Inquilab Logo Happiest Places to Work

موسم ِ گرما کی تعطیل: بچپن کی یادیں

Updated: April 27, 2023, 1:04 PM IST | Saima Shaikh | Mumbai

گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔

Memories of childhood holidays are incomplete without a mention of grandma`s house.
بچپن کی تعطیلات کی یادیں نانی کے گھر کے ذکر کے بغیر ادھوری ہوتی ہیں۔

املی کے بیج کو ہتھیلی کی پشت پر رکھ کر کھیلا کرتے تھے


بچپن میں گرمی کی چھٹیوں کا ہم سبھی کزن کو بڑی بے صبری سے انتظار رہتا تھا۔ چھٹیوں میں ہم سبھی بھائی اور بہنیں اپنے والدین کے ساتھ نانا کے یہاں جاتے تھے۔ بڑی فیملی ہونے کی وجہ سے گھر میں چہل پہل رہتی تھی۔ ہم لڑکیاں لنگڑی، رسی کا کھیل، املی کے بیج کو ہتھیلی کی پشت پر بہت سے بیجوں کو اوپر اچھال کر ایک ہی کو پشت پر رکھ کر باقی بیجوں کو انگوٹھے اور سب چھوٹی انگلی سے اٹھانا کہ پشت والا بیج نیچے نہ گرے۔ اس کے علاوہ آنکھ مچولی کھیلنا اور ماما مامی کے ساتھ ندی پر کپڑے دھونے جانا بہت مزہ آتا تھا۔ کبھی کبھی چھٹیوں میں دادا کے یہاں جاتے تھے۔ وہاں مرحومہ صوبیہ پھوپھی تربوز اور خربوزے کے بیج جو مٹی کے برتن میں جمع کرکے رکھتی تھی، ہمارے پہنچنے پر ہمیں دیتی تھی۔ ہم سب فرصت کے وقت بیجوں سے شغل کرتے تھے۔ اس عنوان پر سوچنے وقت بچپن کی یادیں تازہ ہوگئیں۔
نصرت عبدالرحمٰن، بھیونڈی تھانے
اب صحن والے گھر دیکھنے کو کم ہی ملتے ہیں
بچپن سے جوانی اور اس کے بعد تک کا سفر ہر قدم پر ایک امتحان ہوتا ہے، نشیب و فراز سے گزرنا پڑتا ہے۔ طالب علمی کے زمانے میں امتحان کا خوف رہتا ہے اور امتحان دینے کے بعد سکون مل جاتا ہے اور دل چاہتا ہے کہ چھٹیاں ایسی جگہ گزاری جائیں کہ وہ یادگار بن جائے۔ مَیں چھٹیوں میں اپنے دادا جان کے یہاں شیرکوٹ جاتی تھی۔ میرے دادا ایک نامور ہستی تھے۔ ان کی بیٹھک کے سامنے آم، پپیتا، انجیر امرود اور نیم کے پیڑ تھے جو پھلوں سے لدے رہتے تھے اور پاس میں ہی کھو بیراج تھا۔ اس کے پاس سبز و شاداب کھیت تھے۔ وہاں خربوزے، تربوز اور ککڑیوں کی بہار تھی اور یہ سب آسانی سے دستیاب ہو جاتے تھے۔ ہم خوب مزے سے کھاتے تھے۔ نیم کے پیڑ میں موٹی رسّی کا جھولا پڑا ہوا تھا۔ بڑی بڑی پینگوں کاہم مزہ لیتے تھے۔ وہ یادیں ابھی بھی میرے ذہن میں زندہ ہیں اور اب میں سوچتی ہوں کہ ویسے گھروں کا اب کوئی تصویر نہیں کیا جا سکتا۔ آج کل زیادہ تر گھر پورے طور سے ’’کورڈ‘‘ ہوتے ہیں۔ اب صحن والے گھر دیکھنے کو کم ہی ملتے ہیں۔
نجمہ طلعت (جمال پور، علی گڑھ)
چھٹیوں میں پاکیزہ آنچل پڑھتی تھی


اُن دِنوں کی چھٹیاں تو بہت یادگار ہیں۔ ٹی وی اور فون کا اتنا رواج نہیں تھا۔ نئی نئی اُردو پڑھنا شروع کیا تھا، اور پاکیزہ آنچل کے افسانے پڑھنے کا ایک جنون سوار ہو گیا تھا، وہ شاید کچھ عمر کا بھی تقاضا تھا۔ امتحان کے دوران دل پر جبر کرکے ایک کنارے رکھ دی جاتی تھی پاکیزہ آنچل کہ چھٹیاں ہوتے ہی پڑھیں گے۔ میری امّی پہلے ہی سے سب معلومات رکھتی تھیں کہ کہاں کون کون سے کورسیز شروع ہو رہے ہیں اور ادھر چھٹیاں ہوئی نہیں کہ فوراًہم بچوں کا داخلہ اس میں کروا دیا جاتا تھا، جس کی وجہ سے آج الحمدللہ کوئی کام ایسا نہیں ہے جو نہ آتا ہو، سلائی، کڑھائی، ککری بیکری، پینٹنگ سب کام مطلب بھر کے کر لیتے ہیں۔ امی کے ساتھ سب رشتےداروں کے یہاں ملنے جانا بھی چھٹیوں کا ایک خاص مشغلہ تھا۔ میری والدہ کی ایک آنکھ میں بینائی نہیں تھی تو ان کو پاکیزہ آنچل پڑھ کر بھی سناتے تھے۔
فرح حیدر (اندرا نگر، لکھنؤ)

گرمیوں کی چھٹیاں اور گاؤں کی سیر


مئی جون کا مہینہ مطلب پڑھائی سے نجات اور گھومنے کا مہینہ۔ یوں تو عرصہ بیت گیا مگر ان چھٹیوں کی یادیں آج بھی دل میں بسی ہے۔ جب ہم موہان گاؤں اپنی خالہ جان کے گھر گرمیوں کی چھٹیاں مانے جاتے تھے، یاد ہے مجھے وہ گاؤں والوں کا حیرانی سے ہمیں دیکھنا، کھیت کھلیانوں کا سیر سپاٹا، آم کے باغ سے ’امبیا‘ توڑ کر بھاگنا، ندی نہر میں بھیگنا مگر واپس آکر خالہ جان کی ڈانٹ کھانا، مچھروں سے بچنے کے طریقے ڈھونڈنا، بڑی سہانی لگتی تھی گاؤں کی تازہ ہوا.... ہم بھائی بہنیں ساتھ مل کر خوب مزہ کرتے تھے۔ وہ چھٹیاں واقعی سکون اور خوشیوں سے بھری ہوئی تھی۔ بچپن کی چھٹیوں کی ساری یادیں ذہن میں تازہ ہے۔
ہما انصاری (مولوی گنج، لکھنؤ)
گرمی کی تعطیلات اور نانی کا گھر
جب کبھی بھی بات گرمی کی تعطیلات کی آتی ہے تو سب سے پہلے ہمارے ذہن میں نانی کے گھر کی یادیں ہی ابھرتی ہیں۔ وہ شاید اس لئے بھی ہمیں بہت عزیز ہوتا ہے کیونکہ وہ امی کا اپنا گھر ہوتا ہے۔ نانی کا گھر جو ہے وہ نانی سے ہی ہوتا ہے۔ بچپن میں جب ہم وہ نانی کے چھوٹے چھوٹے کچھ کام کر دیا کرتے تھے اور نانی اپنے پاس رکھے ہوئے بسکٹ یا ٹافیوں میں سے ہمیں کچھ تھما دیا کرتی تھیں اس کی خوشی ہی الگ ہوتی تھی۔ نانی کے گھر خالہ زاد اور ماموں زار کزنز کے ساتھ شرارتیں کرنے کا مزہ ہی الگ ہوتا تھا۔ تھوڑے سے پیسے ملا کر چھوٹی چھوٹی پارٹیاں کرنے میں جو خوشی ملتی تھی وہ ساری خوشیاں تو اب کہیں کھو گئی ہیں۔ سارے کزنز کے ساتھ بارش کے پانی میں نہانا، بھری دوپہر میں سب کے سونے کے بعد چپکے سے باہر نکل کر گلیوں میں کھیلنا وہ سب کچھ اب بہت یاد آتا ہے۔
سارہ فیصل (مئو، یوپی)
گرمی کی چھٹی اور بھوت کا خوف


مَیں اس وقت نو یا دس سال کی تھی۔ نانی امی کے گھر ہمارا قیام تھا۔ میرے کزنز نے رات میں ڈراؤنی فلم دیکھنے کا پروگرام بنایا۔ اوپر والا کمرہ جس میں وی سی آر رکھا ہوا تھا۔ پہلے ہی ہم چھوٹے کزنز کو منع کر دیا گیا تھا لیکن مجھے فلم دیکھنے کا بڑا شوق تھا رو دھو کر سب کے ساتھ فلم دیکھنے بیٹھ گئی۔ کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔ شروع ہی سے ڈر لگ رہا تھا مگر جیسے ہی قبر میں سے ہاتھ باہر نکلا میں اپنی چیخوں پر قابو نہ رکھ پائی۔ اتنا چیخی کہ بقیہ لوگ بھی ڈر گئے۔ فلم بند کی گئی لائٹس آن ہوئی۔ پرویز بھائی نے مجھے گود میں اٹھایا اور امی کے پاس چھوڑ آئے۔ پھر سبھی نے میرا خوب مذاق بنایا۔ آج بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے تو بچپن کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔
رضوی نگار (اندھیری، ممبئی)
ممبرا سے ممبئی چھٹیاں منانے آنا


سالانہ امتحان مکمل ہونے کا دن اور نانا کا ہمارے گھر آجانا۔ ہم سب اماں (نانی) کے ساتھ پہلے سے ہی پلان کر لیتے تھے کہ پرچہ کے آخری دن آپ نانا کو گھر بھیج دینا اور اس ہدایت کے مطابق نانا آخری پرچہ کے دن ہم سب کو لینے آجاتے۔ پھر ممبرا سے ممبئی کا سفر اور ہم نانا کے گھر پہنچ جاتے۔ اماں (نانی) کے ہاتھ کا بنا ہوا لذیذ کھانا کھاتے۔ مختلف فرمائشوں کے ڈھیر لگاتے اور نانا، اماں ایک ایک کرکے اُن فرمائشوں کو مکمل کرتے۔ وہ چھٹیاں اب ہم نہیں منا پاتے کیونکہ نانا، اماں اب ممبرا ہی میں منتقل ہوگئے ہیں۔ اور قریب ہی رہتے ہیں۔ اب وہ گرمی کی چھٹیاں یاد آتی ہیں جو ممبئی میں ہم نے ان کے ساتھ بتائی۔
مومن آرزو محمد شاہد (ممبرا، تھانے)
آم کا باغیچہ اور جھولا
گرمی کی تعطیلات کا بچپن کے دور میں اپنا الگ ہی مزا ہوتا تھا۔ سچ کہوں تو گرمی چھٹیوں کا ہر طالب علم کو بے صبری سے انتظار رہتا ہے۔ سال بھر پڑھائی کرنے کے بعد گرمی کی چھٹیاں کسی نعمت سے کم نہیں۔ چونکہ ایک گاؤں میں ننھیال اور ددھیال ہونے کی وجہ سے کہیں زیادہ آنا جانا نہیں ہوتا تھا لیکن پھر بھی چھٹیوں کا انتظار بے صبری سے ہوتا تھا۔ ہم سب مل کر باغوں میں جایا کرتے تھے، کچے اور پھر پکے آموں کا لطف اٹھایا کرتے تھے۔
 ہمارے باغیچے میں ایک بڑا سا جھولا ہوا کرتا تھا جس پر ہم بہنیں ایک ساتھ بیٹھ کر جھولتیں اور اپنے باغوں کی رکھوالی کرتی تھیں۔ اسکول بند ہونے کی وجہ سے خوب شرارتیں کرتے تھے۔ پوری چھٹی پڑھائی سےد ور رہتے تھے اور خوب ہنگامہ کرتے تھے۔ اس طرح موسم گرما کی تعطیلات اختتام پاتی تھیں۔
ثناء زید (اعظم گڑھ، یوپی)
بچپن کی یادیں اور خالہ


گرمی کی چھٹیوں کا مطلب خالہ کا گھر۔ وہ گھر جس سے بچپن کی ڈھیر ساری یادیں جڑیں ہیں۔ آخری پرچہ ہوا نہیں کہ ہم بھائی بہنوں کا بیگ تیار ہو جاتا تھا۔ وہاں خالہ ہمارے ناز نخرے اٹھانے کئلئے بالکل تیار رہتی تھیں۔ ہم لوگ بائیکلہ میں رہائش پذیر تھے جبکہ خالہ وکھرولی میں رہتی تھی۔ ہم بھائی بہنیں خالہ کے گھر جمع ہو جاتے تھے اور خوب مزہ کرتے تھے۔ خالہ ہمارے پسند کے کھانا بناتیں۔ خالہ ہم سب کا بے حد خیال رکھتی تھی۔ ہم سبھی بھائی بہن خالہ سے بے حد محبت کرتے ہیں۔ خالہ گزشتہ شعبان کو اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ اب یہ صرف بچپن کی بہترین یادیں ہیں جن کو اپنے دامن میں سمیٹ کر رکھنا چاہتی ہوں۔ 
مومن رضوانہ محمد شاہد (ممبرا، تھانے)

سائیکل کرایے پر لے کر چلاتے تھے


بچپن کی یادیں بہت ہی سہانی ہوتی ہیں۔ ہم بچے سب پریشانیوں سے دور صرف اپنی دنیا میں کھوئے رہتے ہیں اور زندگی کے ہر پل کا مزہ لیتے ہیں۔ ہمیں گرمی کی چھٹیوں کا انتظار رہتا تھا کہ کب گرمی کی چھٹیاں ہوں اور ہم کہیں گھومنے جائیں۔ گرمی کی چھٹیوں سے پہلے ہی ہم امی ابو کے ساتھ پلان بنا لیتے اور اپنی فرمائشیں بھی بتا دیا کرتے۔پھر ہم سب گھومنے جاتے اور بہت مزہ کرتے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنی خالہ کے گھر جاتے اور وہاں ہم سب بہنیں سائیکل کرایہ پر لے کر چلاتیں۔ گرمی کی چھٹیوں میں ہم سب بہت سارا گولا کھاتے وہ بھی سیکرین والا۔ دن کے وقت ٹی وی سے وی سی آر جوڑ کر ویڈیو کیسٹ پر نئی نئی فلمیں دیکھا کرتے اور شام کے وقت ہم ساری بہنیں آؤٹ ڈور گیمز کھیلا کرتیں۔ آج ہمارے بچوں کو بھی گرمی کی تعطیلات ملتی ہیں لیکن ہمارے بچپن کی چھٹیاں زیادہ دلچسپ ہوا کرتی تھیں۔
صدف الیاس شیخ (تلوجہ)
ابّا بائنڈنگ کرکے نئی کاپیاں تیار کرکے دیتے تھے


بچپن کی ہر گرمائی تعطیل الحمدللہ بہت بہترین گزرتی تھیں۔ لیکن ہر گرمائی تعطیل میں ایک بات کی یکسانیت تھی کہ جیسے ہی اسکول کے امتحانات ختم ہوتے دو چار روز بعد ہمارے والدین کا فرمان جاری ہو جاتا کہ سال بھر استعمال کے بعد کاپی میں جو صاف ستھرے صفحات بچے ہیں انہیں نکال لیا جائے۔ پھر ان صفحات کو جوڑ کر ہمارے ابو جان خود بائنڈنگ کرکے نئی کاپی تیار کرتے۔ اس طرح ۳۰۰؍ سے ۴۰۰؍ صفحات کی نئی کاپیاں ہمیں مل جاتی۔ نئی کاپیاں ملنے کی الگ ہی خوشی ہوتی۔ ان کاپیوں کا استعمال ایک صفحہ روزانہ لکھنے کے لئے کرنا ہوتا تھا۔ اس سے یہ فائدے ہوئے کہ تحریر میں خوبصورتی آئی۔ اسکول کی کتابوں سے اسباق لکھتے اکتاہٹ ہوتی تو امی کہانیاں یا دینی معلومات یا قصاص لکھنے کا مشورہ دیتیں جس سے خوبصورت لکھاوٹ کے علاوہ تحریری صلاحیت بھی کچھ حد تک پروان چڑھی۔
صبا پروین محمد عقیل (شیواجی نگر، گوونڈی، ممبئی)
جھیل کی سیر اور مگرمچھ کا خوف
گرمیوں کی چھٹیوں میں گھر والے ہمیشہ گھومنے کا منصوبہ بناتے تھے۔ امتحانات ختم ہوتے ہی یہ طے ہو جاتا تھا کہ اس بار کہاں جانا ہے؟ مجھے اور میرے بھائی بہنوں کو ساحل کی تفریح کرنا بے حد پسند تھا اس لئے ہمیشہ سمندر کنارے جانے کا پروگرام بنایا جاتا تھا۔ مَیں اپنی فیملی کے ساتھ چاند شاہ ولی، ارن، علی باغ اور مروڈ جنجیرہ گھومنے کے لئے گئی ہوں۔ ایک مرتبہ مجھے یاد ہے کہ ہم چاند شاہ ولی گئے تھے۔ ہم سبھی بھائی بہن جھیل کے کنارے موجود پتھروں پر بیٹھے تھے۔ ہم نے سن رکھا تھا کہ وہاں مگرمچھ ہوتے تھے۔ میرے بڑے بھائی کو مذاق سجھا اور اس نے پانی میں جاکر نیچے سے میرے پیر گھسیٹ لئے، اس کے بعد مَیں زور زور سے مگرمچھ آیا.... مگرمچھ آیا.... چلانے لگی۔ یہ سنتے ہی میرے ساتھ موجود سارے بھائی بہن بھاگ گئے۔ تھوڑی دیر بعد معاملہ سمجھ میں آیا کہ یہ میرے بڑے بھائی کی شرارت تھی۔ اس کے بعد سے سبھی میرا مذاق اڑایا کرتے ہیں۔ آج بھی وہ دن یاد کرتے ہیں اور سبھی مجھے ’’ڈرپوک‘‘ کہتے ہیں۔ مجھے بھی اپنی نادانی پر ہنسی آتی ہے۔
مومن روزمین (کوٹر گیٹ، بھیونڈی)
گرمی کی تعطیلات اور جلوس


ہمارے یہاں موسم گرما تقریباً چار مہینوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس میں اسکول اور کالج کی طویل چھٹیاں بھی ہوتی ہیں۔ بچپن میں ہم لوگ ان چھٹیوں کا بیشتر حصہ اپنے اور والدہ کے ننھیال میں گزارتے تھے۔ والدہ کے ننھیال میں عاشورہ (دسویں محرم) کا جلوس بڑی دھوم دھام سے نکلتا تھا۔ لہٰذا ہم وہاں زیادہ وقت گزارنے کو ترجیح دیتے تھے۔ واضح رہے کہ وہاں ان دنوں جلوس میں نوجوانوں کے ذریعے کرتب بھی دکھائے جاتے تھے۔ ایک حویلی کے پاس میدان تھا، وہاں کرتب کیلئے جلوس کافی دیر رکتا تھا۔ میں اپنی سہیلیوں کیساتھ اس حویلی کی چھت پر چڑھ کر جالیدار منڈیروں سے ان مناظر کو دیکھتے ہوئے خوب لطف اندوز ہوتی۔ میری سہیلیاں مذاق میں کہتیں کہ تیری شادی اسی گھر میں کرا دیں تاکہ تو جی بھر کر جلوس سے لطف اندوز ہو سکے۔ اللہ کی قدرت! نہ جانے کس سہیلی کی دعا قبول ہو گئی کہ میں اسی گھر میں بہو بن کر آ گئی۔
پروین افتخار (نزد ہندوستانی مسجد، بھیونڈی)
گھومنے کیلئے گھر کا بنا کھانا لے جاتے تھے


بچپن کی یادیں جب بھی ذہن میں آتی ہیں دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔ میں ایک بڑی فیملی سے ہوں جس میں بھائی بہنوں ماں باپ کے علاوہ پڑوسیوں کا خوب ساتھ رہا۔ پڑوسیوں کے ساتھ کھانا پینا بانٹنا، گھومنے جانا، خریداری، فلم دیکھنا بھی شامل ہے۔ ہمارے صبح کے ناشتے میں کوئی پڑوسی کا ہونا ضروری تھا اِس سے سمجھئے کہ پورے دن کا کیا حال ہوگا۔ میرے بچپن کی موسم ِ گرما کی تعطیل میں ہم اپنے پڑوسیوں کے ساتھ یا اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ کبھی سمندر کے کنارے يا کبھی حاجی علی درگاہ یا کبھی گیٹ وے آف انڈیا یا آرے گارڈن یا چاند شاہ ولی درگاہ گھومنے جاتے تو گھر ہی سے بریانی یا پلاؤ بناکر لے جاتے، وہیں کھاتے اور خوب کھیلتے تھے۔ ہمیں گرمی کا احساس بھی نہیں ہوتا تھا اتنا مزہ کرتے تھے۔ بچپن کے دن بھی کیا دن تھے، دل کو خوش کر دینے والے لمحات آج بھی ذہن کو ترو تازہ کر دیتے ہیں۔
شاہدہ وارثیہ  (وسئی، پال گھر)

women Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK