جس سے’کے این پی‘ نامی لاجسٹک کمپنی کا کام کاج ٹھپ پڑگیا اوروہ دیوالیہ ہوگئی ، اکیرا نامی ہیکرز کے ’رینسم ویئر اٹیک‘ سے نارتھمپٹن شائر میں واقع کمپنی کے۷۰۰؍ملازمین بے روزگار ہوگئے.
EPAPER
Updated: July 24, 2025, 1:12 PM IST | Agency | London
جس سے’کے این پی‘ نامی لاجسٹک کمپنی کا کام کاج ٹھپ پڑگیا اوروہ دیوالیہ ہوگئی ، اکیرا نامی ہیکرز کے ’رینسم ویئر اٹیک‘ سے نارتھمپٹن شائر میں واقع کمپنی کے۷۰۰؍ملازمین بے روزگار ہوگئے.
برطانیہ کی ’کے این پی‘ نامی لاجسٹکس کمپنی ایک ’رینسم ویئر اٹیک ‘کےسبب تباہ ہو گئی۔ ’اَکیرا‘ نامی ہیکرز کے گروپ نے کمپنی کے ایک ملازم کے کمزور پاس ورڈ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کمپنی کے ’اِنٹرنل نیٹ ورک‘ میں دراندازی کی اور پورے سسٹم کو ہیک کرلیا۔ ہیکرز کے گروہ نے کمپنی کے ڈیٹا کو ’فریز‘ کرکے ۵؍ ملین پاؤنڈ (تقریباً ۵۸؍ کروڑ روپے) تاوان کا مطالبہ کیا۔کمپنی یہ رقم ادا نہیں کر سکی اورہیکرز نے ڈیٹا کو ختم کردیا جس کے سبب ۱۵۸؍ سال پرانی اس ٹرانسپورٹ کمپنی کا کام کاج ٹھپ پڑگیا اور وہ دیوالیہ ہو گئی۔ اس کے نتیجے میں تقریباً۷۰۰؍ ملازمین بے روزگار ہوگئے ہیں ۔
’فرسٹ پوسٹ‘ نے بی بی سی کے حوالے سے اس ضمن میں تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔ جس کے مطابق ’ کے این پی لاجسٹکس ‘جو کہ برطانیہ کی۱۵۸؍ سال پرانی ٹرانسپورٹیشن کمپنی ہے ، ایک ’رینسم ویئراٹیک ‘ کا شکار ہوئی، جس نے ان کے تمام سسٹمز کو لاک کر دیا۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق، ہیکرز نے کمپنی کے مکمل نیٹ ورک تک رسائی اس وقت حاصل کی جب وہ ایک ملازم کا کمزور پاس ورڈ ’کریک‘ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ سسٹم میں گھسنے کے بعد، ہیکرز نے کمپنی کے مکمل ڈیٹا کو’ اِنکرپٹ ‘کر دیا اور کمپنی کی سرگرمیاں منجمد کرکے بھاری تاوان کا مطالبہ کیا۔ یوں، ایک ایسی کمپنی جو ڈیڑھ صدی سے زائد عرصے سے موجود تھی، ختم ہو گئی۔اپنی نوعیت کا یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے۔ برطانیہ میں اس قسم کے ’رینسم ویئر اٹیکـ‘ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اور حکام کا کہنا ہے کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو یہ ملک کی تاریخ کا رینسم ویئر کے حوالے سے بدترین سال ہو سکتا ہے۔
یہ سب کیسے ہوا؟
کے این پی کے پاس مال ڈھلائی کیلئے۵۰۰؍ ٹرکوں کا قافلہ تھا، جن میں سے زیادہ تر ’نائٹس آف اولڈ‘ برانڈ کے تحت کام کرتے تھے۔ بظاہرسب کچھ ٹھیک چل رہاتھا۔ کمپنی کا کہنا تھا کہ اس کے آئی ٹی سسٹمز صنعت کے معیار کے عین مطابق تھے اور ان کے پاس سائبر انشورنس بھی موجودتھا۔لیکن ’اَکیرا‘ نامی ہیکرز کے گروپ نے کمپنی کے سسٹم کو ہیک کر لیا، اور عملہ اپنی ہی کمپنی کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہو گیا۔ ہیکرز نے ڈیٹا واپس حاصل کرنے کے بدلے تاوان کا مطالبہ کیا۔رینسم نوٹ میں درج تھا:’’اگر آپ یہ پڑھ رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کی کمپنی کا انٹرنل سسٹم مکمل یا جزوی طور پر مردہ ہو چکا ہے، آئیے نتیجہ خیز بات چیت کی کوشش کریں۔‘‘اگرچہ ہیکرز نے تاوان کی رقم واضح نہیں کی، لیکن ماہرین کے مطابق یہ رقم تقریباً۵؍ ملین پاؤنڈ ہو سکتی ہے۔ کے این پی کے پاس اتنی رقم نہیں تھی۔نتیجتاً، سارا ڈیٹا ضائع ہو گیا اور کمپنی کو دیوالیہ ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ’کے این پی ‘ کے ڈائریکٹر پال ایبٹ نےبتایا کہ انہوں نے کبھی بھی اُس ملازم کو نہیں بتایا جس کا کمزور پاس ورڈ اس معاملے کا سبب بنا۔
برطانیہ میں سائبر حملوں میں تیزی
کے این پی جیسی کہانیاں اب عام ہو چکی ہیں۔ حال ہی میں، برطانیہ کی کئی معروف کمپنیاں جیسے ایم اینڈ ایس، کوآپ اور ہیروڈز بھی ایسے حملوں کا شکار ہو چکی ہیں۔ کوآپ کے معاملے میں۶۵؍ لاکھ ممبران کا ڈیٹا چوری کر لیا گیا۔ ایم اینڈ ایس پر، ہیکرز نے خود کو کسی اور کے طور پر ظاہر کر کے آئی ٹی عملے کو دھوکہ دیا۔ اس طریقے کو ’بلیگنگ‘‘ یا ’’پری ٹیکسٹنگ‘‘ کہا جاتا ہے، جہاں ایک فرضی کہانی کے ذریعے اعتماد حاصل کر کے نظام تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔اور بس، اتنا ہی کافی ہوتا ہے۔نیشنل سائبر سیکوریٹی سینٹر(این سی ایس سی)کی ایک ٹیم کے رکن نے بی بی سی کو بتایا:’’یہ ہیکرز کسی بھی ادارے کو اُس کے کمزور دن میں پکڑتے ہیں اور فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔‘‘کے این پی کے انشورنس فراہم کنندہ کی جانب سے طلب کئے گئے سائبر ایکسپرٹ پال کیشمور نے کہا:’’یہ منظم جرائم ہیں۔ ان مجرموں کو پکڑنے میں بہت کم پیش رفت ہوئی ہے — لیکن اثرات تباہ کن ہیں اور حملوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘نیشنل کرائم ایجنسی(این سی اے) کی سوزین گرِمر کے مطابق، پچھلے دو سال میں رینسم ویئر حملے تقریباً دُگنے ہو چکے ہیں۔