• Tue, 16 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کنٹرولنگ پیرنٹ: ایک خطرناک رویہ

Updated: June 14, 2023, 10:55 AM IST | Alizey Najaf | Mumbai

والدین کا بچوں کے رویوں کو کنٹرول کرنے کا مطلب ہے کہ وہ بچوں کی سوچ، عمل یا فیصلے پر قابو پانا چاہتے ہیں یہ غالباً ایک انتہائی ناقص اور غیر ممکن العمل کوشش ثابت ہوتی ہے کیونکہ ہر انسان اپنے اصول، تجربات اور زندگی کی ترجیحات کے مطابق سوچتا ہے۔

Children`s abilities to control their behavior are affected.
بچوں کے رویے کو کنٹرول کرنے کی وجہ سے ان کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔

والدین کا بچوں کے رویے کو کنٹرول کرنا ایک مشکل اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ ماں باپ کا بچوں کے رویوں کو کنٹرول کرنے کا مطلب ہے کہ وہ بچوں کی سوچ، عمل یا فیصلے پر قابو پانا چاہتے ہیں۔ یہ غالباً ایک انتہائی ناقص اور غیر ممکن العمل کوشش ثابت ہوتی ہے کیونکہ ہر انسان اپنے اصول، تجربات اور زندگی کی ترجیحات کے مطابق سوچتا ہے۔ اس طرح بچہ بھی وقت گزرنے کے ساتھ اس آزادی کے استعمال کا مستحق ہے۔
 اس حوالے سے سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ والدین جو اپنے بچوں کے سب سے بڑے خیر خواہ ہوتے ہیں آخر وہ اپنے بچوں کے ساتھ ایسی زیادتی کیوں کر جاتے ہیں؟ کیا وہ اپنی ان غلطیوں کا شعور رکھتے ہیں یا محبت کے نام پہ انہیں حد سے زیادہ سیکوریٹی (تحفظ) دینے کی خواہش میں وہ ایسا کر جاتے ہیں؟ آئیے اس کے جواب میں ہم والدین کی بنیادی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ والدین کی اولاد کے تئیں محبت اور خلوص پہ شک نہیں کیا جا سکتا، بچے ان کی آرزو اور جستجو کا محور ہوتے ہیں، بچے جب چھوٹے اور نا سمجھ ہوتے ہیں تو ماں باپ انہیں نہ صرف بولنا اور چلنا سکھاتے ہیں بلکہ انہیں یہ بھی سکھاتے ہیں کہ کس موقع پر انہیں کس طرح پیش آنا ہے۔ انہیں صحیح عادات و اطوار سکھاتے ہوئے غلط رویوں سے بھی بچانے کی کوشش کرتے ہیں یہ ان کی ذمےداریوں میں شامل ہوتا ہے۔ بے شک یہ والدین کی وہ قربانی ہے جو انہیں تمام رشتوں سے ممتاز کرتی ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کسی حد یا باؤنڈری کا دھیان رکھے بغیر بچوں کے ہر فیصلے یا سوچ کو کنٹرول کرنا شروع کردیں۔ ابتدائی مرحلے میں بچے والدین پہ مکمل طور سے انحصار کرتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ جیسے جیسے ان کی سمجھ کی نشوونما ہوتی ہے تو وہ اپنی صلاحیت کو بروئے کار لانے کی لاشعوری طور پہ جدوجہد کرتے ہیں۔ ’’کنٹرولنگ‘‘ کی وجہ سے بچے کی قوت فکر متاثر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ والدین بچوں کو غلط چیزوں سے روکتے ہیں لیکن ان کا سامنا کرنے اور ان کے منفی نتائج سے متعلق ان سے بات نہیں کرتے اس کی وجہ سے وہ ہمیشہ ان عادتوں کے حوالے سے متجسس رہتے ہیں، انجانے میں اسے کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
 نفسیاتی رسالے فرنٹیئر سائیکلوجی کے ایک مضمون کے مطابق امریکی سائنسدانوں نے چھ برس کی عمر کے ۷۰؍ بچوں پر کئے جانے والے ایک مطالعے کے نتیجے سے اخذ کیا ہے کہ والدین کا ضرورت سے زیادہ بچوں کو مرضی کے تابع رکھنے کا رویہ بچوں کی دماغی نشوونما کو متاثر کر سکتا ہے۔ جبکہ ایسی مائیں بچوں میں شعور اور آگاہی پیدا کرنے کے حوالے سے مددگار ثابت نہیں ہوتی ہیں۔ یہی بچے جب بڑے ہوتے ہیں اور عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں اس وقت ان کی شخصیت میں کسی خاص سمت میں معلق ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔
 ایسے میں یہ سوال پیدا ہونا فطری ہے کہ والدین کس طرح خود کو ’’کنٹرولنگ پیرنٹ‘‘ بننے سے روکیں یا پھر وہ کس طرح اپنے بچوں کی تربیت میں ایک مثبت مربی کا کردار ادا کریں۔ میں یہاں پہ خلیل جبران کا ایک اقتباس کا حوالہ دینا چاہوں گی جو انہوں نے بچوں کی تربیت کے حوالے سے اپنے ناول النبی میں لکھا ہے:
 ’’تمہارے بچے تمہارے نہیں ہیں۔ یہ زندگی کی امانت ہیں۔ انہیں اپنی محبت دو مگر اپنے خیالات نہ دو کیونکہ اِن کے اپنے خیالات ہوتے ہیں۔ تم اِن کے جسموں کا خیال رکھ سکتے ہو اِن کی روحوں کا نہیں کیونکہ ان کی روحیں آنے والے کل کے مکانوں میں رہتی ہیں جہاں تمہاری رسائی ممکن نہیں۔‘‘
 بے شک والدین کو چاہئے کہ وہ بچوں پہ اپنی مرضی مسلط کرنے کے بجائے انہیں سوچنے کا سلیقہ سکھائیں۔ فیصلہ سازی کے ہنر سے روشناس کروائیں۔ فیصلوں کے غلط ثابت ہونے پہ انہیں صد فیصد ذمےداری قبول کرنے کا حوصلہ دیں۔ غلطیوں سے سیکھنے کی صلاحیت کو اجاگر کریں جس کے ذریعے ان کے شعور کی نشوونما کو ممکن بنایا جا سکے۔ اگر وہ غلط راستوں پہ چلنے پہ بضد ہوں تو ان پہ پابندیاں عائد کرنے سے پہلے انہیں عقلی طور سے اس کے منفی اثرات سے آگاہ کریں۔ ان کو یقین دلائیں کہ آپ ان کے بہی خواہ ہیں۔ پابندیاں کبھی بھی کارگر حل نہیں ہوتیں، اس لئے اس سے حتی المقدور گریز کریں۔ بچوں کو اپنا پابند بنانے پہ توجہ دینے کے بجائے ان سے اپنے تعلقات کو بہتر بنانے پہ دھیان دیں، اس طرح کمی و زیادتی ہونے کی صورت میں بروقت اس کا ازالہ ممکن ہوتا ہے، بات چیت کا عمل جاری رہتا ہے۔ انہیں ایک اچھا انسان بننے کی ترغیب دیں پھر وہ اپنے طے شدہ مادی شعبوں کی کامیابی کو ازخود حاصل کرلے گا۔
 ان کو غیر مشروط محبت کا احساس دلائیں، اگر اسے اپنا قیمتی اثاثہ سمجھتے ہیں تو انہیں اس بات کا احساس بھی دلائیں، انہیں یہ بتائیں کہ آپ ان کے لئے کتنے اہم ہو، خود کے لئے ان کے اندر اہم ہونے کا جذبہ پیدا کریں۔

women Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK