کہتے ہیں منزل تک وہی پہنچتے ہیں جن میں جذبہ اور لگن ہوتی ہے۔ منزل تک پہنچنا آسان نہیں۔ اکثر ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی ہمت ٹوٹنے لگتی ہے لیکن جو شخص جہد مسلسل کرتا ہے، وہ اپنی منزل تک ضرور پہنچتا ہے۔
EPAPER
Updated: March 08, 2023, 9:42 AM IST | saima shaikh | Mumbai
کہتے ہیں منزل تک وہی پہنچتے ہیں جن میں جذبہ اور لگن ہوتی ہے۔ منزل تک پہنچنا آسان نہیں۔ اکثر ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی ہمت ٹوٹنے لگتی ہے لیکن جو شخص جہد مسلسل کرتا ہے، وہ اپنی منزل تک ضرور پہنچتا ہے۔
کہتے ہیں منزل تک وہی پہنچتے ہیں جن میں جذبہ اور لگن ہوتی ہے۔ منزل تک پہنچنا آسان نہیں۔ اکثر ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی ہمت ٹوٹنے لگتی ہے لیکن جو شخص جہد مسلسل کرتا ہے، وہ اپنی منزل تک ضرور پہنچتا ہے۔ اس بات کو ۲؍ بہنیں سجاتا اور تانیہ بسواس نے سچ ثابت کر دکھایا ہے۔ دونوں ’’سُتا‘‘ (SUTA) کمپنی کی بانی ہیں۔ انہوں نے صفر سے اپنا سفر شروع کیا تھا اور آج ’’سوت‘‘ ایک برانڈ بن گیا ہے۔ سجاتا اور تانیہ کا یہ سفر جاننے کیلئے انقلاب نے ان سے بات چیت کی:
کاروبار شروع کرنے کا خیال کیسے آیا؟
والد ریلوے میں ملازمت کرتے تھے جس کی وجہ سے ہم مختلف شہروں میں منتقل ہوتے رہتے تھے۔ اس دوران ہمیں مشرقی ہندوستان جیسے بہار، ادیشہ اور مغربی بنگال میں رہنے کا موقع ملا۔ بچپن ہی سے ہمیں ہینڈ میڈ (ہاتھوں سے بنی) چیزوں کا بہت شوق تھا۔ اس دوران ہماری پڑھائی جاری رہی۔ مَیں (سجاتا) اور تانیہ، نے ایم بی اے اور انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے۔ اس کے بعد کارپوریٹ کمپنی میں جاب کرنے لگے۔ کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد احساس ہوا کہ یہ وہ کام نہیں ہے، جو ہم کرنا چاہتے ہیں۔ پھر ہم اپنا کام شروع کرنے کے بارے میں سوچنے لگیں۔ اس دوران ہم نے مختلف انڈسٹریز سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بات چیت کی۔ ہمیں فیبرک انڈسٹری سے متعلق کاروبار بہت پسند آیا اور ہم نے یہی کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ چونکہ ہمیں ہاتھوں سےبنی ہوئی (ہینڈ میڈ) اشیاء کا شوق تھا اس لئے ہم نے ہاتھوں سے بنی ساڑیوں کا کاروبار شروع کیا۔
برانڈ کا نام ’’سُتا‘‘ کیوں رکھا؟
ہم بہنوں نے اپنے نام یعنی سجاتا کا ’سو‘اور تانیہ کا ’تا‘ لفظ ملادیا۔ سنسکرت لفظ ’’سُتا‘‘ کا مطلب ہے رُوئی یا اُون سے کاتا ہوا دھاگا۔ یہ نام ہمیں اپنے برانڈ کے لئے مناسب لگا۔ یہ لفظ ہمارے برانڈ کی عکاسی بھی کرتا ہے۔
۲۰۱۶ء میں ’’سُتا‘‘ (SUTA) کی شروعات کی
بچپن میں گرمی کی چھٹیوں میں گاؤں جاتے تھے تو وہاں سب کو ساڑی پہنے دیکھا کرتے تھے۔ ساڑیاں ہمیں بہت اچھی لگتی تھیں۔ چھت پر نانی کی ساڑیاں سکھا کرتی تھیں، کھیل کے دوران جب ہم ان ساڑیوں کو چھوتی تھیں تو احساس ہوتا تھا کہ وہ کتنی ملائم ہیں۔ ہمیں بھی ساڑیاں پہننے کا شوق تھا۔ جب بڑی ہوئیں تو احساس ہوا کہ اب وہ نرم اور ملائم ساڑیاں دستیاب نہیں ہیں۔ہاتھوں سے بنی ساڑیوں کا رجحان نہیں ہے۔ اس لئے ہم نے ہینڈ لوم ساڑیوں کا کاروبار شروع کرنے پر غور کیا۔ ابتدا میں کوئی بھی ہمارے ساتھ کام کرنے کے لئےتیار نہیں تھا۔ ہم نے کاریگروں کی بستیوں میں جاکر فرداً فرداً لوگوں سے بات کی۔ بالآخر ایک خاتون بنکر ہمارے ساتھ کام کرنے کیلئے تیار ہوئی۔ اس کے بعد ہم نے ایک اور لڑکی کو اپائنٹ کیا، اس طرح ہم ۴؍ خواتین کے ذریعے ۲۰۱۶ء میں باقاعدہ ’’سُتا‘‘ (SUTA) کمپنی کا آغاز ممبئی میں کیا۔ تقریباً ایک سال تک ہم صرف ۴؍ خواتین محنت کرتی رہیں۔ ہم ساڑیاں بناتی تھیں اور اسے پہن کر تصاویر بھی خود ہی نکالتی تھیں۔ چونکہ فوٹو گرافی ایجنسیاں زیادہ چارج کرتی تھیں اس لئے شروعات میں ہم نے خود ہی تصاویر کھینچیں۔ مختصراً یہ کہ ’’سُتا‘‘ کو ایک برانڈ بنانے کیلئے کافی لمبا سفر طے کرنا پڑا ہے۔ آج ہم دھاگے خرید کر اس سے ساڑیاں بنانے سے لے کر گاہک کے ہاتھوں تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔
اتنا طویل سفر طے کرنا کے بعد کیا محسوس ہوتا ہے؟
ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہم اپنے برانڈ کو اتنی بلندی تک لے جائیں گی۔ یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ لوگوں کو ہماری ساڑیاں اتنی پسند آئیں گی، خاص طور پر نوعمر لڑکیوں نے ہمارے کاروبار کو آگے بڑھانے میں کافی مدد کی۔ انہوں نے ہماری ساڑیوں کو کافی پسند کیا۔ ہمارا سفر بہت خوبصورت رہا اور سب کچھ بہت جلدی ہوگیا۔ فی الحال ہمارا عملہ ۲۰۰؍ اسٹاف، ۱۷؍ ہزار بنکر، ۴؍ اسٹور اور ۴؍ دفاتر پر مشتمل ہے۔ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہم یہ سب اتنی جلدی حاصل کر لیں گی۔ اس دوران ہم نے کبھی اپنے پروڈکٹ کی کوالیٹی سے سمجھوتہ نہیں کیا۔
کاروبار کرتے وقت کبھی ہمت ٹوٹی؟
ہاں بالکل! کئی بار ایسا ہوا ہے۔لگتا تھا کہ سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ مسائل اب بھی ہیں لیکن اب ان سے نمٹنا آگیا ہے۔ ایک مرتبہ ہمارے اسٹال میں آگ لگ گئی تھی۔ مَیں (تانیہ) اور سجاتا اس وقت اسٹال کے پاس ہی کھڑی تھیں۔ اس وقت سجاتا ۶؍ ماہ کے حمل سے تھی۔ ہمارا ۸۰؍ فیصد اسٹاک جل کر خاک ہوگیا۔ ۲؍ سے ۳؍ دن تک تو ہم سوچتے ہی رہے کہ کیا کریں؟ اس وقت محسوس ہو رہا تھا کہ اب سب ختم ہوگیا مگر ہم نے ہمت نہیں ہاری۔ اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ اس کے بعد کووڈ بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت بھی کئی مسائل در پیش تھے۔ خیر، اس وقت تو سبھی پریشان تھے لیکن وہ وقت بھی گزر گیا۔ ان مشکلات سے ہم نے بہت سیکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مشکلات ہی سے معلوم ہوا کہ ہم بہت کچھ کرنے کے قابل ہیں۔ جب مشکلات آتی ہیں تب احساس ہوتا ہے کہ جو لوگ ہمیں طاقت (سپورٹ سسٹم) دیتے ہیں، وہ کتنے اہم ہوتے ہیں، وہ نہ ہوں تو آپ کبھی آگے بڑھ ہی نہیں پائیں۔
گھر اور بچوں کی ذمہ داری کیسے سنبھالتی ہیں؟
ہم دونوں شادی شدہ ہیں اور دونوں کو ایک، ایک بیٹا ہے۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارے پاس ایک اچھا سپورٹ سسٹم ہے۔ مَیں اور سجاتا ایک ہی منزلے پر رہتی ہیں۔ ہمارے والدین اور ساس سسر بھی آس پاس رہتے ہیں۔ والدین، شوہر اور ساس سسر سبھی ہم دونوں کا پوراساتھ دیتے ہیں۔ ہم بہنیں ایک دوسرے کے کام بانٹ لیتی ہیں۔ ایک دوسرے کے بچے کی دیکھ بھال بھی کر لیتی ہیں۔ اس لئے زندگی آسان ہے۔ اگر سپورٹ سسٹم اچھا ہو تو کسی بھی خاتون کیلئے کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ ایک اچھے سپورٹ سسٹم کی وجہ سے ایک خاتون کا ذہن پُرسکون رہتا ہے ورنہ کام کے دوران اس کے ذہن میں گھر کی فکر رہتی ہے اور گھر آنے کے بعد دفتر کی فکر۔
یوم خواتین پر آپ کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
سجاتا کہتی ہیں، ’’ایک اچھا ’’سپورٹ سسٹم‘‘ بنائیں یعنی اپنی زندگی میں ایسے لوگوں کو شامل کریں جوہمیشہ آپ کی مدد کیلئے کھڑے رہیں۔ اکثر خواتین خود پر دباؤ ڈالتی ہیں۔ وہ سب کچھ اچھا کرنا چاہتی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ میرا گھر اور دفتر، دونوں منظم رہیں۔ سب چیز پرفیکٹ رہے۔ کبھی کسی سے مدد نہیں مانگیں گی۔ اس عادت کو تبدیل کریں۔جب بھی آپ کمزور پڑ رہی ہوں تو مدد مانگیں۔ اپنی خوشی کو ترجیح دیں۔ سب کچھ تنہا کرنے کی کوشش نہ کریں۔ غلطیاں ہوں گی ، انہیں خود پر حاوی نہ کریں۔
تانیہ کہتی ہیں، ’’اپنی ترجیحات کو اہمیت دیں اور اپنے خواب پورے کریں۔ اکثر خواتین دوسروں کی ترجیحات پوری کرنے اور مدد کے لئے تیار رہتی ہیں مگر خود کو بالکل فراموش کر دیتی ہیں۔ ایسا بالکل نہ کریں۔ اپنے آپ کو وقت دیں۔ خواتین خواب تو دیکھتی ہیں مگر انہیں مکمل نہیں کر پاتیں،اپنے خواب پورے کرنے کے لئے محنت کریں۔