Inquilab Logo

اتر پردیش کی مدرسہ تنظیموں کی عرضی پر سپریم کورٹ میں آج سماعت متوقع

Updated: April 04, 2024, 11:46 PM IST | Ahmadullah Siddiqui | New Delhi

مدارس کے طلباء کو دیگر اسکولوں میں داخل کرانے کا حکم نامہ بھی جاری، یوپی کےچیف سیکریٹری کی جانب سے سبھی متعلقہ افسران کو عمل آوری کیلئےکی ہدایت۔

Supreme Court of India. Photo: INN
سپریم کورٹ آف انڈیا ۔ تصویر : آئی این این

اترپردیش کے مدرسوں سے وابستہ افرادکےلئے آج بہت اہم دن ہے۔ مدرسہ ایکٹ کوغیرقانونی قراردینے والے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف آج سپریم کورٹ میں سماعت متوقع ہے۔ ذرائع کے مطابق چیف جسٹس آف انڈیا کی بنچ میں سماعت ہونے کی توقع ہےجس کی وجہ سے مدرسہ فریقین میں انصاف کی امیدبڑھ گئی ہے  جبکہ انشومن سنگھ راٹھور نامی جس وکیل کی عرضی پر ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا ہے اس نے بھی سپریم کورٹ میں کیویٹ داخل کی ہے۔اس کے ساتھ ہی یوپی حکومت کی جانب سے بھی کیویٹ داخل کی گئی  ہے۔سپریم کورٹ میں آل انڈیا ٹیچرس اسوسی ایشن مدارس عربیہ، منیجرس اسوسی ایشن مدارس عربیہ اور ٹیچرس اسوسی ایشن مدارس عربیہ اترپردیش چند دیگر تنظیموں کی جانب سے داخل شدہ ایس ایل پی پر عدالت عظمیٰ میں جمعہ کو چیف جسٹس آف انڈیا چندر چڈ کی بنچ میں سماعت پرسبھی کی نگاہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: یوم القدس :اہلِ غزہ کیلئے دُعائوں کی اپیل

ذرائع کے مطابق ان سبھی کی عرضیوں کو ایک ساتھ منسلک کردیا گیا ہے۔ مدارس عربیہ سے وابستہ تنظیموں کا کہنا ہے کہ آئینی اور دستوری بنیادوں پر مدارس کے مقدمہ کی پیروی کےلئے مضبوط تیاری کی گئی ہے۔ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں جن قانونی نکات کو نظراندازکیا ہے،ان کی بنیاد پر ملک کے سینئر اور اہم وکلاء سپریم کورٹ میں بحث کریں گے۔

