سی اے امتحان میں بھیونڈی کے ہونہار نوجوان نے اردو کا پرچم بلندکیا،مشکل سمجھنے والے اس امتحان کو کامیاب کرنیوالے مدثرذاکر حسین مومن سے خصوصی گفتگو
EPAPER
Updated: February 16, 2022, 11:30 AM IST | Momin Fahim Ahmad Abdul Bari | Mumbai
سی اے امتحان میں بھیونڈی کے ہونہار نوجوان نے اردو کا پرچم بلندکیا،مشکل سمجھنے والے اس امتحان کو کامیاب کرنیوالے مدثرذاکر حسین مومن سے خصوصی گفتگو
آج ہم آپ کی ملاقات ایک ایسے ہونہار نوجوان سے کرارہے ہیں جس نےسی اے امتحان میں شاندار کامیابی حاصل کرکے بھیونڈی کے ساتھ ساتھ اردو ذریعہ تعلیم کا پرچم بھی بلند کیا ہے۔ مدثر ذاکر حسین مومن ، بھیونڈی کے سی اے کامیاب ۱۲؍ طلبہ میں اردو میڈیم کاواحد کامیاب مسلم طالب علم ہے۔ مدثر سےگفتگو کے اہم اقتباسات درج ذیل ہیں۔
-اپنے اور خاندان کے بارے میں کچھ بتائیے۔
مدثر مومن: جی میں ایک متوسط خاندان سے تعلق رکھتا ہوں۔ بنیادی طور پر ہمارا تعلق بھیونڈی کی بنکر برادری سے ہے اور شہر میں ’رچھ والا‘ کے نام سے ہمارا خاندان مشہور ہے۔ پاورلوم صنعت کے حالات جب اچھے تھے تو میرے دادا حاجی محمد یونس رچھ والے نے اپنے بچوں یعنی میرے والد اور دیگر چچا کی مناسب تعلیم کا نظم کیا اور شاید یہی وجہ تھی کہ میرے والد کاانہوں نے شہر کے معروف انگریزی میڈیم اسکول میں داخلہ کروایا۔ لیکن میرے والد نے ہم دو بھائیوں اور ایک بہن کو اردو میڈیم میں داخل کروایا اور الحمد للہ ہم تینوں نے شعبہ کامرس سے ہی تعلیم حاصل کی۔ میرے والدبی کام تک تعلیم حاصل کرچکے ہیں والدہ خاتونِ خانہ ہیں، بڑے بھائی ایک تجارتی فرم میں اکائونٹنٹ ہیں اور چھوٹی بہن نے بھی کامرس میں ماسٹرس کیا ہے۔
- اپنے تعلیمی سفر سے متعلق قارئین کو بتائیے۔
مدثر مومن: میں نے اپنی ابتدائی تعلیم کوکن مسلم ایجوکیشن سوسائٹیز اردو پرائمری اسکول سے حاصل کی ہے ۔ پنجم تا دہم تک تعلیم صمدیہ ہائی اسکول ، جونیئر کالج (۱۱-۱۲؍ویں ) کی تعلیم رئیس ہائی اسکول و جونیئر کالج سے حاصل کی۔ بارہویں تک مکمل تعلیم اردو میڈیم سے حاصل کی۔ بی کام صمدیہ کالج آف آرٹس و کامرس ، ایم کام ممبئی یونیورسٹی کے فاصلاتی طرز پر اور ’آئی سی اے آئی‘ سے چارٹرڈ اکائونٹنسی (سی اے) کا امتحان کامیاب کیا۔
- کہا جاتا ہے کہ سی اے اردو میڈیم کے طلبہ کیلئے ایک مشکل کورس ہے، آپ کی کیا رائے ؟
مدثر مومن: کورس کوئی بھی مشکل نہیں ہوتا اور میڈیم کبھی بھی کسی کورس کی کامیابی میں حائل نہیں ہوتا۔ میں آٹھویں میں تھا تب پہلی بار اس کورس کے بارے میں سنا تھا۔ والد اور اہل خانہ جو شعبہ کامرس سے وابستہ رہے ، انہوں نے ابتدائی دنوں سے ہی میری اس نہج پر رہنمائی کی اور خصوصی طور پر انگریزی میں استعداد پیدا کرنے کی تلقین کی۔ جونیئر کالج میں کامرس کے اساتذہ نے بھی اکائونٹس کے بنیادی تصورات کو سمجھنے میں بہت مدد کی۔ انگریزی کیلئے میں دسویں سے ہی اضافی محنت کرتا رہا، میں نے بارہویں کی انگریزی کی کتاب کے تمام مشکل الفاظ کے معنیٰ کی ایک بیاض بھی تیار کی تھی جس سے بعد کے طلبہ نے بھی استفادہ کیا۔ اردو میڈیم کا طالب علم ہونے کی بناء پر ہمیشہ انگریزی میں محنت زیادہ کرنے کی عادت سی بن گئی جو بعد میں میرے لئے بہت کارآمد ثابت ہوئی۔ دورانِ گریجویشن کالج کی ثقافتی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا اور اپنی مادری زبان (اردو) کو بھی ہمیشہ بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی کی بھی اچھی خاصی شد بد ہوگئی۔ اعلیٰ تعلیم کا میڈیم ہمارے ملک میں بیشتر انگریزی ہی ہے اسلئے اردو میڈیم یا غیر انگریزی میڈیم طلبہ کو ابتداء سے ہی انگریزی پر اضافی محنت کرنی چاہیے۔
-اس کورس کے خدو خال کیا ہیں؟
مدثر مومن: چارٹرڈ اکائونٹنسی کورس کیلئے کسی فیکلٹی کی کوئی قید نہیں ہے۔ چونکہ اس کا تعلق شعبہ کامرس سے ہے اس لئے کامرس کے طلبہ کیلئے یہ انتہائی اہم اور کامرس کا اعلیٰ ترین کورس مانا جاتا ہے۔ دسویں، بارہویں اور گریجویشن کبھی بھی اسکی تیاری کی جاسکتی ہے۔ ۳؍ مرحلوں ، سی پی ٹی (کامن پروفیشینسی ٹیسٹ) جسے فائونڈیشن کورس کہا جاتا ہے، انٹر میڈیٹ اور فائنل ۔ اسکے علاوہ فائنل امتحان میں شریک ہونے سے قبل امیدوار کو کسی پریکٹسنگ چارٹرڈ اکائونٹنٹ کے زیر نگرانی ۳؍ سال کی آرٹیکل شپ بھی مکمل کرنی ہوتی ہے اس کے علاوہ ۶۰؍ گھنٹوں پر مشتمل انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کی تربیت بھی حاصل کرنا ہوتی ہے۔ یہ مکمل کورس انسٹی آئی سی اے آئی کے زیر نگرانی ہوتا ہے۔ کوئی مخصوص کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لینا پڑتا بلکہ ہر مرحلے کیلئے رجسٹریشن کرنا ہوتا ہے اور طالبعلم یا توسیلف اسٹڈی پھر پرائیویٹ کوچنگ کے ذریعے ہر مرحلے کی تیاری کرسکتا ہے۔ فائونڈیشن کورس میں ۴؍ پرچے، انٹر میڈیٹ کے ۲؍ گروپ ہر گروپ میں ۴؍، ۴؍ پرچے اور فائنل کے ۲؍ گروپ میں ہر گروپ میں ۴-۴؍پرچے ہوتے ہیں۔ فائونڈیشن کے تمام پرچوں کو تو ایک ساتھ ہی کامیاب کرنا ضروری ہے۔ طالب علم اپنی سہولت کے مطابق انٹر اور فائنل کے ہر گروپ کا الگ الگ امتحان دے سکتا ہے۔ فائنل امتحان میں شرکت سے قبل ۳؍ سال کی آرٹیکل شپ مکمل کرنا لازمی ہے ۔
-آپ کی کامیابی میں اہل خانہ کا کتنا رول رہا ؟
مدثر مومن: الحمد للہ ! اس معاملے میں مجھے ہمیشہ اپنے گھر والوں خصوصاً والد، والدہ ، بھائی اور بہن کا مکمل تعاون حاصل رہا۔ دوران تعلیم میرے مرحوم پھوپھا کی بھرپور رہنمائی اور خصوصی توجہ حاصل رہی۔ کئی مرتبہ امتحان میں ناکامی بھی ہاتھ آئی لیکن گھر والوں نے ہمیشہ حوصلہ بڑھایا۔ ایک مرحلہ تو ایسا بھی آیا کہ فائنل میں ناکامی کے بعد میں نے کورس چھوڑنے کا ارادہ کیا لیکن والد کی حوصلہ افزائی اور والدہ کی دعائوں کا ثمرہ ہے کہ اگلی کوشش میں کامیابی ملی۔ دوران تعلیم ہائی اسکول، جونیئر کالج اور ڈگری کالج کے اساتذہ نے بھی ہمیشہ حوصلہ افزائی اور رہنمائی کی۔
-سی اے کرنے کے متمنی طلبہ کیلئے کیا کہنا چاہیں گے؟
مدثر:کسی بھی امتحان میں کامیابی کیلئے جہدمسلسل اولین شرط ہے۔ جس طرح اعلیٰ سرکاری عہدوں پر پہنچنے کیلئے سول سروس امتحان ملک کا مشکل ترین امتحان ہے اسی طرح نجی شعبوں میں سی اے کو مشکل کورس مانا جاتا ہے۔ کیونکہ اس میں دسویں، بارہویں کے مارکس یاگریجویشن کے گریڈسے زیادہ فائونڈیشن، انٹر اور فائنل امتحانات کے پرچوں میں مارکس کی اہمیت ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں سی اے کی مانگ آج بھی بہت زیادہ ہے جبکہ ان کی تعداد بہت کم ہے اس کے علاوہ بیرون ملک میں ہندوستان سے کامیاب ہونے والے سی اے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس شعبہ میں وسیع مواقع ہیں اور ہمارے طلبہ کو خواہ کسی بھی میڈیم کے ہوں اگر ان کا رجحان کامرس شعبہ کا ہو تو ضرور چارٹرڈ اکائونٹنٹسی کا رخ کرنا چاہیے۔ اپنا ہدف طے کریں، بارہویں کے بعد سے ہی آغاز کردیں اور فائونڈیشن کے ساتھ گریجویشن کی تیاری شروع کریں۔ کامرس اسٹریم میں اپنا سی اے کا سفر جاری رکھیں ، اس سے ’سبجیکٹ نالج ‘ میں اضافہ ہوگا اور ایک متبادل کریئر کی راہ بھی ہوگی۔ سی اے کورس میں کامیابی کی ایک ہی شرط ہے کہ طالبعلم سخت محنت کو اپنا وطیرہ بنالے۔