Inquilab Logo

ماں باپ بڑے انمول ہیں،ان کی قدر کیجئے

Updated: January 03, 2022, 12:09 PM IST | Samia Riaz Ahmed | Malegaon

والدین کی اولاد کے حق میں کی گئی دعائیں بارگاہِ الٰہی میں شرف قبولیت پاتی ہیں۔ وہ لوگ بہت خوش نصیب ہوتے ہیں جن کے سروں پر ماں باپ کا سایہ برقرار ہوتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ان کی اہمیت کو سمجھا جائے کیونکہ ان کے ساتھ حسن سلوک بھی افضل اور محبوب ترین اعمال میں سے ہے

 The shadow of parents is a source of mercy, so appreciate their greatness.Picture:INN
والدین کا سایہ باعث ِ رحمت ہے لہٰذا ان کی عظمت کی قدر کیجئے۔ تصویر: آئی این این

اللہ رب العزت نے دنیا قائم کی آدمؑ کو بنایا پھر اولاد آدم کو اور پھر اس اولاد آدم کو ہر طرح کی خوشیاں اور احباب و اقارب سے نوازا، پھر استحکام کے ساتھ زندگی گزارنے کیلئے رشتوں کو بخشا اور رشتوں میں بہن بھائی کا مقدس رشتہ عطا کیا، اور اس سے بڑھ کر والدین کے پاکیزہ رشتے سے ہمیں مالا مال کیا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کے عظیم خطاب سے سرفراز کیا اور فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کریں یعنی سلامی دیں۔ والدین اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی انمول نعت ہوتے ہیں۔ والدین دنیا کی سب سے اہم ہستی ہیں۔ اولاد کی تعلیم و تربیت اور نگہداشت سے لے کر نشوونما تک والدین کی قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے تو یقیناً باپ جنت کا دروازہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ والدین کا وجود اولاد کیلئے باعث ِ خیر و برکت ہوتا ہے۔ والدین کی اولاد کے حق میں کی گئی دعائیں بارگاہِ الٰہی میں شرف قبولیت پاتی ہیں۔ وہ لوگ بہت خوش نصیب ہوتے ہیں جن کے سروں پر ماں باپ کا سایہ برقرار ہوتا ہے۔ ان ہی خوش نصیبوں میں میرا بھی شمار ہے اور میں دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے حبیب محمد مصطفیٰ (صل) کے صدقے میں مجھ سمیت سب کے والدین کو تادیر سلامت رکھے۔ (آمین)
 والدین اپنی اولاد کی راتوں کی نیندیں قربان کر کے پرورش کرتے ہیں۔ اولاد کی خواہشات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے دنیا کے تمام سکھ چین گنوا دیتے ہیں۔ پھر وقت کی گھڑیاں گزرتی جاتی ہیں اور والدین اپنی اولاد کو جوانی کی دہلیز پر پہنچا کر ضعیفی لے لیتے ہیں اور مسکرا کر غریبی کے دن بھی کاٹ لیتے ہیں لیکن افسوس صد افسوس وہی اولاد جوان ہو کر فرمان خدا وندی کو بھول جاتے ہیں اور بوڑھے ہوچکے والدین کو بوجھ محسوس کرنے لگتے ہیں۔ مَیں آج ان بد نصیب اور نافرمان اولاد کیلئے قلم اٹھا رہی ہوں جو والدین کی قدر نہیں کرتے اور ان کی عظمت کو فراموش کر کے اپنی دنیا و آخرت دونوں کو ایک ساتھ خراب کر بیٹھتے ہیں اور وہیں یہ خواہش بھی رکھتے ہیں کہ دنیا و آخرت میں ہمیں خوشیاں ہی خوشیاں ملیں اور ساتھ ہی اپنی اولادوں سے فرمانبرداری کی امید بھی لگا لیتے ہیں جبکہ اس بات سے خوب خوب واقف ہوتے ہیں کہ والدین کی خوشنودی میں ہی اللہ رب العزت کی خوشنودی ہے اور والدین کی ناراضگی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے۔ آج کی اس ماڈرن ہوتی دنیا میں اولاد جن کے سہارے زندگی پاتی ہے، اسی ماں باپ کی بدولت جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں اور اولاد کو جوان دیکھ کر ماں باپ برسوں کے خوابوں کو پورا کرنے کی خواہش میں لگ جاتے ہیں۔ ان کی زندگی میں ہی یہ خوشی کا دن میسر بھی ہوتا ہے کہ والدین اولاد کے سر پر سہرا سجا کر بڑے ارمان کے ساتھ بہو کا استقبال کرنے کے لئے بے چین ہوتے ہیں مگر افسوس کہ چند روز ہی گزرنے کے بعد نفرت و عداوت کی ہوا چلنا شروع ہو جاتی ہے جو کہ بہت کم وقت میں زبردست آندھی طوفان میں تبدیل ہو کر رہ جاتی ہے اور پھر بیٹا والدین کی فرمانبرداری سے مکر جاتا ہے، پلہ جھاڑ لیتا ہے، اللہ کی بخشی ہوئی والدین جیسی عظیم نعمت کو یکسر فراموش کر دیتا ہے۔ اور بیٹا بیوی بچوں کو اپنے سر کا تاج سمجھ کر ماں باپ کو دوسروں کا محتاج بنا دیتے ہیں۔ اور والدین کو ایک وبا سجھ لیتے ہیں کہ انہیں پاس رکھنا تو دور ٹھیک سے دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے جبکہ ارشاد نبویٔ عالیشان ہے کہ ماں باپ کو محبت کی نظر سے دیکھ لینا کامل حج کا ثواب ہے۔ مگر اولاد، والدین کو ایسا بوجھ سمجھ لیتے ہیں کہ ان سے کنارہ کشی اختیار کر کے اپنے بیوی بچوں میں مگن ہو جاتے ہیں یا تو پھر اولڈ ایج بھیج کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں جبکہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ آج ہم جو کھیل ہم اپنے والدین کے ساتھ کھیل رہے ہیں کل کے ہماری اولاد بھی بڑی ہو گی اور ہمارے ساتھ بھی یہ گیم کھیلا جا سکتا ہے۔ اپنے والدین کی عظمت کو پہچانیں کیونکہ آپ بھی صاحب اولاد ہوں گے اور اگر آپ نفرت کا بیج بوؤ گے تو پھل بھی کانٹے دار ہی پاؤ گے آپ کی اولاد بھی نافرمان ہو گی۔ ہر طرف نفرت اور عداوت ہو گی، وقت کافی تبدیل ہو چکا ہو گا الفت محبت کا نام و نشاں تک نہ ہو گا۔ ماں باپ آپ سے دور کوسوں دور ہو چکے ہوں گے ماں کی دعا اور باب کے سایے سے محرومی ہو چکی ہو گی۔ زندگی میں لا چارگی ہو گی لوگوں کے طنز اور طعنے تلخیاں آپ کو ڈس رہی ہوں گی۔ لوگ آپ کے نام پر تھوک رہے ہوں گے اور آپ صرف اور صرف احساس کا دریا بنے بیٹھے ہوں گے۔ درد سے تڑپ کر اپنے والدین کو پکارو گے مگر افسوس وہ آواز صدا بہ صحرا ثابت ہو گی کیونکہ وقت گزر نہیں بلکہ کافی پیچھے چھوٹ چکا ہو گا۔ لہٰذا والدین کی قدر کو سمجھیں اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں کیونکہ مرتبہ ان کا بہت ہی اعلیٰ اور ہستی بہت ہی مقدس ہے کیونکہ ان کے رخصت ہوتے ہی بےبسی، تنہائی، یتیمی، بدنصیبی آپ کا مقدر بن جاتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK