Inquilab Logo

ہماری لڑائی جویلری بزنس میں موجود خرابیوں جیسے سود،کٹوتی اوربیجاچارجز کے خلاف ہے

Updated: September 27, 2022, 1:25 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

دیوان خاص کی پانچویں قسط میں تقویٰ جویلرس کے بانی و مالک اسرار اسماعیل سیّد سے گفتگو

In the fifth episode of Dewan Khas, a conversation with the special guest Mr. Asr Syed, member of the Inquilab Azhar Mirza can be seen. .Picture: Nimesh Dewey /Inquilab
دیوان خاص کے پانچویں ایپی سوڈمیں مہمان خصوصی جناب اسرارسید، رکن انقلاب اظہر مرزا سے محوگفتگو دیکھے جاسکتے ہیں۔تصویر: نمیش دوے، انقلاب

 روزنامہ انقلاب کے دیوان خاص کی اس پانچویں قسط کیساتھ ہم ایک بار پھرحاضر ہیں۔ اس سلسلے کے تحت ہم اب تک مختلف  شعبوں کی ۴؍ اہم شخصیات سے گفتگو کرچکے ہیں، جن میں آئی پی ایس افسر اور کمشنر آف ریلویز پولیس ممبئی جناب قیصر خالد، توحید جویلرس کے مالک جناب شکیل شیخ، معروف کاروباری و سماجی خدمتگار جناب سہیل کھنڈوانی اور  درگاہ اجمیر کمیٹی کے صدر امین پٹھان صاحب شامل ہیں۔ آج کے دیوان خاص کے مہمان جناب اسرار اسماعیل سید ہیں،  آپ تقویٰ جویلرس کے بانی و مالک ہیں۔  آپ  نے بامقصد تجارت کے جذبہ کیساتھ سونے چاندی کے زیورات کے کاروبار میں قدم رکھا اور رجحان ساز کاروباری بنے۔     ایک سول انجینئر نے جویلری بزنس میں قدم کیسے رکھا؟ کس جذبہ و مقصد کے ساتھ وہ سرگرم عمل ہیں؟ اس کاروبار میں وہ کون سی تبدیلیوں کے محرک بنے؟ آئیے جانتے ہیں۔
 اسرار صاحب، سول انجینئرنگ کے بعد جویلری بزنس میں قدم رکھنے کا سبب کیا ہے؟ 
 ہم ریئل اسٹیٹ بزنس میں پہلے سے ہیں، خاندان کے افراد پلاٹنگ اور کنسٹرکشن کے کاروبار میں بھی ہیں،  آپ سلیمان عثمان مٹھائی سے  واقف ہی ہیں،   یہ ہمارے نانا نے شروع کیا تھا۔ اسی کااثر ہے کہ کاروبار میں شروع سے رجحان رہا۔۲۰۰۶ءمیں ہمارےمتعلقین نے جویلری بزنس کا پرپوزل پیش کیا، ہم نے والد صاحب اور علماء سے مشورہ کیا۔ یہ بھی خیال رہا کہ اس کاروبار میں مسلم سماج کے لوگ بہت کم ہیں جو کچھ کرپائے ہیں۔نیز  اس لائن میں جو بے دینی  یا خرافات  ہے اسے کیسے ختم کیا جائے یہ خیال بھی رہا، جیسے سودی نظام  (زیورات گروی کے ضمن میں) ، زیور واپسی میں جو۱۵-۲۰؍فیصد کٹوتی ہوتی ہے ۔  ملاوٹ،   وزن  اور واپسی، یہ۳؍ بنیادیں ہیں، انہیں اسلامی طرز پر کس طرح چلایا جائے، اس سوچ کےساتھ ہم متعلقین کے ساتھ جڑگئے۔ 
 تقوی جویلرس کئی شہروں میں پہنچ چکا ہے، ممبئی میں اس کی ۷،  پونے میں۲ ؍اور پنویل میں  ایک  دکان ہے، آج ماشاءاللہ آپ کا یہ کاروبار خوب ترقی کرگیا، اس کامیابی کا راز کیا ہے؟ اس مقبولیت کی وجہ کیا ہے؟
 جیسا کہ میں نے بتایا کہ ہم یہ کاروبارابتداء میں  اپنے متعلقین کے ساتھ مل کر کررہے تھے، ہم نے کاروبار کے لحاظ سے مسلم سماج کو پیش نظر رکھا۔ چونکہ  ہماری لڑائی جویلری بزنس میں موجود خرابیوں جیسے سود اور بیجا چارجز کیخلاف  ہے، اسلئے ہم نے مسلم علاقوں میں  اپنا دائرہ بڑھایا۔ اس کام کے پھیلاؤ کیلئے ضروری بھی ہے کہ ایک نام نہ چلے، کئی نام ہوں، اسی لئے ۲۰۱۶ء میں تقویٰ جویلرس کی شروعات کی اور اسے پھیلانے کی کوشش ہورہی ہے۔
 زیورات کی خرید و فروخت کے معاملے میں تقویٰ جویلرس کا کیا طرز عمل ہے؟ 
 سب سے پہلا ۱۰۰؍فیصد بائے بیک گارنٹی، دوسرا: جس کیریٹ(قیراط) کا سونا اس کیریٹ کا دام۔  عموماً اس ٹرینڈ سے پہلے ایسا نہیں  تھا،سونا پیلا پیلا ہی ہوتا ہے اس لحاظ سے سبھی قسم کا سونا ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا۔ ہم گاہک کو  زیور کے وزن کی مکمل معلومات دیتے ہیں،  زیور میں کتنا سونا اور کتنی ملاوٹی دھات ،  وزن کیسے پڑھنا ہے؟ یہ ہماری خواتین کے علم میں لایا نہیں جاتا تھا، کتنا ’میکنگ چارج‘ ، ’روڈیئم‘ ، ’انیمیئل چارج ‘  ہے، یہ ’بریک اپ‘ انہیں پتہ نہیں ہوتا تھا۔ اس تعلق سے ہم نے بیداری لائی ۔  گاہکوں کی ۳؍ اقسام ہیں: پہلے شادی بیاہ والے ۔ دوسرے: سونے کو بطور انویسٹمنٹ دیکھنے والے۔ تیسرا کوئی مجبوری آگئی، گھر میں شادی ہے، اسپتال کی ضرورت  یا بچوں کا ایڈمیشن کا خرچ ہے تو اس کو بیچا جاتا ہے۔ اب خریداری کے وقت تو گاہک خوشی خوشی آتے ہیں لیکن بیچنے کے وقت مجبوری ہوتی ہے، دل بجھا ہوا  ہوتا ہے۔ عورتوں کو تو اپنے زیور سے کتنی محبت ہوتی ہے، انہیں  زیوربکنے کا زیادہ رنج ہوتا ہے ۔ان باتوں کو ہم نے  دھیان میں رکھا اور ہم نے  ۲۰۰۶ء  سے  ’۱۰۰؍فیصد بائی بیک گارنٹی ‘  اور’۱۰۰؍ فیصد ری سیل‘  ٹرینڈ میں لایا  اور  اسی  کو ہم تقویٰ کے ذریعہ بھی لے کر چل رہے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ گاہک اگر سونے کا زیور ہمیں بیچتا ہے تو اسے موجودہ  قیمت پر اس کا پیسہ مل جاتا ہے، مثلاً ۱۸؍ کیریٹ کا سونا ہے مطلب ۷۰؍فیصد سونا،۲۰؍کیریٹ ہے تو۸۳ء۳۳فیصد سونا، ۲۱؍کیریٹ ہے تو ۸۷ء۵؍ فیصد، ۲۲؍کیریٹ ہے تو۹۱ء۶۰؍فیصد،تو یہ مختلف کیریٹس اور ان کے فیصد ہیں۔ اب اسکے علاوہ جو زیور میں ہوتا ہے وہ ’ایملگم‘ ہوتا ہے، یعنی اس میں تانبہ اور چاندی ہوتا ہے۔ سونے کا زیور بغیر اس ملاوٹ ( ایملگم)  کے بنتا بھی نہیں ہے۔  واپسی میں  جیسے وزن ۱۰؍ گرام ہے تو اس میں ۹؍ گرام ۱۶۰؍ ملی گرام  سونا  اور باقی۸۴۰؍ ملی گرام ملاوٹ ہے،ہم اس کا بھی پورا پیسہ دیتے ہیں جبکہ عام سونار اس کا پیسہ کاٹتا ہے۔ دیتے وقت اس کو گنتا ہے لیکن واپسی میں نہیں گنتا۔ یعنی بیچتے وقت اس کو بطور سونا جوڑا لیکن واپسی میں اسے ملاوٹ بتا کر  پیسہ کاٹ لیا، ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے۔ 
  جو لوگ اس غرض سے سونا خریدتے ہیں کہ مستقبل میں کچھ  رقم بڑھ جائے تو انہیں زیور خریدنا چاہئے یا سونے کا بسکٹ؟
   اس میں ۲؍ باتیں ہیں، ۲۴؍ کیریٹ میں گِنّی ہوتی ہے یا بسکٹ / کوائن ہوتا ہے، اس میں  ملاوٹ نہیں ہوتی، اس کا دام  زیادہ ہوتا ہے ، مثلاً آج اس کا بھاؤ ۵۲؍ ہزار روپیہ ہے، تو۵۲؍ ہزار+ پیکنگ چارج+ایس اے سرٹیفکیٹ  چارج+جی ایس ٹی کل ملاکر اتنا خرچ ہوگا۔  اسکا فائدہ یہ ہے کہ اس پر بنوائی /گھڑائی کا  چارج نہیں دینا ہے۔ اگر آپ کے پاس  رقم پس انداز ہے تو آپ یہ خریدیں اور اسے اپنی تجوری میں یا بینک لاکر میں رکھ دیں کیونکہ اس کا استعمال نہیں ہوگا۔   اسکے بالمقابل اگر زیور خریدتے ہیں تو کیا ہوگا: مثلاً   ۲۲؍ کیریٹ کا زیور بناتے ہیں، اس کا بھاؤ آج۴۹؍ہزار روپے ہے، اس پر میکنگ چارج ، جی ایس ٹی لگے گا تو  یہ ۵۲؍ ہزار یا اس کے آس پاس چلاجائے گا۔ یہ زیورگھر کی خواتین پہن سکتی ہیں، جبکہ گنی/بسکٹ کو ہمیں تجوری میں یا بینک لاکر میں رکھنا ہے، یہ استعمال نہیں ہو گا ۔ سونے کی خریداری کا انحصار استعمال پر ہے۔ ایک نکتہ کی بات ہے کہ ہم یا ہماری طرح ۱۰۰؍فیصد بائے بیک گارنٹی دینے والے جویلرس کی وجہ سے لوگوں کو ۲۴؍ کیریٹ کی طرح منافع ملتاہے یعنی زیور استعمال بھی ہوگیا اور اس کی قیمت بھی مل گئی۔ ہم ایسے افراد کو یہ بھی مشورہ دیتے ہیں کہ آپ بجائے سونا خرید کر رکھنے کے اسے خریدتے بیچتے رہیں۔ اس سے رقم بڑھتی رہے گی ۔  جیسے کہ اگر کوئی اپنی بچی کیلئے سونا ابھی ۵۲؍ ہزارمیں  خریدے  اور جب اس کی شادی ہوتو دام ۳۶؍ ہزار ہوجائے تب تو  نقصان میں رہیں گے۔ 
 ۱۰۰؍فیصد ری سیل / ۱۰۰؍فیصد بائے بیک کا جو ٹرینڈ آپ کے متعلقین اور تقویٰ جویلرس نے پروان چڑھایا، کیا اس کا کوئی مثبت اثر روایتی سوناروں اور جویلرس پر پڑا؟
 ماشاء اللہ یہ ٹرینڈ ہندوستان میں پہلی بارشروع ہوا، اور ہمارے متعلقین نے اس کو متعارف کرایا، اگرچہ یہ کوئی شرعی اصول نہیں ہے۔   ہماری لڑائی رِبا(سود) کے خلاف  ہے۔  لوگ اپنی ضرورت کے وقت زیورات کو روایتی سوناروں کے پاس جاکر گروی رکھ دیتے ہیں،یہ سودی معاملہ کرنا اللہ کے ساتھ جنگ کا اعلان کرنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا ایسی صورت سے بچنے کیلئے یہ ترتیب ہے۔ ’۱۰۰؍فیصد ری سیل‘ سے جب ایک چیز کی پوری رقم مل جاتی ہے تو  اس کو کیوں گروی رکھیں؟ پھر یہ کہ زیور گروی رکھنے  پر بینک، سونار  یا قرض دینے والے ادارے اس زیور کی  ۷۰؍ فیصد کی ’ویلیو ‘ہی بطور قرض دیتے ہیں ۔ اب یہاں ’۱۰۰؍فیصد ری سیل‘ ہے تو اس سے یہ ہوگا کہ ایک لاکھ کی چیز کی قیمت ایک لاکھ ہی مل گئی اور آپ کا کام ہوگیا۔   دیگر سوناروں نے بھی ۱۰۰؍  فیصد ری سیل اور بائے بیک کی اہمیت کو سمجھا اور متاثر ہوئے۔ اللہ کا احسان ہے کہ ممبرا اور دیگر علاقوں میں کئی سوناروں نے اس چیز کو اپنایا اور باقاعدہ اردو میں’۱۰۰؍فیصد ری سیل اور بائے بیک‘ کے بورڈز لگوائے،  ہمارے اس قدم سے ایک انقلاب آیا۔  گاہک کوئی بھی ہو کسی بھی سماج کا ہو اس کے ساتھ فریب دہی نہ ہو۔
 قبل از کووڈ اور بعداز کووڈ خریداری اور فروخت کا رجحان کیسا ہے؟ گاہکوں کا تناسب کیا ہے؟ 
 کووڈ سے قبل یہ 60:40کا تناسب تھا، ۶۰؍ فیصد خریدار اور ۴۰؍ فیصد فروخت کنندگان، ہاں سیزن کا بھی اثر رہتا ہے، شادیوں کے سیزن میں یہ 80:20کا ہوجاتا ہے،جون جولائی میں اسکول کالجز کے کھلنے پر یہ الٹا بھی ہوجاتا ہے کیونکہ فیس وغیرہ کے تقاضے ہوتے ہیں۔ کووڈ کے دوران میں آمدنی کے ذرائع بند ہونے پر بہت سے لوگوں کیلئے زیورات کا اثاثہ ہی مددگار رہا۔  ہم نے بھی لوگوں کا خیال رکھا اوراپنے فروخت کردہ زیورات پر۱۰۰؍بائے بیک ری سیل کے لحاظ سے حساب رکھا،   دیگر جویلرس کے زیورات لانے پر ہم نے اسے بھی اچھے  دام دئیے۔ اب حالات بہتر ہورہے ہیں،  امید ہے کہ شادیوں کا سیزن آتے آتے سب پہلے جیسا ہوجائے۔
 آپ کے کاروباری عزائم کیا ہیں؟
 جی ہم نے تقویٰ گروپ آف کمپنیز بنائی ہے، اسکے ذریعے تقوی جویلرس ایل ایل پی، تقوی ریالٹی ،تقوی اسٹیٹ  ، اسی طرح تقوی عمرہ ٹراویلس جو میرے فرزند حافظ عبداللہ نے شروع کی ہے۔ اسی طرح  تقوی امپیکس کیلئے بھی لائسنس لیا ہے، امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار بھی کرنا چاہتے ہیں۔
 ہمیں معلوم ہوا کہ آپ اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں،   آپ کو کس بات نے ترغیب دی اور آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟
 علم آدمی کو مرتے دم تک حاصل کرتے رہنا چاہئے ۔ یہ حاصل کرنا ہے تو  ہماری آنکھ ، کان  ،   دماغ ہمیشہ کھلا ہو، ایسا ہوتو پھر آدمی صبح سے لے کر شام بہت کچھ علم حاصل کرسکتا ہے۔ ٹریڈیشنل ڈگری بھی حاصل کریں۔اس وقت میں خود بھارتی ودیا پیٹھ پونے سے ایم بی اے کررہا ہوں، پچھلے سال جیمولوجی کا کورس مکمل کیا ہے۔ ایم بی اے کے بعد اپنے کاروبار سے متعلق کورس کرنے کا ارادہ ہے تاکہ اور بہتر بن سکوں۔
 ایک کاروباری کو سماج سے فائدہ ملتا ہے تو وہ اس کے بدل میں سماج کو بہت کچھ دیتا بھی ہے، کیا تقوی گروپ آف کمپنیز کی جانب سے اس ضمن میں کوئی پہل ہوئی ؟
 ایک ’انٹرپرینیور‘  اورسماج کا’ گیو اینڈ ٹیک ریلیشن شپ‘ ہوتا ہے، یہ ہونا بھی چاہئے۔میں تو کہوں گا کہ یہ قرض ہے اور انٹرپرینیور اسے اچھے کام کی شکل میں چکائے، سماج کی ترقی، ویمن امپاورمنٹ، جہاں جہاں کمیاں ہیں وہاں وہ کام کرے۔ الحمد للہ!تقویٰ فاؤنڈیشن کے ذریعہ ہم  تعلیمی و سماجی کام کرتے رہتے ہیں، جہاں جیسی ضرورت ہوتی ہے ہم تعاون کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
 اسی حوالے سے آپ کا کوئی ہدف یا ارادہ جسے حاصل کرنا یا انجام دینا ہے؟
میری یہ فکر ہے کہ ہمارے بچے ایڈمنسٹریشن کی طرف زیادہ جائیں جیسے مقابلہ جاتی امتحانات، آئی اے ایس، آئی پی ایس ، نیز  اسٹیٹ- نیشنل لیول کے جو امتحان ہوتے ہیں، اس کیلئے بچوں کی اچھی طرح رہنمائی ہو، اس کے تحت کچھ غوروفکر ہورہا ہے کہ بچوں کی گائیڈنس مع قیام و طعام کا کچھ کام ہو،  رحمانی ۳۰؍و دیگر سے بات بھی ہورہی ہے ۔   ہمیں یقین  ہے کہ آپ ’دست محنت سے بنا تو بھی کوئی نقش عظیم‘پر عمل کررہے ہیں تو ان شاء اللہ بہت جلد یہ ممکن ہوگا۔ یہ تھے  اسرار سید صاحب جن سے ہم نے تفصیلی بات چیت کی۔ دیوان خاص میں ایسی ہی خاص شخصیات کی آمد و گفتگو کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔ خدا حافظ!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK