Inquilab Logo

امتحان کے دوران ماں کے کون سے’’جادوئی جملے‘‘ بچے کیلئے مفید ثابت ہونگے

Updated: March 02, 2023, 10:59 AM IST | Saima Shaikh | Mumbai

گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں

Positive words spoken to children during exams have a good effect on their minds
امتحانات کے دوران بچوں سے کہی گئی مثبت باتیں ان کے ذہن پر اچھا اثر ڈالتی ہے

تمہاری کارکردگی پر ہمیں پورا بھروسہ ہے 


عام طور پر امتحانات کے دوران بچے بہت تناؤ میں رہتے ہیں۔ لہٰذا بچوں کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔ ان کے لئے ایسے جملے استعمال کرنا چاہئے جن سے بچوں کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ مثلاً: ٭ پوری محنت سے امتحان کی تیاری کے لئے کوشش کرو۔ کامیابی اللہ تعالیٰ دیں گے۔ ٭ماشاء اللہ گزشتہ امتحانات میں تمہارے نمبرات بہت اچھے تھے۔ ان شاء اللہ امسال اس سے بہتر نتیجے آئیں گے۔ ٭ وقت کی پابندی کے ساتھ پڑھائی کرو اور اپنے کھانے پینے کا خیال رکھو تاکہ صحت پر کوئی منفی اثرات نہ پڑیں۔  ذہن پر بےجا تناؤ ڈالنے کی ضرورت نہیں۔ تمہاری کارکردگی پر ہمیں پورا بھروسہ ہے اور تم ہمارے لئے باعث ِ افتخار ہو۔
 ایسے مثبت و حوصلہ افزا جملے امتحانات کے دوران بچوں کے لئے مفید ثابت ہوں گے۔                                                    ڈاکٹر شفاء افتخار انصاری (مالیگاؤں، ناسک)
بیٹا! ہم سب تمہارے ساتھ ہیں


حضرت امام شافعیؒ کا قول ہے: ’’اگر تم نے اپنے آپ کو حق کے ساتھ مشغول نہیں کیا تو نفس تمہیں باطل کے ساتھ کردے گا۔‘‘ اس اصول پر خود بھی مضبوطی سے قائم رہیں اور بچوں کو بھی ترغیب دلائیں۔ نماز کا اہتمام کروائیں اور دعاؤں کا اہتمام بھی لازمی ہے۔
 انہیں بتائیں کہ بیٹا آج کی محنت آنے والامستقبل روشنی بن کر تمہارا احاطہ کرے گی۔ سخت ترین محنت ہی واحد راستہ ہے جو آپ کو دوسروں سے ممتاز رکھے گی۔ ماں کو اس کے اندر جوش و ولولہ پیدا کرنا ہوگا۔ ان سے کہیں کہ آپ میں کامیاب ہونے اور سیکھنے کی صلاحیت ہے۔ آپ کو نئے نئے طریقے تلاش کرنا ہے۔ اپنے اندر امتحان کے تعلق سے جو بھی عجیب و غریب بے اطمینانی، اضطراب و پریشانی اور ذہنی و فکری انتشار ہے اسے اپنے دل و دماغ سے بالکل نکال دو۔ بیٹا! ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔
نصرت عبدالرحمٰن (بھیونڈی، تھانے)
ہم کو تم پر پورا یقین ہے


’’نہ ہو نومید نومیدی زوال علم و عرفاں ہے ؍ امید مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں ‘‘ بس اسی پہ عمل کرتے ہوئے مَیں اپنے بچوں سے کہتی ہوں کہ اپنی محنت اور اللہ پر بھروسہ رکھنا۔ جب بچے پریشان ہوتے ہیں تو میرے یہ جملے ان کو بہت ہمت دیتے ہیں۔ اور ان کو یہ بھی کہہ کر سمجھاتی ہوں کہ اللہ جو بھی کرےگا تمہارے حق میں بہتر کرےگا۔ اس لئے ہر طرح کے فیصلے کیلئے ہمیشہ تیار رہنا۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تم محنت بالکل بھی نہ کرو، تم محنت دل لگا کر کرو باقی صلہ دینا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ کہہ کر بھی حوصلہ دیتی ہوں کہ ہم کو تم پر پورا یقین ہے، اگر آج وقت نے تمہارا ساتھ نہیں دیا تب بھی مایوس مت ہونا کیونکہ اللہ نے یقیناً تمہارے لئے اس سے بہتر سوچ رکھا ہوگا۔ اس بات پر تو میں بھی دل سے یقین رکھتی ہوںاور میرے اس یقین نے میری بیٹی کو دسویں کے امتحان میں بہت شاندار کامیابی بھی دی۔
فرح حیدر (اندرا نگر، لکھنؤ)

جو بھی ہوگا، بہتر ہوگا


امتحان کے دوران ماں کو اپنے بچوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ پڑھائی میں ان کی مدد کرنی چاہئے۔ تھوڑی دیر ان کے ساتھ بات چیت کرنی چاہئے کیونکہ مستقل پڑھتے پڑھتے بچے بوریت محسوس کرتے ہیں اور تھک جاتے ہیں۔ ان کی پسند کا ناشتہ بنا کر دیں۔ اگر ان کو کوئی جواب یاد نہیں ہو رہا ہو تو ان کو یہ شعر سنائیں: ’’تدبیر کے دست رنگیں سے تقدیر درخشاں ہوتی ہے ؍ قدرت بھی مدد فرماتی ہے جب کوشش انساں ہوتی ہے ‘‘ انہیں حوصلہ ملے گا۔ بچے سے کہیں ’’جو بھی ہوگا، بہتر ہوگا، فکر نہ کریں۔‘‘
نگار حسن (اعظم گڑھ، یوپی)
عظیم شخصیات کی کہانیاں سنائیں


امتحان کے دوران بچے کی تیاری کرواتے وقت انہیں کسی سے بھی کمتر محسوس کروانے کے بجائے اگر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ تمہاری تھوڑی اور محنت تمہیں اچھے نمبرات سے پاس کروا سکتی ہے۔ ان کی پوزیشن کے حساب سے انہیں کچھ چھوٹے موٹے سے ہی سہی تحائف دیں جس سے ان میں آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا ہو۔ یہ مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ کچھ عظیم شخصیات کی کہانیاں بھی بہت اثر رکھتی ہیں۔ جیسے بچپن میں سنی گئی ابراہم لنکن کی کہانی جو میرے ذہن پر اپنی ایک چھاپ چھوڑ گئی ہے۔ 
سارہ فیصل (مئو، یوپی)
مَیں آپ کیلئے اتنی محنت کرتی ہوں


اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہم کسی بھی امتحان کا سامنا کرتے ہیں، ہماری مائیں ہمیشہ ہمارے ساتھ ہوتی ہیں، چاہے وہ اسکول کا امتحان ہو یا زندگی کا کوئی بھی امتحان۔ بعض اوقات وہ ہمیں ایک لفظ بھی کہے بغیر طاقت دیتی ہیں۔ لیکن ان کے تمام مشوروں میں سے جو واقعی مجھے کچھ کر گزرنے کی ترغیب دیتا ہے، وہ ہے ’’میں آپ کیلئے اتنی محنت کرتی ہوں۔‘‘
 اس جملے میں مختلف جذبات، محبت اور اُمید ہے۔ اس قسم کے جادوئی جملے بچوں کو زندگی میں کامیاب بنا دیتے ہیں۔
کوسین عافیت (علاقے کا نام نہیں لکھا)
امتحان سے گھبرانے کی ضرورت نہیں


ماں کی گود بچّے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ کم عمر ہی سے بچہ اپنی ماں زیادہ قریب سے دیکھتا ہے۔ اِس وجہ سے بچّے بہت زیادہ ماں کی ہر بات مانتے ہیں اور اسی وجہ سے ماں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بچّے کی صحیح رہنمائی کرے۔ جو مائیں باہمت ہوتی ہیں اُن کے بچّے بھی ہمت والے ہوتے ہیں۔ امتحان کے دوران ماں بچے کو اسکول چھوڑنے جائیں، انہیں حوصلہ دیں کہ امتحان سے ڈرنے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر تم نے محنت و لگن سے پڑھائی کی ہے تو ضرور کامیابی ملے گی۔
شاہدہ وارثیہ (وسئی، پال گھر)
کوئی بھی کام ناممکن نہیں ہوتا


ماں باپ کو امتحانات کے وقت اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا چاہئے۔ اس دوران مثبت جملوں کا استعمال کرنا چاہئے۔ ماں کی جانب سے کہیں جادوئی جملے کمزور بچوں کو بھی حوصلہ بخش دیتے ہیں جیسے: ٭مجھ کو تجھ پر یقین ہے، بیٹا تم کر لو گے۔ ٭ کوئی بھی کام ناممکن نہیں ہوتا تو یہ پیپر کیا چیز ہے۔ ٭اللہ سے امید لگانے والوں کی کبھی ہار نہیں ہوتی۔ ٭ تم آرام سے پاس ہو جاؤ گے۔ یہ جملے سن کر بچے پُراعتماد ہوتے ہیں اور وہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
شیخ خدیجہ محمد مسعود (مالیگاؤں، ناسک)

بچوں کو ہر وقت ماں باپ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن امتحان کے دنوں میں ماں باپ کی ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے۔ ان کے کھانے پینے اور سونے کا خیال رکھنا۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے جملے بولنا جس سے بچوں کی حوصلہ افزائی ہو۔ جیسے: ’’تم کرسکتے ہو، تم میں اتنی قابلیت ہے۔‘‘ نہ کہ ان پر زور ڈالنا کہ ۹۹؍ فیصد نمبر لانے ہیں۔ کھانا کھاتے وقت سب ساتھ بیٹھ کر ہلکی پھلکی باتیں کریں جیسے ’’تمہاری تیاری کیسی چل رہی ہے، بتاؤ؟ اگر کوئی پریشانی ہے تو بتاؤ...‘‘ امتحان کی تیاری سے متعلق اپنے تجربات بھی شیئر کریں۔
زبیدہ رحمٰن (اوکھلا، دہلی)
ناکامی سے مت ڈرو


بطور والدین ہم اپنے بچوں کے امتحانات کی تیاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے البتہ حوصلہ افزا باتوں کو فراموش کر دیتے ہیں۔ امتحانات کے دوران پڑھائی کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے جملے جو ہمارے بچوں کیلئے جادوئی اثر کرسکتے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:  بیٹا آپ محنت کرو پھل کی فکر اللہ پر چھوڑ دو۔ ٭ ناکامی سے مت ڈرو۔ ٭ اپنے سر پر امتحان کا بالکل بوجھ مت ڈالو۔ ٭ اپنے آپ کو ہلکا پھلکا رکھو۔ سب سے اہم اور آخری بات یہ کہ ٭ بیٹا! ہم آپ سے بے حد محبت کرتے ہیں اور ہمیں آپ پر فخر ہے۔
ناہید رضوی (بہرام باغ، جوگیشوری)

امتحان کے نتیجے سے محبت کم نہیں ہوگی


معاشرے کی تعمیر میں ماؤں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ بچے کی تربیت جہاں ان کے کامیاب مستقبل کی ضمانت ہوتی ہے وہیں یہ معاشرہ اور ملک اور و قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ہمارے والدین کو ہمارے مستقبل کو لے کر کچھ خواب ہوتے ہیں جن کا وہ گاہے بگاہے اظہار بھی کرتے ہیں کیلن والدین ہونے کے ناطے ان کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے خوابوں کا بوجھ بچوں کے کندھے پر نہ ڈالیں۔ جب بچے کےامتحان شروع ہوں تو ماؤں کی ذمہ داری تھوڑی بڑھ جاتی ہے۔ ان کو چاہئے کہ بچے میں اپنے تئیں خود اعتمادی اور یقین پیدا کریں۔ ایسا کرنے سے وہ قابل تعریف کارنامہ انجام دے سکتے ہیں۔ اپنے بچوں کے سامنے کسی دوسرے بچوں سے موازنہ نہ کریں۔ ان کے ذہن میں یہ بات ڈال دیں کہ امتحان میں کم نمبرات لانے کے باوجود آپ ان سے محبت کریں گے۔
عفت احسان (چکیا، حسین آباد، یوپی)
 وقت کا صحیح استعمال کامیابی کی کنجی ہے 


ماں کی گود خود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ بچہ ماں سے ہر دم رابطہ میں رہتا ہے اور ان کی کہی ہوئی ہر بات کو بغور سنتا ہے اور اس کا اثر لیتا ہے۔ وہ مائیں جو اپنے بچوں کا بہترین روٹین بنا کر اس پر ان کو چلاتی ہیں تو وہ بچے دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں۔ امتحان کے دنوں میں ماں کو چاہئے کہ بچوں کی ہمت افزائی کرے اور ایسے جملے بچوں کے سامنے پیش کرے کہ جن سے ان کی ہمت افزائی ہو، ان کو ترغیب مل سکے اور وہ امتحان کی تیاری بغیر کسی گھبراہٹ کے کرسکیں جیسے کہ ٭ یہ کام تم کر سکتے ہو۔ ٭ محنت کے آگے کوئی کام مشکل نہیں۔ ٭ اگر ٹھان لو تو تم سب کچھ کر سکتے ہو۔ ٭ تم کر سکتے ہو، تمہارے اندر اہلیت ہے۔ ٭ آگے بڑھو۔ ٭ سب کے پاس چوبیس گھنٹے کا وقت ہوتا ہے، وقت کا صحیح استعمال ہی کامیابی کی کنجی ہے۔ یہ وہ جادوئی جملے ہیں جن سے بچے کی امتحان کے دنوں میں بھرپور ہمت افزائی ہو سکتی ہے۔
نجمہ طلعت (جمال پور، علی گڑھ)
حوصلہ افزاء باتیں بچوں کو ہمت دیتی ہیں


والدین اور اساتذہ، یہ دو ایسے اہم عناصر ہیں جن کا بچوں کی تعلیم و تربیت، سیرت و کردار میں اہم رول ہوتا ہے۔ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے، یہیں سے وہ اپنی صلاحیتوں میں نکھار لاتا ہوا بڑا ہوتا ہے۔ اسکول میں داخل ہونے کے بعد ماں کا کردار کم نہیں ہوتا بلکہ مزید بڑھ جاتا ہے، خاص طور پر امتحان کے وقت۔ امتحان کے موقع پر بچے گھبراہٹ کا شکار رہتے ہیں۔ ایسے میں ماؤں کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ مائیں بچوں کی تیاری پر دھیان رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی حمایت بھی کریں۔ ان کے سامنے ہمت افزا کلمات کہیں۔ حوصلہ بخش اور ہمت افزا کلمات بچوں کی ہمت باندھے رکھتے ہیں۔ ان کے سامنے تسلی آمیز کلمات کہنا، انہیں دعائیں دینا اور ان کی قوت حافظہ کی تعریف کرنا،یہ سب ایسے کام ہیں جو بچوں کی گھبراہٹ کو دور کر سکتے ہیں اور ان پر جادوئی سا اثر ڈال سکتے ہیں۔
سحر جوکھن پوری (جوکھن پور، بریلی)
بچوں کو ذہنی سکون فراہم کریں


بچوں کی تربیت میں بنیادی کردار والدین کا ہوتا ہے۔ والدین کی حرکات و سکنات سے لے کر وعظ و نصیحت ہر چیز بچے پر کہیں نہ کہیں اثر انداز ہوتی ہے۔ لہٰذا والدین کو ایسا عملی نمونہ پیش کرنا چاہئے جس سے بچوں میںاخلاقی اقدار پیدا ہو اور ان کی ذہنی نشوونما ہوسکے۔ چونکہ ابھی طلبہ امتحان کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ایسے حالات میں والدین، خصوصی والدہ کی باتیں حوصلہ افزاء ہونی چاہئے جس سے بچوں میں ذہنی تناؤ کم ہو‌۔ والدہ اس طریقے سے بچوں کو سمجھائیں کہ بچے کی خود اعتمادی بحال ہو۔ جبکہ خوف جو فطری طور پر دورِ امتحان میں بچوں کو لاحق ہوتا ہے وہ ختم ہوجائے۔ بغیر کسی ذہنی کشمکش اور تناؤ کے بچہ امتحان میں شریک ہو۔جتنی اہمیت امتحان سے قبل پرچہ کی تیاری کی ہے اس سے زیادہ اہمیت بچوں کا ذہنی پُرسکون رہنا ہے اور اس میں والدہ بنیادی کردار اداکرسکتی ہے۔
خان شبنم فاروق (گوونڈی، ممبئی)
بچوں پر دباؤ نہ ڈالیں


’’اس بار کیسے بھی کرکے تمہیں فرسٹ پوزیشن لانا ہی ہوگا۔ سب سبجیکٹ میں پورے پورے نمبر آنے ہی چاہئے۔‘‘
 اکثر و بیشتر ماؤں کے اپنے بچوں کے متعلق اس قسم کے جملے ہم سنتے آئے ہیں۔ بہت کم مائیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنے بچوں کو نمبرات کے معاملے میں ڈراتی دھمکاتی نہیں ہیں جبکہ آج کی نسل کے لئے یہ طریقہ بہت غیرمناسب ہے۔ ماؤں کو اپنے بچوں کی پڑھائی کو ان پر مسلط نہیں کرنا چاہئے بلکہ ’’مجھے اپنے بچے پر پورا بھروسہ ہے....‘‘ ’’میرا بچہ پاس ہو جائے گا....‘‘ جیسے جملے کہہ کر ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اور انہیں سازگار ماحول میں پڑھنے کی سہولت فراہم کرنی چاہئے۔ یاد رکھیں بچوں کے ذہن پر بہت زیادہ بوجھ نہ ڈالیں وہ پہلے ہی امتحان سے متعلق پریشان ہوتے ہیں انہیں مزید خوفزدہ نہ کریں یہ آپ کے لئے بھی اور آپ کے بچے، دونوں کے لئے بہت اچھا ہوگا۔
آیت چودھری (موتی گنج، یوپی)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK