Inquilab Logo

سماج کی بے جا رسم ’جہیز‘ سے پیچھا چھڑایا جاسکتا ہے

Updated: January 13, 2020, 5:40 PM IST | Hina Khan | Akola

اگر کوئی باپ اپنی بیٹی کو جہیز نہ دے تو اس کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ سماج کیا کہے گا؟ سماج میں ان کی کیا عزت رہ جائے گی؟ ان تمام باتوں کو سوچ کر وہ اپنے آپ پر مصیبت اٹھا کر کسی بھی طرح جہیز دے کر اپنی بیٹی کو رخصت کرتا ہے مگر اس بات کا عہد کیا جائے کہ سماج جہیز کی برائی سے نجات پا لے تو یہ ممکن ہے۔

علامتی تصویر۔ تصویر: مڈڈے
علامتی تصویر۔ تصویر: مڈڈے

ہمارے سماج میں نکاح سے پہلے اور بعد میں بہت ساری بے جا رسم و رواج اپنائے جاتے ہیں محض چند دن کی نمائش، خوشی کے لئے ایسی رسمیں کی جاتی ہے جو صرف انسان پر بوجھ ہی ڈالتی ہے اور اس کے علاوہ دوسرا کچھ بھی نہیں۔ ان ہی رسموں میں سب سے خطرناک اور بے جا رسم ’جہیز‘ کی رسم ہے جو دھیرے دھیرے دیمک کی طرح ہمارے سماج کو کھا رہی ہے۔  جب بھی تنگ نظر مائیں اپنے بیٹوں کیلئے لڑکی تلاش کرتی ہیں تو اس کی نظروں میں جہیز کے خواب ہوتے ہیں۔ امیر سے امیر گھرانوں کی لڑکی تلاش کرتے ہیں تاکہ وہ لوگ اپنی بیٹی کو خوب جہیز دے سکے۔ اور اگر غلطی سے کسی غریب گھرانے کی بچی سے رشتہ ہوجائیں تو ان سے بھی امید لگا کر بیٹھ جاتے ہیں کہ وہ بھی بہت سارا جہیز دیں گے۔ اور اگر وہ کچھ نہ دینے کی حیثیت رکھتے ہوں تو انہیں مجبور کیا جاتا ہے، ان سے جہیز کی مانگ کی جاتی ہے، انہیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے کہ اگر وہ ان کی مطلوبہ خواہش پوری نہ کرسکے تو وہ ان کی بیٹی سے رشتہ توڑ دیں گے۔ مجبوراً ایک باپ قرض کے بوجھ تلے دب کر ان کی خواہشوں کی پیاس کو سیراب کرتا ہے۔ اکثر غریب گھر کے والدین سماج و خاندان کے ڈر سے قرض میں دب کر اپنی بیٹی کا اعلیٰ سے اعلیٰ جہیز خریدتے ہیں، چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیز اپنی بیٹی کے لئے جوڑ جوڑ کر رکھتے ہیں۔ اگر وہ اپنی بیٹی کو جہیز نہ دے تو خاندان والے کیا کہیں گے؟ سماج میں ان کی کیا عزت رہ جائے گی؟ ان تمام باتوں کو سوچ کر وہ اپنے آپ پر مصیبت اٹھا کر کسی بھی طرح جہیز دے کر اپنی بیٹی کو ہنسی خوشی رخصت کردیتے ہیں۔ چند اقدامات ہیں جو اس سلسلے میں اٹھائے جاسکتے ہیں۔
نوجوانوں میں بیداری
 نوجوان ہمارے سماج کے اہم رکن ہوتے ہیں سماج و قوم کا مستقبل انہی کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ سماج انہیں کی وجہ سے بنتا اور بگڑتاہے، ان کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہوتی ہے۔ تو سب سے پہلے ضرورت ہے کہ ان میں بیداری پیدا کی جائے ان کے ذہنوں میں اس بات کو پیوست کیا جائے کہ جہیز ہمارے سماج کی ایک خطرناک بیماری ہے لہٰذا اسے جڑ سے ختم کرنا ہوگا۔ اگر ہر لڑکا یہ طے کرے کہ وہ اپنی ہونے والی بیوی کے گھر کا کسی قسم کا کوئی سامان نہیں لے گا اور ہر لڑکی ایسا کرے کہ جس گھر میں وہ جا رہی ہے وہ ان لوگوں کو اس کی قیمت نہیں دے گی تو یقیناً اس میں کچھ کمی واقع ہوگی۔ لیکن یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب نوجوانوں کی سوچ بدلے۔ ان کی سوچ بدلنے کے لئے ان میں بیداری لانی ہوگی۔
 جہیز کی شادیوں کا بائیکاٹ
  جب بھی کسی شادی میں جہیز بہت سارا دیا جاتا ہے تو اس شادی کے چرچہ گھر گھر ہوتے ہیں۔ ہر کسی کی زبان پر یہی بات ہوتی ہے کہ فلاں شخص نے بیٹی کی شادی میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہر چیز اسے جہیز میں دی۔ اس طرح کے بہت سارے تعریفی کلمات لوگوں کی زبان پر ہوتے ہیں اور اس شادی کا ذکر شادی ہو جانے کے بعد تک ہوتا ہے۔ بلکہ لوگ ایسی شادیوں کو سالوں تک یاد رکھتے ہیں۔ دراصل یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی نظروں میں جہیز بہت اہم ہوتا ہے۔ سماج کے جو سمجھدار لوگ ہیں، جو نکاح میں سادگی کو جانتے ہیں، جن کے لئے جہیز کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ایسے لوگوں کو جہیز کی شادیوں کا بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ عملی طور پر اس بات کا ثبوت دینا چاہئے کہ وہ ایسی شادیوں کو پسند نہیں کرتے جہاں جہیز دیا جارہا ہو، جب وہ ایسا کرے گے تو دھیرے دھیرے ایسی سوچ کے لوگ ان سے جڑیں گے اور پھر ایک اچھا گروپ ایسے لوگوں کا بن جائے گا جو بغیر جہیز کی شادی چاہتا ہو۔
بغیر جہیز کی شادیوں کی تشہیر
 ہمارے سماج کا المیہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی غلط کام ہو تو اس کی خبر بہت جلد دور دور کے لوگوں میں پھیل جاتی ہے لیکن جب بھی سماج کے چند افراد اچھا کام کرتے ہیں تو ان کے اچھے کاموں کی کبھی تعریف نہیں ہوتی۔ ہمارے سماج میں کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو بنا جہیز کی شادیوں کو انجام دیتے ہیں، لیکن ایسی شادیاں بہت خاموشی سے انجام پاتی ہے۔
 لہٰذا ضرورت ہے کہ ایسی شادیوں کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کی جائے تاکہ سماج کے جو کم ظرف و کم عقل لوگ ہیں انہیں اس بات کی سمجھ آئے کہ بغیر جہیز کی بھی شادیاں ہو سکتی ہیں اور ممکن ہے اس طرح اس بیماری سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔

women Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK