Inquilab Logo Happiest Places to Work

ایسے تھے/ ہیں میرے والدین: حصہ اول

Updated: July 27, 2023, 10:55 AM IST | Saima Shaikh | Mumbai

گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔

The shadow of the parents on the head of the children is like a cool shade in the hot sun
اولاد کے سر پر والدین کا سایہ تپتی دھوپ میں ٹھنڈی چھاؤں جیسا ہوتا ہے

والد صاحب نظم و ضبط کے پابند تھے


 نسل نو کو آج یہ دینا ہے مجھ کو مشورہ  ہوں خفا ہر گز نہ اپنے باپ ماں کی بات سے
میرے والدین اس دنیا میں نہیں ہیں، لیکن اُن کی بے شمار یادیں اب بھی میرے ساتھ۔ میرے والد پولیس محکمے میں تھے اس لئے نظم و ضبط کے بہت ہی پابند تھے۔ اور یہ عادت مجھے اُن ہی سے ملی ہے۔ 
 اس زمانے میں جبکہ والدین تعلیمی ترقی کے معاملے میں اتنے بیدار نہیں تھے، میرے والد روزانہ مجھ سے ہوم ورک کے متعلق پوچھتے اور اسکول جا کر ہر ماہ تعلیمی پروگریس بھی معلوم کیا کرتے۔ آج یہی عادتیں مجھے اُن سے وراثت میں ملی ہیں۔ میں خود بچوں کی تعلیم کو لے کر سنجیدہ رہی اور آج نتیجتاً میرے بچے مادری زبان سے تعلیم حاصل کرکے سرکاری ملازم ہیں۔ بہت ساری اچھی باتیں جیسے کہ گفتگو کے آداب، ملنے جلنے والوں سے مخلصانہ برتاؤ، یہ سب ہمیں اپنے اسلاف بالخصوص والدین سے وراثت میں حاصل ہوا ہے۔
 پیرنٹس ڈے منانے کی ہمارے معاشرہ میں کوئی روایت نہیں ہے۔ جن کے والدین حیات ہیں اُن کی خدمت کرنا اور ادب  سے پیش آنا، اولاد پر لازم ہے اور ذمےداری بھی ہے۔ پیرنٹس ڈے سال میں ایک بار نئی روایت کے مطابق منایا جاتا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ کیا ہمارے والدین کے لئے ایک ہی دن مخصوص ہے۔ یہ سب مغربی تہذیب کی دین ہے۔ 
سیدہ نوشاد بیگم (کلوا، تھانے)
مَیں نے شروع ہی سے پاپا کو اپنا ہم مزاج پایا تھا....


 کسی ٹی وی اسکرین کی طرح ذہن میں پرانی باتیں یادوں کی شکل لے کر ڈوبتی ابھرتی اور ذہن میں محفوظ رہ کر اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہیں، اسی احساس سے تو ہم زندگی کا سفر طے کرتے ہیں اور یہی احساس مجھے اپنے پاپا سے بے حد قریب رکھتا ہے۔ بھلے ہی وہ آج ہمارے ساتھ نہیں لیکن ان کی یادیں ہمیشہ ساتھ رہتی ہیں۔ میرے پاپا ایک بےحد سلجھا ہوا ادبی ذوق رکھنے والے انسان تھے۔ ادبی محفلوں، مشاعروں اور اسی طرح کے دوسرے پروگراموں میں وہ اکثر مجھے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔
 میری ہم جماعت سہیلیاں رشک سے کہتیں، ’’تمہارے پاپا کتنے اچھے ہیں....‘‘ میں مسکرا دیتی۔ میں نے شروع ہی سے پاپا کو اپنا رفیق اپنا ہم خیال ہم مزاج پایا تھا۔ ہم اکثر کسی بھی فنکشن میں ساتھ جاتے کسی بھی مسئلہ پر کھل کر بحث کرتے تعلیمی میدان میں بھی وہ میری رہبری کے لئے موجود ہوتے بھلا ایسے پاپا کسے عزیز نہیں ہوں گے۔ وہ تو آج بھی میری جان ہیں۔ ان کی روشن خیالی ہی سے تو میرے ذہن کے گوشے روشن ہیں۔ ان کی اس والہانہ محبت کو دیکھ کر امی ٹوک دیتیں، ’’لڑکی کو اتنا لاڈ دکھانا ٹھیک نہیں کل کو وہ دوسرے گھر جانے والی ہے ایسے میں اس کا کیابنے گا۔‘‘
 امی کے اِن جملوں کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔ میں آواز کے تعاقب میں نظریں گھماتی مگر سامنے کا منظر خالی ہوتا، مَیں مسکرا دیتی اور سوچتی واقعی والدین کی یادیں کتنی انمول ہوتی ہیں۔
سدی ساجدہ جمال (بھیونڈی، تھانے)

ہم ہمیشہ ان کے شکر گزار رہیں گے....


رضائے الٰہی سے میرے والد صاحب اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں مگر اس کا صدہا احسان ہے کہ والدہ صاحبہ حیات ہیں، ان کا سایہ ہم پہ ہمیشہ قائم رہے یہ دل سے دعا ہے۔ پاپا کے گزرنے کے ۷؍ برسوں کے باوجود آج بھی ایسا لگتا ہے کہ وہ ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ان کی باتیں، زندگی گزارنے کا جو سلیقہ طریقہ انہوں نے ہمیں سکھایا۔ چھوٹی بڑی مشکلوں کا کس طرح سامنا کرنا ہے؟ لوگوں سے کس طرح پیش آنا ہے؟ اٹھنے بیٹھنے کا سلیقہ غرض ہر بات انہوں نے ہمیں سمجھائی۔ زیادہ پڑھے لکھے نہ ہونے کے باوجود ان کی معلومات غضب کی تھیں۔ موقع کی مناسبت سے شعر سنانا تو کوئی ان سے سیکھتا۔ والدہ صاحبہ کا ذکر کروں تو ان کی شخصیت کا خاصہ ہے ان کا صبر و تحمل، بڑی سے بڑی بات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا، کبھی کسی کو پلٹ کر جواب نہ دینا، مہمانوں کا خوشدلی سے استقبال کرنا، گھر کے ہر فرد کی خوشیوں کا خیال رکھنا ایسی بے شمار عادتیں ان میں موجود ہیں۔ اور ہم بچوں کیلئے جو قربانیاں اور ایثار انہوں نے کیا وہ تو اس چھوٹی سی تحریر میں پیش کرنا ناممکن ہے۔ ہم ہمیشہ ان کے شکر گزار رہینگے۔ انتہائی فخر سے میں کہہ سکتی ہوں کہ میرے والدین دنیا کے بہترین والدین میں سے ایک ہیں۔ 
رضوی نگار (اندھیری، ممبئی)
والد کے انتقال کے بعد ماں نے پوری ذمہ داری نبھائی
والدین اللہ کہ دی ہوئی نعمتوں میں سے ایک انمول نعمت ہے۔ بہت خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے سروں پر باپ اور ماں دونوں کا سایہ ابھی تک سلامت ہے۔ وہ رات ہمیں آج تک نہیں بھولتی جب باپ کا سایہ ہمارے سر سے اٹھا تھا، اور ہم باپ کی شفقت و محبت سے عمر بھر کیلئے محروم ہوگئے تھے۔ ہم تو خیر سے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکے تھے لیکن ہمارے چھوٹے بھائی بہن جنہوں نے ابھی باپ کی محبت کو محسوس کرنا ہی شروع کیا تھا کہ یہ سایہ ان سے عمر بھر کیلئے چھن گیا۔ میرے والد ایک ایسے انسان تھے جو حق کیلئے آواز بلند کرنا جانتے تھے۔ صحیح اور غلط کا فرق پہچانتے تھے۔ جنہوں نے کبھی کسی کا برا نہیں چاہا۔ شادی ہو یا مصیبت کی کوئی گھڑی خود کو بھلا کر لوگوں کے ساتھ کھڑے نظر آتے تھے۔ بچپن میں ان کے پڑھائے گئے سبق ہمارے ذہن میں آج بھی تازہ ہیں۔ لکھتے ہوئے الفاظ کم پڑ رہے ہیں اور میرے ہاتھوں میں کپکپاہٹ ہے۔ الله ان کی مغفرت کرے اور ان کے درجات کو بلند کرے (آمین)۔ باپ کے جانے کے بعد ماں، باپ اور ماں دونوں کا فرض نبھاتی ہے۔ جو اپنا آپ بھلا کر اپنی بقیہ زندگی اپنی اولاد کیلئے صرف کر دیتی ہے۔ ماں، باپ کے جانے کے بعد بھی ہمت کر کے کھڑی ہوئیں اور ہمیں آگے کی تعلیم مکمل کرنے کی ہمت بندھائی۔ آج ہم جس مقام پر بھی کھڑے ہیں وہ ہماری ماں کی محنت اور کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے۔ 
سارہ فیصل (مئو، یوپی)
ان کی نصیحتیں ہمارے ساتھ ہمیشہ رہیں گی


والدین اللہ کا دیا ہوا نایاب تحفہ ہے۔ والدین ہماری زندگی کی بنیاد ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے ہمیں اس دنیا میں لایا اور ہمیں بااخلاق بنایا۔ ہمارے خاندان میں ہم پانچ بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔ ہمارے والدین نے ہماری پرورش اور پڑھائی کیلئے بہت تکلیفیں اٹھائیں۔ اپنا پیٹ کاٹ کر ہماری ضروریات کو مکمل کیا۔ خود معمولی زندگی گزاری۔ ہم بہنوں کو تعلیم سے آراستہ کیا اور نوکری کرنے دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر بیٹی کو پڑھنا چاہئے اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہئے۔ ان کی ہم سب کو نصیحت ہوتی تھی کہ جہاں بھی کام کرو وہاں اپنا صد فیصد دو۔ آج بھی ہم کو جب بھی کوئی پریشانی آتی ہے تو ہم سوچتے ہیں کہ ہمارے ابا جی ہوتے تو کیا کرتے؟ ہم یہ سوچ کر ہی مسئلے کا حل نکالتے ہیں۔ ان کی نصیحتیں ہمارے ساتھ ہمیشہ رہیں گی۔ والدین کے احسانات ہم زندگی بھر نہیں اتار سکتے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بار بار والدین کے احترام کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کے والدین کو خوش رکھے اور لمبی صحتمند زندگی عطا فرمائے (آمین)۔ 
تصور میں میرے والدین کا چہرہ اب تک مسکراتا ہے
ان کو مرحوم کہتے ہوئے میرا دل کانپ جاتا ہے!
فرزانہ ریاض شیخ (شولاپور، مہاراشٹر)
والدہ کا دین کے تئیں خلوص قابل رشک اور والد کی باتیں قابل ذکر
ہر بچے کی نظر میں اس کے والدین اس کیلئے مشفق اور اچھے ہوتے ہیں، اور وہ انہی کو اپنا آئیڈیل مانتا ہے۔ ہمارے والدين جو صرف ایک اچھے سرپرست ہی نہیں بلکہ انسان دوست شخصیت بھی ہیں، جن کی کئی عادات و اطوار میں اپنے اندر سمو لینا چاہتی ہوں۔ ہماری والدہ جو ایک دینی تعلیمی ادارے سے وابستہ ہیں، ان کا دین کے تئیں خلوص قابل رشک ہے۔ وہ دین پر اپنا سب کچھ لٹا دینا چاہتی ہیں۔ کسی بھی وقت اس ادارے سے جڑی کسی بھی طالبہ کو ہوسٹل میں کوئی بھی تکلیف ہو، وہ اس کو ہر ممکن کوشش کرکے دور کر دینا چاہتی ہیں، اور وہ ان سب کا بدلہ صرف اور صرف اپنے خدا سے روز قیامت چاہتی ہیں۔ مزید اُن کا اخلاق بھی ہمارے لئے ایک عمدہ نمونہ ہے۔ ہمارے والد صاحب جن کی ویسے تو بہت سی باتیں قابل ذکر ہیں لیکن چند عادتیں جو آج کل لوگوں میں کم پائی جاتی ہیں وہ درج کرتی ہوں کہ ہمارے والد صبح کے وقت سونے کے سخت خلاف ہیں اور وہ خود بھی اس پر عمل کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ صبح کے وقت سونے سے برکت نہیں آتی۔ اس کے علاوہ وہ اپنے رشتے داروں سے صلہ رحمی کا معاملہ رکھتے ہیں اور اپنے گھر والوں کے ساتھ نرمی سے پیش آتے ہیں۔
 اللہ ہمارے والدین کو لمبی عمر عطا فرمائے اور ان کا سایہ ہم پر تا دیر قائم و دائم رکھے اور ہم کو بھی اُن کے حق میں صدقہ جاریہ بنائے (آمین)۔
خولہ صدیقی محمدی (لکھیم پور کھیری، یوپی)

ہر دکھ سکھ میں شریک رہتے تھے....


والدین اللہ تعالیٰ کا خوبصورت تحفہ ہیں لیکن بدقسمتی سے مَیں اس تحفے سے محروم ہوں۔
 میرے والدین حیات نہیں ہیں لیکن ان کی قربانیاں اور ان کی بے لوث محبت نے میرے ذہن پر کافی گہرا اثر چھوڑا ہے۔ انہوں نے ہمیں دینی و دنیاوی تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا، پُراعتماد بنایا، اچھے برے کی تمیز سکھائی اور معاشرے میں سر اٹھا کر جینے کے قابل بنایا۔ 
 میرے والدین نے ہماری ہر چھوٹی بڑی خواہشات کا احترام کیا۔ تمام جائز ضروریات کو چوں و چراں کے بغیر پورا کیا۔ میرے والدین ہماری ہر تکلیف پر پریشان ہو جایا کرتے تھے، ہمارے ہر دکھ سکھ میں شریک رہتے تھے۔ انہوں نے ہمیں بے پناہ محبتوں سے نوازا۔
 ایسے تھے میرے والدین! اللہ تمام بچوں کے سر پر اُن کے والدین کا سایہ سلامت رکھے (آمین)۔
ریحانہ قادری (جوہو اسکیم، ممبئی)
والدہ صبر کی مجسم اور والد کی عادتیں ہم میں نمایاں


قلم کی نوک والدین کی عظمت بیان کرنے سے قاصر ہے۔ اللہ کی بندے سے محبت کی ہلکی سی جھلک دیکھنا ہو تو اپنے والدین کی محبت دیکھو۔
 میرے والد حیات نہیں ہیں لیکن ان کا طرز تخاطب، خیال رکھنے کا طریقہ، آج بھی مَیں فراموش نہیں کرسکتی۔ آج بھی جب کوئی میرا نام پکارتا ہے ان کا پکارنے کا انداز میرے ذہن میں تازہ ہو جاتا ہے۔
 میری والدہ الحمدللہ ہمارے ساتھ ہیں۔ صبر کو اگر مَیں نے مجسم دیکھا ہے تو اپنی والدہ میں دیکھا ہے۔ ان کی باتوں سے جھلکتا تجربہ آج بھی ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ میرے ابو کی کبھی نہ ہار ماننے والی عادت ہم بہنوں میں نمایاں ہے۔
 اللہ تعالیٰ میرے ابو کو جنت الفردوس میں جگہ عطا کرے اور میری امی پر اپنی رحمت برقرار رکھے (آمین)۔ 
انصاری لمیس(بھیونڈی، تھانے)
ان کی تربیت ہی میرا کل سرمایہ ہے


والدین کا ہونا ہی دنیا میں اللہ کی سب سے بڑی رحمت ہے۔ والدین دنیا کی جنت کہلاتے ہیں۔ سبھی کے ماں باپ ہر کسی کو سب سے عزیز ہوتے ہیں۔ والدین چاہے امیر ہوں یا غریب ان کی اپنی اولاد سے محبت خاص ہوتی ہے۔ ہمارے گھر کے معاشی حالات بھی درمیانہ ہی تھے میرے ابا ٹیکسی چلاتے اور امی خاتون خانہ۔ مگر مجھے آج بھی یہ بات کہتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے کہ مجھے میرے ابو سے بیش قیمتی دولت ملی ہے انہوں نے ہمیشہ ہمیں اچھی تربیت سے نوازا۔ ان کی تربیت ہی میرا کل سرمایہ ہے۔
  آج وہ حیات نہیں ہیں مگر ان کا احساس اور ان کا دیا ہوا درس ہمیشہ ان کا ساتھ ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ زندگی میں جب بھی مشکلیں آتی ہیں ان کی دی ہوئی ہمت و حوصلہ مجھے کمزور پڑنے نہیں دیتے۔ میرے والدین ربِ کریم کا بیش قیمتی تحفہ ہیں۔
فوزیہ پرویز شیخ (کھانڈیا اسٹریٹ، ممبئی)
میری والدہ اور میرے ماموں ہی میرے والدین ہیں


والدین کی اہمیت کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہم لوگ بہت ہی چھوٹے تھے جب میرے والد انتقال کر گئے، ان کی بس ہلکی سی جھلک ہی یاد ہے مگر میری والدہ نے جس طرح ہم لوگوں کی پرورش کی وہ ناممکن ہوتی اگر ہر قدم پر ان کے ساتھ ان کے بھائی ہمارے ماموں موجود نہ ہوتے۔ واقعی اُنہوں نے صحیح معنوں میں والد کا فرض نبھایا۔ میری نظر میں میری والدہ اور میرے ماموں ہی میرے والدین ہیں۔ جہاں ایک طرف والدہ کی محبت کے ساتھ سختیاں تھیں وہیں ماموں کا پورا اعتماد حاصل تھا۔ والدہ کی ڈانٹ پر اُن کا حوصلہ دینا ’’سچی کھری راہ مشکل ہوتی ہے مگر وہی اصلی کامیابی ہے‘‘ یا ’’میری لڑکیاں کبھی بھی کچھ غلط نہیں کریں گی‘‘ بس ان کے اسی بھروسے نے ہمیشہ صحیح راستے پر گامزن رکھا جس کی وجہ سے آج میں خود اعتماد ہوں اور اسی خد اعتمادی سے میں اپنی بچیوں کی بہتر تربیت کر پا رہی ہوں، الحمدللہ!
فرح حیدر (اندرا نگر، لکھنؤ)
میری پہلی درسگاہ: میرے والدین


ہم نے بچپن ہی سے اپنے والدین کو دوسرے مذاہب کا احترام کرتے دیکھا ہے۔ ہمارے محلے میں زیادہ تر دیگر مذاہب کے ماننے والے لوگ رہتے ہیں۔ میرے والدین ہمیشہ اپنے پڑوسیوں کے ہر دکھ سکھ میں برابر شریک ہوتے۔ ان کا اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سلوک قابل ِ احترام رہا ہے۔ وہ ہمیشہ انسانیت کو پہلی ترجیح دیتے آئے ہیں، یہ عادت انہیں خاص بناتی ہے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے، ہمارے گھر پر کام کرنے والی سکھو بائی جو ہمارے ہی محلے میں رہتی تھی۔ ان کے شوہر کو دل کا دورہ پڑا۔ اس وقت ان کے پاس اتنے روپے نہیں تھے کہ وہ اپنے شوہر کا علاج کرسکے۔ اس وقت میرے والدین نے اس کی مالی مدد کی جس سے اس کے شوہر کی جان بچ گئی۔ اس طرح مَیں نے اپنے والدین سے رواداری کا معاملہ سیکھا ہے۔ 
مہ جبین محبوب حوالدار
(شولاپور، مہاراشٹر)

بچوں کی خوشی میں والدین کی خوشی


دُنیا کی سب سے بڑی نعمت والدین ہیں چاہے والد ہو یا والدہ دونوں کے یکساں پیار و ایثار تلے ہی بچے پروان چڑھتے ہیں۔ دونوں کی فکر اور خوشی ان کے بچوں کی خوشی میں ہی ہوتی ہے۔ بچوں کے بیاہ کے بعد بھی ان کا پیار ویسے ہی امڈتا ہے۔ ہمارے والد جب تک حیات تھے ان کی عادت تھی جب تک ایک نظر ٹہل کر ہم بھائی بہنوں کو دیکھ نہیں لیتے انہیں بے چینی سی رہتی تھی۔ ہمیں ہنستا دیکھ کر، پڑھتا لکھتا دیکھ کر ان کی دلی مسرت کو ہم نے محسوس کیا ہے۔ ہماری والدہ آج بھی ہماری آمد پر ہمارا والہانہ استقبال کرتی ہیں۔
انصاری یاسمین محمد ایوب (بھیونڈی، تھانے)
میری امی اور ابو میرے لئے مثالی والدین ہیں


زندگی میں والدین کی اہمیت کو سمجھ پانا ہی کمال کہلا تا ہے۔ وہ ہمارے لئے سایہ دار درخت کے مانند ہیں۔ ہماری تربیت اور تعلیم میں والدین کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ ان کی محبت اور شفقت کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ میری امی اور ابو میرے لئے مثالی والدین ہیں۔ وہ میری ترقی اور کامیابی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔ میرے والدین نے مجھے ایک اچھا انسان بنانے کے لئے ایمانداری، محنت اور محبت کا درس دیا۔ میرے والد کی حق گوئی کے ان کے مخالفین بھی قائل ہیں۔ انکساری والدہ کی شخصیت کا خاص پہلو ہے۔ 
فاطمہ فہد (بنارس، یوپی)
میرے والد ایک مثالی انسان تھے


میرے والد کا سایہ سر سے اٹھے تقریباً ۱۲؍ سال کا عرصہ گزر گیا ہے۔ جب بھی ان کی یاد آتی ہے تو صرف اس بات کا افسوس ہوتا ہے کہ ان کی خدمت میں کمی رہ گئی۔ وہ ایک مثالی انسان تھے۔ سادہ زندگی گزارنا اور رب کا شکریہ ادا کرنا ان کی فطرت میں شامل تھا۔ سب سے اچھی بات جو ان میں تھی وہ یہ کہ وہ کبھی کھانے میں نقص نہیں نکالتے تھے۔ جو بھی سامنے رکھ دیا جاتا وہ کھا لیتے اور اپنے رب کا شکریہ ادا کرتے تھے۔ کم گو تھے اور صبر سے کام لینا پسند کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ میرے والد کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے (آمین)۔ 
قریشی عربینہ محمد اسلام (بھیونڈی، تھانے)
میرے والدین زندگی کے ہر موڑ پر میرے ہم قدم رہے ہیں
اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا جس میں سب سے بڑی نعمت والدین ہیں۔ میرے والدین کی شان میں جو کچھ کہا جائے کم ہے۔ میرے والدین وہ ہیں جو مجھے پریشانی میں مبتلا دیکھ کر خود پریشان ہو جاتے ہیں، جسم پر ہلکی تپش پا کر چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں، مجھے درد میں مبتلا پا کر اُن کے آنسو رواں ہو جاتے ہیں اور میری ہر خوشی میں مجھ سے زیادہ خوش نظر آتے ہیں۔ میرے والدین زندگی کے ہر موڑ پر میرے ہم قدم رہے ہیں.... ایسے ہیں میرے والدین۔
 میری اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کے والدین کو اچھی صحت، ایمان والی اور آسانی والی لمبی عمر عطا فرمائے (آمین)۔
مومن منزہ بشریٰ عتیق الرحمٰن (بھیونڈی، تھانے)

women Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK