پہلا سکہ شیر شاہ سوری کے دور میں بہار میں ۹۴۵؍ہجری میں ڈھالا گیا تھا جبکہ سکےپرلفظ روپیہ کا استعمال پہلی بار مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے دور حکمرانی کے ۴۷؍ ویں سال میں ہوا۔
روپے کے سفر سے متعلق نمائش فورٹ میں لارنس اینڈ مایوہاؤس میں جاری ہے۔ تصویر:آئی این این
آزادی کے فوراً بعد ہندوستان نے اشوک کی لاٹ(اشوک اِستھمب) کو قومی نشان کے طور پر اپنایا اور اس نے ۱۵؍ اگست ۱۹۵۰ء سے ہندوستانی سکوں پر برطانوی شہنشاہ کی تصویر کی جگہ لے لی۔ اس طرح امسال آزاد ہندوستان کی کرنسی کے طور پر ’’ روپے‘‘ کے ۷۵؍ سال مکمل ہو رہے ہیں۔ تاہم روپے کی کہانی اس سے بہت پہلے شروع ہوتی ہے، جو برصغیر کی تجارت، جنگوں اور ثقافت کا بھی احاطہ کرتی ہے۔ پہلا روپیہ جو چاندی کا سکہ تھا شیر شاہ سوری نے متعارف کرایا تھا۔ اسے ممکنہ طور پر بہار میں ڈھالا گیاتھا جس پر ۹۴۵؍ ہجری (جون ۱۵۳۸ء تا مئی ۱۵۳۹ء) درج تھا۔ اس سکے پر ایک نیا انداز اختیار کیا گیاتھا۔ شیر شاہ کا نام عربی اور دیوناگری دونوں میں درج تھا اور ساتھ میں ’’اللہ اس کی بادشاہی کو قائم رکھے۔‘‘ لکھا ہو اتھا۔
سکہ پر لفظ روپیہ کا استعمال پہلی بار اکبر اعظم کی دور حکمرانی کے ۴۷؍ ویں سال میں باضابطہ طور پر ہوا۔ آگرہ کے ٹکسال میں بننے والے ان سکوں میں مختلف مالیت درج ہوتی تھی، روپیہ، درب (آدھا روپیہ) اور چران (چوتھائی روپیہ)۔ ان کا ذکر ابو الفضل کی مشہور کتاب ’’آئین اکبری‘‘ میں بھی ملتا ہے۔ سرمایا آرٹس فاؤنڈیشن اس عظیم تاریخی ورثے کو ’’اوڈیسی آف دی روپی: فرام انڈیا ٹو ورلڈ‘‘( روپے کی داستان:ہندوستان سے عالمی منظر نامہ تک) نامی نمائش میں پیش کر رہی ہے، جس میں ۳؍ براعظموں میں۵۰۰؍ سالہ کرنسی کا سفر دکھایا گیا ہے۔ یہ نمائش یکم نومبر۲۰۲۵ء سے ۳۱؍ جنوری ۲۰۲۶ء تک ممبئی کے فورٹ علاقے میں لارنس اینڈ مایوہاؤس میں جاری ہے۔ یہ ریزرو بینک آف انڈیا اور انڈیا گورنمنٹ منٹ کے قریب واقع ہے۔
سرمایا آرٹس فاؤنڈیشن کے بانی پال ابراہم جو سابق بینکر اور فن پاروں کے شوقین ہیں، نے بتایا کہ ’’ہمارےسکوں، نقشوں اور فنون کے ذخیرے کی اس منتخب نمائش کے ذریعہ لوگ پہلی بار روپے کا مکمل ارتقائی سفر دیکھ سکیں گے۔ ہاتھ سے ڈھالے گئے چاندی کے سکوں سے آج آپ کے بٹوے میںکرارے نوٹ تک کا سفر ۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ نمائش میں شیر شاہ سوری کے ذریعہ متعارف کرایا گیا پہلا روپیہ، آزاد ہندوستان کا پہلا سکہ، مراٹھا، سکھ اور دیگر ہندوستانی ریاستوں کے سکے، اور وہ غیر ملکی روپے بھی شامل ہیں جو کبھی یورپ، افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا میں چلا کرتے تھے۔‘‘
انہوں نے کہاکہ ’’یہ روپے کی بین الاقوامی حیثیت کا ثبوت بھی ہیں۔ ‘‘ نمائش کے کیوریٹر ڈاکٹر شیلندر بھنڈارے ہیں جو اشمولین میوزیم میں ۲۰۰۲ء سے سکوں کے مجموعوں کے کیوریٹر ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ’’روپے کا سفر ہماری سرحدوں کے پار جارجیا کے تبلیسی سے انڈونیشیا کے مشرقی جاوا تک پھیلا ہوا ہے۔ روپے کی یہ داستان ہندوستانی تاریخ کی بڑی تحریکوں کی آئینہ دار بھی ۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’۷۵؍ سال بعد بھی روپیہ ہماری تاریخ اور حال کے درمیان زندہ رشتہ ہے جو فی الحقیقت فتوحات، تجارت، سلطنتوں، زبان اور عقیدے کا نوشتہ ہے۔ روپے کا سفر ہماری قوم کی داستان ہے۔‘‘(بشکریہ: ڈیکن ہیرالڈ)