Inquilab Logo Happiest Places to Work

مصر کی قیادت میں ۲۱؍ مسلم ممالک نے اسرائیل سےحملے فوراً روکنے کا مطالبہ کیا

Updated: June 18, 2025, 1:00 PM IST | Agency | Cairo

مشترکہ بیان جاری کیا، دونوں فریقوں سے جنگی کارروائیاں فوراً روکنے اور مذاکرات کی راہ اپنانے کی اپیل کی گئی، اسرائیل کو جنگی مجرم قرار دینے کا مطالبہ۔

Tel Aviv is now turning into ruins due to Iran`s retaliatory attacks. Photo: INN
ایران کے جوابی حملوں کی وجہ سے تل ابیب اب کھنڈر بنتا جارہا ہے۔ تصویر: آئی این این

مصر کی وزارت خارجہ کی کوششوں سے ۲۱؍ ممالک نے مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے ایران پر اسرائیلی حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور خطے میں بڑھتی کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بیان میں تمام فریقوں سے جنگی کارروائیاں فوری روکنے اور مذاکرات کی راہ اپنانے کی اپیل کی گئی ہے۔ یہ مشترکہ بیان مصر کے وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی اور ان کے ہم منصبوں کے درمیان مشاورت کے بعد جاری کیا گیا جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’’ہم ۱۳؍ جون۲۰۲۵ء سے اسلامی جمہوریہ ایران پر اسرائیل کے حملوں کو یکسر مسترد اور ان کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ ‘‘بیان پر دستخط کرنے والے ممالک میں الجزائر، بحرین، برونائی دارالسلام، چاڈ، کوموروس، جبوتی، مصر، گامبیا، عراق، اردن، کویت، لیبیا، موریطانیہ، پاکستان، قطر، سعودی عرب، صومالیہ، سوڈان، ترکی، سلطنت عمان اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ بیان میں زور دیا گیا کہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی پر سخت اعتراض ہے اور تمام ممالک کی خودمختاری اور حسنِ ہمسائیگی کے اصولوں کا احترام ہر صورت میں کیا جانا چاہئے۔ مشترکہ بیان میں اسرائیلی اقدامات کو خطے کے امن و استحکام کے لیے خطرناک پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ ہم اس خطرناک کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں، جو پورے خطے کو عدم استحکام کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کو جوہری اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے دیگر ہتھیاروں سے پاک علاقہ قرار دیا جائے — اور یہ اصول خطے کے تمام ممالک پر بلا استثنیٰ نافذ ہو۔ 
 بیان میں اس امر پر بھی زور دیا گیا کہ جوہری تنصیبات جو بین الاقوامی توانائی ایجنسی کی نگرانی میں ہیں، ان پر حملہ کرنا نہ صرف بین الاقوامی قانون بلکہ جنیوا کنونشن کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔ خطے کے تنازعات کا حل صرف مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے ہی ممکن ہے، فوجی کارروائیاں دیرپا امن نہیں لا سکتیں۔ ساتھ ہی آبی گزرگاہوں کے تحفظ پر بھی زور دیا گیا اور ایسے تمام اقدامات کی مخالفت کی گئی جو سمندری یا فضائی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK