہے۔ ایسے افراد اجتماعی محفلوں میں آسانی سے مل جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ تذبذب کا شکار ہو جاتی ہیں۔
(۴)ذہنی پریشانی کی ایک بڑی وجہ ڈر، خوف اور تشدد بھی ہے۔
(۵)ماضی کی بری یادیں اور مستقبل کی فکر ذہنی صحت کو متاثر کرتی ہیں۔
(۶)شوہر اور اہل ِ خانہ کا نظر انداز کرنا بھی خواتین کو پریشان کر دیتا ہے۔
اثرات
(۱)اس میں کوئی شک نہیں کہ صنف نازک پر ذہنی دباؤ کا اثر مردوں کے مقابلے تھوڑا زیادہ ہوتا ہے۔ یہ وقتی طور پر حالات کا مقابلہ تو کر لیتی ہیں لیکن طبیعت کے اضمحلال میں گرفتار ہوجاتی ہیں۔ اس کیفیت سے متاثرہ خواتین نہ تو ٹھیک طرح سے گھر کی دیکھ بھال کر پاتی ہیں اور نہ ہی یکسوئی سے اپنے فرائض انجام دے پاتی ہیں۔ جس سے گھر کا نظام زیر و بالا ہو جاتا ہے۔ جس کا سیدھا اثر خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ شوہر اور بچوں پر بھی پڑتا ہے۔
(۲)مصروفیات کے سبب اپنی ذات کو فراموش کرنا بھی ایک اہم وجہ ہے جو خواتین کی جسمانی و دماغی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ جس سے اُن میں مزاج میں چڑچڑاپن شامل ہوجاتا ہے۔
(۳)محرومیاں انسان کی زِندگی پر منفی اثر ڈالتی ہیں۔ کسی چیز یا ہدف کو حاصل نہ کر پانے کی ناکامی بھی خواتین کے اعصاب کو متاثر کرتی ہیں۔
(۴)مسابقتی و مقابلہ جاتی شعبے اذہان کو مضطرب و منتشر کرنے کی بڑی وجہ بنتے ہیں۔ خواتین زِندگی کے ہر شعبے سے منسلک ہیں اس لئے وہ بھی ان کے مضر اثرات سے محفوظ نہیں رہتیں۔
(۵)اپنوں کی نظر التفات کی کمی خواتین کو کھلتی ہے جس سے اُن میں مایوسی پیدا ہوتی ہے۔
(۶)حوصلہ افزائی نہ ملنے کے سبب اکثر خواتین میں منفی جذبات پنپنے لگتے ہیں۔
سد باب اور حل
(۱)خواتین کو چاہئے کہ وہ گھر اور باہر کی ذمہ داریاں شوہر اور گھر کے دیگر افراد کے ساتھ بانٹ لیں۔ یہاں نوکروں کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اس سے اُن کی مصروفیات کچھ کم ہو جائے گی اور وہ ہلکان ہونے سے بچ جائیں گی۔
(۲)کہیں پڑھا تھا کہ لوگوں سے کم ملنے جلنے میں عافیت ہے۔ اگر اس نقطۂ نظر سے دیکھیں تو بات بات پر ہونے والی محفلوں اور اُن میں شامل بعض حاسدین کی کڑوی کسیلی باتوں سے بچا جاسکتا ہے۔ کسی کو آپ کا دل دکھانے کا موقع نہیں ملے گا اور آپ ذہنی الجھن سے بچ جائیں گی۔
(۳)ایسے افراد سے دوری اختیار کرنا ضروری ہے جو آپ کو اپنی کم مائیگی کا احساس دلائیں۔
(۴)بعض اوقات حاسدین آپ کے بہت قریب ہوتے ہیں جن سے فاصلہ بنائے رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ ایسے میں اپنے آپ کو ایک قلعے کی طرح مضبوط بننا ہوگا جہاں دشمنوں اور بدخواہوں کی باتوں کا گزر مشکل ہو جائے۔
(۵)خواتین کے ساتھ احترام، نرم روی اور شائستگی کو اپنا کر اُن کے حوصلوں کو تقویت فراہم کیا جاسکتا ہے۔ اور ہمیشہ تنقید کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔
(۶)شوہر اور اہل ِ خانہ کے ذریعے ملنے والی دلجوئی اور محبت خواتین میں خود اعتمادی کو فروغ دیتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی خواتین بذاتِ خود نہ صرف ذہنی اور جسمانی پریشانیوں سے نجات حاصل کرسکتی ہیں بلکہ روحانی سکون بھی حاصل کرسکتی ہیں اِس کا آسان اور عمدہ حل رب سے لو لگانا ہے۔ قرآن کہتا ہے (ترجمہ): اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اس لئے صبر کریں زندگی آسان ہوجائے گی۔