اس معاملہ میں معروف سینئر وکلاء ابھیشیک منو سنگھوی، مکل روہتگی، ڈی ایس پٹوالیہ اور سلمان خورشید و دیگر کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ سپریم کورٹ میں ٹیچرس اسوسی ایشن مدارس عربیہ یوپی کی طرف سے سینئر ایڈوکیٹ مکل روہتگی اور سینئر ایڈوکیٹ حذیفہ احمدی بحث کریں گے۔ اس سلسلہ میں جمعرات کو ایڈوکیٹ آن ریکارڈ روہت استھالکر، فیصل عبدالرزاق کے ساتھ مکل روہتگی اور حذیفہ احمدی کی کانفرنس ہوئی جس میں اسوسی ایشن کے عہدیدار دیوان صاحب زماں وعبدالحق بھی شریک ہوئے۔ مکل روہتگی نے تمام پہلوئوں پر غور کرنےکے بعد کہا کہ مدرسوں کو انصاف ملے گا جس پرایسوسی ایشن کو امید ہے کہ چیف جسٹس کی کورٹ ہائی کورٹ کے آرڈر کو اسٹے کر کےمدرسوں کی سابقہ پوزیشن بحال کرے گی۔ مدرسہ تنظیموں کے وکلاء کی جانب سے قانونی نکات اور دلائل کی بنیاد پر مقدمہ میں پوری کامیابی کی امید دلائی گئی ہے اور ہائی کورٹ کے فیصلے پر اسٹے ہونے کی توقع کی جارہی ہے مگر جس طرح ہائی کورٹ میں عرضی گزاررہے انشومن سنگھ راٹھورنے سپریم کورٹ میں کیویٹ داخل کی ہے اور یوپی حکومت کی جانب سے بھی کیویٹ داخل کرکے معاملہ کو الجھانے کی کوشش کی گئی ہے وہ حیران کن ہے۔ ماہرین قانون کے مطابق ہائی کورٹ میں مقدمہ جیتنے والا شخص تو سپریم کورٹ میں کیویٹ داخل کرسکتا ہےتاکہ اس کا موقف سنے بغیرمعاملے میں اسٹے نہ دیا جاسکے مگریوپی حکومت نے ہائی کورٹ میں مقدمہ ہارنے کے باوجود سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے بجائے، کیویٹ داخل کرکے اپنے منصوبوں کو واضح کردیا ہے۔ ذرائع کے مطابق یوپی محکمہ اقلیتی بہبود سے وابستہ دو سینئرافسران معاملے کی پیروی کے لئے دہلی بھی پہنچ چکے ہیں۔ مدارس سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ ہائی کورٹ میں یوپی حکومت اور مدرسہ بورڈمدعا علیہ کے طورپر پیش ہوئے تھے اوراپنا جوابی حلف نامہ داخل کیا تھا مگر سپریم کورٹ میں وہ کن بنیادوں پرکیویٹ داخل کرکے پارٹی بننے گئے ہیں وہ حیران کن ہے اور شکوک و شبہات پیداکرتا ہے۔ دوسری جانب، یوپی کے چیف سیکریٹری درگا شنکرمشرا نے ۲۲؍مارچ ۲۰۲۴ء کے ہائی کورٹ لکھنؤ بنچ کے فیصلہ پرعمل آوری کو یقینی بنانے کےلئے حکم نامہ جاری کردیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں جمعرات کومتعلقہ محکموں کے سربراہان کو مکتوب جاری کرتے ہوئے مدرسوں کے طلباء کا داخلہ دیگر سرکاری اسکولوں میں کرانے کا فرمان جاری کیا ہے۔ محکمہ بنیادی تعلیم اور ثانوی تعلیم کے ساتھ محکمہ اقلیتی بہبود اور وقف کے ایڈیشنل چیف سکریٹری، پرنسپل سکریٹری کے ساتھ محکمہ اقلیتی بہبود کی ڈائریکٹرکومکتوب روانہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنے مکتوب میں لکھا ہے کہ ریاست میں بیسک ایجوکیشن بورڈ اور سیکنڈری ایجوکیشن بورڈکے کنٹرول میں چلنے والے تسلیم شدہ اسکولوں میں مدرسہ کے طلباء کے داخلے کویقینی بنایائے۔ چیف سیکریٹری نے اپنے حکم نامہ میں لکھا ہے کہ اتر پردیش مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ ۲۰۰۴ءکے منسوخ ہونے اور اسے غیر آئینی قرار دینے کے نتیجے میں مدارس کی منظوری خود بخود غیر موثر ہو گئی ہے۔ ایسے مدارس جو مختلف پیرامیٹرز کی بنیاد پر یوپی بورڈ؍سی بی ایس ای بورڈ؍آئی سی ایس ای بورڈوغیرہ سے منظوری حاصل کرنے کے اہل ہیں، وہ متعلقہ بورڈز سے مناسب منظوری حاصل کرنے کے بعد قواعد کے مطابق پرائمری؍سیکنڈری اسکول چلا سکتے ہیں۔ جو مدارس غیر معیاری سہولیات کی بنیاد پر کسی بھی بورڈ سے باضابطہ منظوری حاصل نہیں کر سکیں گے وہ مدرسے خود بخود بند ہو جائیں گے، جس کی وجہ سے ان مدارس میں زیر تعلیم طلباء کا مستقبل تباہ ہو جائے گا۔ اس لئے ایسے مدارس کے طلباء کے مستقبل کو خراب ہونے سے بچانےکے لیے، ریاست کے سرکاری بنیادی؍ثانوی اسکولوں میں ان کے داخلہ کو یقینی بنانے کے لیے ضلعی سطح پرایک کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے۔ مذکورہ ضلع سطح کی کمیٹی تسلیم شدہ اسکولوں میں پہلے سے مدارس میں زیر تعلیم طلباء کے داخلہ کو یقینی بنائے گی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK