Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’حادثے کی کیفیت کو لفظوں میں بیان کرنا میرے لئے انتہائی مشکل‘‘

Updated: June 26, 2025, 1:52 PM IST | Saaima Shaikh | Mumbai

۱۶؍ سال کی عمر میں شادی اور ۲۶؍ سال کی عمر میں شوہر کے انتقال کا صدمہ برداشت کرنے والی فلک ناز اب اپنی اکلوٹی بیٹی کیلئے جینا چاہتی ہیں۔

Falak Naz Taj Muhammad Chaudhry. Photo: INN
فلک ناز تاج محمد چودھری۔ تصویر: آئی این این

ہر لڑکی اپنی شادی کیلئے بہت سارے خواب دیکھتی ہے۔ پھر جوں جوں اس کی شادی کا مرحلہ قریب آتا ہے وہ نئی زندگی کی شروعات کرنے کی تیاری کرتی ہے۔ شادی ہونے کے بعد اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلتے دیکھتی ہے۔ اچھا شوہر مل جانے پر خود کو خوش نصیب سمجھتی ہے۔ اس دوران اولاد کی نوید خوشی دگنی کر دیتی ہے۔ پھر اچانک شوہر کے انتقال کی خبر موصول ہو تو اس پر یقین کر پانا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ ایسا ہی معاملہ فلک ناز تاج محمد چودھری کے ساتھ پیش آیا۔ ۱۶؍ سال کی عمر میں ان کی شادی اور ۲۶؍ سال کی عمر میں شوہر کا انتقال ہونا ان کیلئے بہت بڑا صدمہ تھا۔ ۲۶؍ سال کی چھوٹی عمر میں ان کی دنیا ویران ہوگئی تھی۔ اکلوتی بیٹی کے ساتھ پہاڑ جیسی زندگی تنہا گزارنا، آزمائش بھرا مرحلہ تھا۔ اس کے باوجود انہوں نےمضبوط قوت ِارادی کا مظاہرہ کیا۔ اپنی زندگی کو بیٹی سے منسوب کرنےکا ان کا آہنی فیصلہ کارآمد رہا۔
 فلک ناز کے بقول، ’’ہم لوگ ممبرا میں رہتے تھے۔ میرے شوہر ایک کمپنی میں منیجر تھے اور روزانہ ممبرا سے مسجد بندر آتے تھے۔ یہ ۲۰۱۵ء کی بات ہے جب میرے شوہر تھانے اور کلوا کے بیچ میں چلتی ٹرین سے گر کر فوت ہوگئے۔ جب مجھے اس بات کی اطلاع ہوئی تو یقین کر پانا مشکل تھا۔ اس خبر کو سننے کے بعد مَیں کچھ بھی سمجھنے کی حالت میں نہیں تھی۔ ایسا محسوس ہوا جیسے میرے سَر سے سایہ چھن گیا۔ اس حادثے کی کیفیت کو لفظوں میں بیان کرنا میرے لئے انتہائی مشکل ہے۔ وہ ایسا لمحہ تھا جسے آج بھی یاد کرتی ہوں تو سر سے پیر میں لرز جاتی ہوں اور آنکھوں سے آنسو طاری ہوجاتے ہیں۔میرے شوہر کے انتقال کے وقت میری اکلوتی بیٹی پانچ سال کی تھی۔ انتقال کےکچھ وقت کے بعد مجھ سے رشتہ داروں اور اہل خانہ نے دوسری شادی کے لئے کہا لیکن میری بچی چھوٹی تھی اس لئے مَیں نے اسے ترجیح دی اور بھلا دوسری شادی کر بھی لیتی تو کیا بچی کو باپ کا پیار مل پاتا۔‘‘ مالی حالت کے متعلق کہتی ہیں، ’’مَیں شادی سے پہلے سلائی کا کام کرتی تھی۔ عدت میں بھی کپڑے سی کر دیتی تھی۔ ۳؍ سال پہلے ڈیزائنر ٹیلر کا کورس کیا تاکہ سلائی کے کام میں بہتری آسکے اور اچھی آمدنی ہو ساتھ ہی گھر بیٹھے کاٹن سوٹ فروخت کرتی ہوں۔ حال ہی میں میری بیٹی نے دسویں کا امتحان پاس کیا ہے۔ سلائی کی آمدنی سے اب تک مَیں اپنی بیٹی کی تعلیم کا خرچ اٹھانے کے قابل ہوئی ہوں۔ مَیں میکے میں رہتی ہوں۔ اس دوران مجھے میری نندیں بھی کافی سپورٹ کرتی ہیں۔ بچی کی چھوٹی موٹی ضرورت بھی پوری کرتی ہیں۔ حالانکہ میری زندگی ہنوز تگ و دو میں گزر رہی ہے،اس کے باوجود میں اپنے آپ سے اور اپنی بیٹی کے تئیں اپنی لگن سے مطمئن ہوں اور اللہ تعالیٰ کے بعد میں اپنی والدہ زاہدہ خاتون کی بے حد مشکور ہوں جو ہر دکھ کی گھڑی میں چٹان کی طرح میرے ساتھ کھڑی رہتی ہیں۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK