کتابِ زندگی کے جو اوراق پلٹے جاچکے ہیں اور دورِ حیات کے جولحات بیت چکے ہیں، انہیں بھول کر اور اُن کے گزرنے کا دکھ نہ پال کر انداز فکر یہ ہونا چاہئے: جاوداں پیہم دواں ہر دم جواں ہے زندگی! جو وقت گزر گیا ہے اس پر غم کرنے کا کیا فائدہ
EPAPER
Updated: September 10, 2024, 1:42 PM IST | Odhani Desk | Mumbai
کتابِ زندگی کے جو اوراق پلٹے جاچکے ہیں اور دورِ حیات کے جولحات بیت چکے ہیں، انہیں بھول کر اور اُن کے گزرنے کا دکھ نہ پال کر انداز فکر یہ ہونا چاہئے: جاوداں پیہم دواں ہر دم جواں ہے زندگی! جو وقت گزر گیا ہے اس پر غم کرنے کا کیا فائدہ
کتابِ زندگی کے جو اوراق پلٹے جاچکے ہیں اور دورِ حیات کے جولحات بیت چکے ہیں، انہیں بھول کر اور اُن کے گزرنے کا دکھ نہ پال کر انداز فکر یہ ہونا چاہئے: جاوداں پیہم دواں ہر دم جواں ہے زندگی! جو وقت گزر گیا ہے اس پر غم کرنے کا کیا فائدہ؟ جو کوتا ہیاں ہوئی ہیں، ان پر تنہائی میں بیٹھ کر غور کیجئے۔ غور کرنے پر آپ تسلیم کریں گے کہ زندگی نہ گزرے ہوئے کل کا نام ہے اور نہ آنے والے کل کا۔ زندگی تو آج کا نام ہے۔ جو دن گزر چکا وہ کمان سے نکلا ہوا تیر ہے، جسے آپ واپس نہیں لا سکتے، وہ گزرا ہوا وقت ہے کہ جو ہاتھ نہیں آسکتا۔ آنیوالا کل آپ کے اختیار میں نہیں ہے، کیا پتا آئے بھی کہ نہیں۔ زندگی تو آج ہی کی ہے۔ اس آج کو کارآمد بنانا آپ کے اختیار میں ہے۔
ہماری زندگی ایسے مسافروں کی طرح ہے، جو کمرۂ انتظار میں اپنے جہاز یا گاڑی کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں۔ بیتی ہوئی زندگی کے مرحلوں پر تصور کیجئے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کتنی دور آگئے ہیں اور کتنا وقت گزار آئے ہیں۔ ایک وقت وہ تھا کہ جب ہم چھوٹے تھے اور اپنے سے بڑی عمر کے بچوں کو اسکول جاتا دیکھ کر سوچا کرتے تھے کہ ایک آدھ سال اور جاتا ہے کہ امی ابو ہمیں بھی اسکول میں داخل کرا دیں گے۔ جب اسکول میں پہنچے تو کالج جانے کی فکر نے بے کل کیا اور پھر جب کالج یا یونیورسٹی پہنچے تو روزگار کے اچھے مواقع اور اعلیٰ عہدوں کے تصورات کے ساتھ زندگی کی کامیابیاں اور ولولے ذہن میں ابھرنے لینے لگے۔ آج ہم میں سے بہت سے زندگی کی ان مختلف منزلوں میں ہوں گے۔ بہت سے بھر پور عملی زندگی کے آخری مراحل میں داخل ہو چکے ہوں گے۔ ان سب کیلئے جنہیں وقت کا سیلاب بہائے لئے جا رہا ہے اور اب بھی کچھ کرنا چاہتے ہیں، آج کا دن بہت اہم ہے۔ اگر مضبوط ارادے کے ساتھ اپنی گزارنے کو بہتر انداز میں گزارنے کی کوشش کرتے ہیں تو یقیناً آپ کو کامیابی ملے گی۔ اگر اپنے آج کے ایک ایک لمحے کی قدر کرنے کا عزم کرتے ہیں تو آپ اپنی زندگی سے شکایت کرنا بھول جائیں گے لیکن اگر آپ صرف بیتے ہوئے لمحوں پر اظہار افسوس ہی کا ارادہ رکھتے ہیں تو پھر آپ کے حصے میں مسرتیں نہیں حسرتیں آئیں گی۔ آپ سوچیں گے ہائے! اسکول کے وہ دن اچھے تھے، جب ہر طرف معصوم قہقہے گونجا کرتے تھے، جب آپ پابند تھے اور چار و ناچار کام کرنے پر مجبور تھے۔ ماضی کی یادوں سے دنیا کا کوئی شخص اپنا دامن نہیں چھڑا سکتا لیکن اس کے ہو کر رہ جانا دانشمندی نہیں۔ یہ اچھی طرح یاد رکھئے کہ آپ ابھی زندہ ہیں اور آج زندہ ہیں۔ آپ کا یہ آج بڑے کام کی چیز ہے۔ یہی آپ کی زندگی کو ایک نئے معنی و مفہوم عطا کرے گا۔ آپ کی حیات مستعار کو نیا رخ دے گا۔ آپ کی زندگی کی قدر و قیمت بڑھ جائے گی اور آپ ایک پر مقصد اور باوقار زندگی کا آغاز کریں گے۔
بھرپور زندگی گزارنے کیلئے مقصد کا تعین ضروری ہے۔ یہ کام بھی آج ہی ممکن ہے، اسے کل پر ٹال دینا غلطی ہے۔ خوب سوچ سمجھ کر پورے ایک سال کا لائحہ عمل طے کیجئے لیکن ہر صبح سال کے آج کے دن کو گزارنے کا عزم تازہ کر کے اس لائحہ عمل کی تکمیل میں لگے رہیں۔ جو بیت گیا، سو بیت گیا اس عزم کے ساتھ زندگی گزاریں اور اپنے آج کو سنواریں۔