Inquilab Logo Happiest Places to Work

دنیا بھر میں سپلائی ہونے والے تیل کا ۲۰؍ فیصد حصہ آبنائے ہرمز سے گزرتا ہے

Updated: June 24, 2025, 1:11 PM IST | Inquilab News Network | Tehran

ایران کے آبنائے ہرمز کو بند کرنے پر اہم ممالک کی تیل سپلائی متاثر ہوگی، عالمی سطح پر تیل کے دام ۱۲۰؍ تا ۱۳۰؍ ڈالر فی بیرل تک پہنچ جائیں گے، دنیا بھر کی تیل کمپنیاں تشویش میں مبتلا۔

Oil ships from major countries in the world pass through the Strait of Hormuz. Photo: INN
آبنائے ہرمز سے دنیا کے اہم ممالک کے تیل کے جہاز گزرتے ہیں۔ تصویر: آئی این این

ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق ایران نے دھمکی دی ہے کہ اسرائیل نے حملے بند نہ کئے تو وہ آبنائے ہرمز کا راستہ بند کر دے گا۔ اس پر عالمی سطح پر تشویش ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایران نے بحر ہرمز بند کرنے کی دھمکی کیوں دی؟ اس کا مطلب کیا ہے؟ اطلاع کے مطابق یہ ایک اہم بحری راستہ ہے جو مشرق وسطی میں تیل کی دولت سے مالامال ممالک کو ایشیا، یورپ اور شمالی امریکہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک تک ایندھن پہنچانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہے کہ ایران نے اس راستے کو بند کرنے کی دھمکی ہو۔ اس سے قبل بھی کئی موقعوں پر اس نے بحر ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔ لیکن اس بار چونکہ انتہائی سنگین صورتحال ہے اس لئے بہت ممکن ہے کہ وہ ایسا کر جائے۔ 
  در حقیقت بحر ہرمز ایران اور عمان کے درمیان سے گزرتا ہوا آبی راستہ ہے۔ یہاں سے تیل سے بھرے ٹینکر گزرتے ہیں جو دنیا کے مختلف علاقوں تک پہنچائے جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں سپلائی ہونے والے تیل کا ۲۰؍ فیصد حصہ یہاں سے ہو کر گزرتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تجارتی اعتبار سے یہ راستہ کس قدر اہم ہے۔ چونکہ یہ راستہ ایران کے قبضے والی جگہ ہے اس لئے بڑی آسانی سے وہ اس راستے کو بند کر سکتا ہے۔ یاد رہے کہ اس راستے سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت کے علاوہ دنیا میں سب سے زیادہ ایل این جی بر آمد کرنے والے قطر کا مال بھی گزرتا ہے۔ یعنی تیل بر آمد کرنے والے تمام بڑے ممالک کو یہاں سے گزرنا پڑتا ہے اور تیل حاصل کرنے والے تمام ممالک اس کے بند ہونے کی وجہ سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک بڑے بحران کا سبب ہو سکتا ہے۔ 
   اطلاع کے مطابق اگر ایران نے سچ مچ اس طرح کا کوئی قدم اٹھا لیا تو عالمی سطح پر کچے تیل کے دام ۱۲۰؍ تا ۱۳۰؍ ڈالر فی بیرل تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس کی وجہ سے دنیا بھر میں تیل اور پیٹرول مہنگا ہو سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے محض اعلان کر دینے سے تیل کی قیمتوں پر اثر شروع ہو چکا ہے۔ حالانکہ اس نے اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کے تعلق سے حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ اب تک ایسی کوئی خبر نہیں آئی ہے نہ ہی ایران نے ایسا کوئی بیان جاری کیا ہے کہ اسرائیلی حملے تیل ایران کی کسی تیل ریفائنری کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ اسرائیل نے جوہری مراکز پر حملے کئے ہیں لیکن ایران کی اہم شخصیات کا قتل کیا ہے۔ اس لئے ایران کیلئے ضروری ہو گیا ہے کہ وہ اسرائیل کو اس سے بڑھ کر جواب دے۔ اس سے قبل یمن کے حوثی باغیوں نے بحر احمر میں اسرائیل اور امریکی جہازوں کو نشانہ بنا کر اپنی بساط بھر انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی۔ ایران کیلئے بہت آسان ہے کہ وہ بحر ہرمز کو بند کر دے کیونکہ اس سمندر میں ایک راستہ ایسا بھی ہے جو محض ۳۳؍ کلو میٹر چوڑا ہے۔ یہاں اگر ایران نے اپنے فوجی تعینات کر دیئے دیئے تو آمدورفت میں مشکل کھڑی ہو سکتی ہے۔ 
  اس سے قبل ۲۰۱۲ء میں جب امریکہ اور یورپ نے جوہری توانائی کے بہانے ایران پر پابندیاں عائد کی تھیں تو اس نے بحر ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔ حالانکہ ایسا ہوا نہیں تھا۔ 
اکو صفر پر لانے کا اعلان کیا گیا تھا تو ایرانی صدر حسن روحانی نے عندیہ دیا تھا کہ ایران آبنائے ہرمز سے گزرنے والی تیل کی رسد کو متاثر کر سکتا ہے۔ ایرانی پاسداران انقلاب کے ایک کمانڈر نے بھی دھمکی دی تھی کہ اگر ایرانی تیل کی برآمدات کو روکنے کی کوشش کی گئی تو وہ آبنائے ہرمز سے گزرنے والے تیل کی رسد کو روک دیں گے۔ ۲۰۱۸ء میں امریکہ نے ایران کی تیل برآمدات کو ختم کرنے یعنی صفر پر لانے کا اعلان کیا تھا تو اس وقت کے صدر حسن روحانی نے کہا تھا کہ وہ بحر ہرمز کے راستے کو مسدود کر سکتے ہیں۔ 
  ماضی میں کئی بار اس آبی راستے میں جھڑپوں اور حملوں کے واقعات پیش آئے ہیں لیکن کاروباری راستے کو مسدود کرنے کا فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ مگر صورتحال دیگر ہے۔ ایران پوری طرح سے اسرائیلی حملوں کی زد میں ہے اور اسے اسرائیل کو روکنے کیلئے ہر ممکن اقدام کرنا ہے۔ چونکہ عالمی سطح پر کوئی بھی ملک اسرائیل پر دبائو ڈالنے کو تیار نہیں ہے اس لئے آخری راستے کے طور پر ایران بحر ہرمز کو بند کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ اس امکان کے سبب دنیا بھر میں تیل کی خریدوفروخت کرنے والی کمپنیاں اور ممالک تشویش میں ہیں اور اسرائیل اور ایران کی جنگ ختم ہونے کے متمنی ہیں۔ 

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK