Inquilab Logo

سب سے بڑا مسئلہ، کیا کہیں گے ’لوگ‘ مگر یہ ’لوگ‘ کون ہیں؟

Updated: January 14, 2020, 9:40 AM IST | Priyanka Kubra

سب اپنی زندگی میں الجھے ہیں، پریشان ہیں۔ ان سے ابھرنے کی کوشش کر رہے ہیں.... صبح سے رات تک.... دن سے سال تک۔ ایسے میں کیا سوچیں گے وہ آپ کے بارے میں! انہیں فرصت کہاں؟ مگر یہ ’لوگ‘ ہیں کون؟ ذرا سوچئے، ذرا روکیں اور بات کریں اپنے آپ سے۔

علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

کبھی سوچا ہے؟ کون ہیں وہ ’لوگ‘ جن کے کچھ بولنے سے ہم اتنا ڈرتے ہیں؟ لوگ کیا کہیں گے، یہ سوچ سوچ کر زندگی بھر ہم اپنی خواہشوں کا گلا گھونٹتے رہتے ہیں۔ ایسے کپڑے مت پہننا، لوگ کیا کہیں گے؟ یہ کام مت کرنا، لوگ کیا کہیں گے؟ ان کے ساتھ مت ہنسنا بولنا، لوگ کیا کہیں گے؟ دعوت نہیں دی، لوگ کیا کہیں گے؟ لفافے میں صرف ۱۰۰؍ روپے دیئے، لوگ کیا کہیں گے؟ ارے! بس کرو بس! کان پک گئے سن سن کر یہ الٹے سیدھے سوال! کیا ہے یہ سب! کیوں کر رہے ہیں ہم یہ سب؟ اپنی ہی خواہشوں کو دبا رہے ہیں۔ خود کے ہی خوابوں کو چھین رہے ہیں؟ خود ہی خود کی اڑان کو روک رہے ہیں؟ کیوں اپنے دکھ پر پردہ ڈال کر دکھاوا کر رہے ہیں؟ یہ ’لوگ‘ ہیں کون؟ ذرا سوچئے، ذرا روکیں اور بات کریں اپنے آپ سے۔ یہ ’لوگ‘ ہم ہی تو ہیں۔ ہاں! دوسروں کیلئے ہم ’لوگ‘ ہیں اور ہمارے لئے دوسرے۔ چلو ذرا اس طرح سوچیں۔ آپ کے سامنے جو پڑوسی رہتے ہیں، جی ہاں! مَیں آپ ہی سے کہہ رہی ہوں۔ آپ کے سامنے جو پڑوسی رہتے ہیں ناں خان صاحب، انور صاحب، شیخ صاحب یا صدیقی جی جو بھی ہیں، مان لو ان کے کاروبار میں بڑا نقصان ہوا۔ اب پیسے کی بہت تنگی ہے۔ مگر وہ یہ خلاصہ ہونے دینا نہیں چاہتے اور ویسی ہی دکھاوے کی زندگی جی رہے ہیں کیونکہ پتہ نہیں آپ کیا کہیں گے۔
 اب آپ ہی بتایئے آپ کو کیا فکر ہے ان کے کاروبار کی! آپ کے تو خود کے کاروبار کی حالت بری ہے، لیکن آپ بھی تو انہیں کی طرح ہیں۔ اندر سے کھوکھلے ہو رہے ہیں لیکن اوپر اتنا دکھاوا کی پوچھئے ہی مت۔
 لو، جی! دونوں زندگیوں کو آسان بنایا جاسکتا ہے، تھوڑی سی سمجھ سے! لیکن نہیں، حل کے بجائے ماتھے پر اور بل پڑ گئے۔
 ایک خاتون کے شوہر کا کوئی کام شروع نہیں ہو پا رہا تھا جبکہ وہ لوگ اچھی خاصی جائیداد کے مالک تھے۔ سب باپ دادا کا کمایا سب اڑا دیا۔ چلو کوئی بات نہیں، اب بھی دیر نہیں ہوئی۔ اب کچھ کام کر لو، مگر نہیں! انہیں تو اپنے اسٹینڈرڈ سے زیادہ محبت ہے۔ یہ سوچ جو درمیان میں حائل ہے، اس کا کیا کریں؟ کون سی سوچ بہنو! یہی کہ لوگ کیا کہیں گے؟ اب انہیں کون سمجھائے کہ کام سے اسٹینڈرڈ بنایا جاتا ہے نہ کہ جھوٹی شان سے۔
 سیدھی سی بات ہے۔ سب اپنی زندگی میں الجھے ہیں، پریشان ہیں۔ ان سے ابھرنے کی کوشش کر رہے ہیں.... صبح سے رات تک.... دن سے سال تک۔ ایسے میں کیا سوچیں گے وہ آپ کے بارے میں! انہیں فرصت کہاں؟ اور جو خاندان خوش ہیں اپنی زندگی میں، وہ زندگی کی ان خوشیوں کا لطف اٹھانے میں ایسے مگن ہیں کہ انہیں آپ کی پرابلم کے بارے میں سوچنے کا وقت ہی نہیں۔
 چلئے ایک اور مثال لیجئے۔ آپ کو ایک شادی میں جانا ہے۔ آپ تو ہیں درمیانی طبقے سے لیکن شادی اونچے طبقے کے رشتہ دار کی ہے۔ اب وہاں شریک ہونے کے لئے اچھے کپڑے، سینڈل، جویلری اور میک اپ چاہئے۔ ساتھ ہی ساتھ گفٹ بھی اچھا ہونا چاہئے۔ ایسا ویسا تو چلے گا نہیں، نہیں تو ’لوگ‘ کیا کہیں گے! ٹھیک ہے! تو آپ نے اپنی جیب کاٹ کے، من مسوس کے سب خرید لائی اور شادی میں شامل ہوگئی۔ پھر.... اس سے کیا ہوا؟ کیا آپ کے کپڑوں پر کسی کا دھیان گیا؟ کیا کسی نے آپ کی میچنگ جویلری اور قیمتی سینڈل دیکھی؟ ہاں! دیکھا ناں، آپ نے خود نے! کیونکہ باقی سارے بھی تو یہی کر رہے تھے، اپنے خود کے مہنگے کپڑے، جویلری دکھانے کی کوشش۔ آپ تقریب میں یہ سوچ رہے تھے کہ شاید سب مجھے دیکھ رہے ہیں اور باقی سب بھی یہی سوچ کر ادھر اُدھر دیکھ رہے تھے کہ انہیں کون کون دیکھ رہا ہے۔ اسے کہتے ہیں ’سیلف آبسیشن‘۔ ہم اپنے آپ کو اتنا چاہتے ہیں کہ اپنی تضحیک یا نیچا دکھانا ذرا بھی برداشت نہیں اور اس لئے کچھ ایسا نہیں کرتے جس سے لوگ کچھ کہیں۔
 سب کو ایسا ہی جینا ہے۔ ایسی ہی عادت ہوگئی ہے ہمیں۔ مگر بس ایک بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے، یہ سماج ہم ہی سے بنا ہے۔ ہم ہی ہیں وہ ’لوگ‘ جن سے سب ’لوگ‘ ڈرتے ہیں اور ہمیں یہ اچھے سے معلوم ہے کہ اگر کوئی اپنے من کی کرنا چاہے تو ہم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، کیونکہ اس وقت ہم یہ سوچ کر روک جاتے ہیں، ’’چھوڑیئے، ہمیں کیا پڑی ہے۔ اب لوگوں کو تو اپنے حساب سے چلا نہیں سکتے۔ ہم میں اتنی ہمت کہاں!‘‘ تو، لو جی! گھوم پھر کر بات وہیں پہنچتی ہیں کہ ایک ہی زندگی ہے، جی لو جی بھر کے! لوگ کچھ نہیں کہتے! صرف ہم ہی سوچتے ہیں۔ اور اگر لوگ کچھ کہیں تو یاد رکھیں ہم بھی تو ’لوگوں‘ میں ہی ہیں، واپس کہہ سکتے ہیں۔ کیوں صحیح کہا ناں؟ اس لئے آئندہ یہ سوچئے ہی نہیں کہ ’لوگ‘ کیا کہیں گے؟ بلکہ جو آپ کو درست لگتا ہے اس پر عمل کریں کیونکہ دکھاوے کی زندگی سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK