جلگائوں میںانوکھی پیش قدمی ،میزبان نے کہانیوں کی کتابیں اور رسالے بچوں میں تقسیم کیں، کتابیں ملنے کے بعد بچے آئسکریم قلفی سب بھول گئے اور ورق گردانی میں مصروف رہے
EPAPER
Updated: November 14, 2025, 11:04 PM IST | Sarjil Qureshi | Jalgaon
جلگائوں میںانوکھی پیش قدمی ،میزبان نے کہانیوں کی کتابیں اور رسالے بچوں میں تقسیم کیں، کتابیں ملنے کے بعد بچے آئسکریم قلفی سب بھول گئے اور ورق گردانی میں مصروف رہے
جلگائوں میں بچوں تک کتابیں پہنچانے کا ایک انوکھا طریقہ نظر آیا جب ایک دعوت ولیمہ کے دوران بچوں میں کہانیوں کی کتابیں اور رسالے تقسیم کئے گئے۔ جس وقت مہمانان کھانے کے ضائقہ کا مزہ لوٹ رہے تھے یا اپنی باری کے انتظار میں اس کی خوشبو سے لطف اندوز ہو رہے تھے، تو دوسری طرف کتابیں ملنے پر پھولے نہیں سما رہے تھے اور اس میں مگن دکھائی دے رہے تھے۔
موقع تھا معروف صحافی اور افسانہ نگار مشتاق کریمی کے بیٹے کے دعوت ولیمہ کا جس میں اساتذہ، وکلاء، ڈاکٹر ،انجینئر ،دانشواران اور صحافی ہر طرح لوگ شریک تھے۔ایک سمت مہمانان لذت کام ودہن حاصل کر رہے تھے تودوسری خوبصورت اسٹیج سے اردو کا پیغام عام کیا جارہا تھا۔اس موقع پر مشتاق کریمی نے انقلاب سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ’’ اگر ہم اپنے بچوں کو باکردار،بااخلاق ،باصلاحیت بنانا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ اچھی کتابوں کو سینے سے لگائیں چھوٹی موٹی ہی صحیح بطور خدمات کتابوں کی دکانیں شروع کیجئے اور بچوں کو کتابوں کے تحفے دیجئے۔یہ سلسلہ ہمارے گھرانوں میں دھیمی رفتار سے ہی صحیح شروع ہوا ہے ۔ لیکن دعوت ولیمہ میں کتابوں کی تقسیم کا نادر خیال کہاں سے آیا؟ اس سوال پر وہ گویا ہوئے ’’اس ناچیز کو خود بچپن سے اردو پرچوں کے مطالعہ کا شوق رہا ہے۔ اس شوق نے تحریر اور تقریر کا فن سکھایا ،تہذیب کا سرمایہ عطا کیا ۔ شخصیت سازی کی ۔یہی وجہ ہے کہ بحیثیت معلم اپنے بچوں کو بطور انعام اردو پرچے ہی دیا کرتا تھا۔ مگر یہ عمل اسکول تک ہی محدود تھا۔ جب اس سلسلے کو آگے بڑھانے کے تعلق سے اقراء ایجوکیشن سوسائٹی کے صدر عبدالکریم سالار سے گفتگو کی تو انہوں نے اسے پسند کیا اوراس سلسلےکو وسعت دینے کا منصوبہ بنایا ۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ’’ پھر ہم لوگوں نے اسکول کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی بچوں میں کتابوں کی تقسیم کا سلسلہ شروع کیا۔ جلگاؤں ضلع کے ۳۰؍ سے زائد دیہاتوں میں اب تک ہم ایک لاکھ روپے سے زیادہ کی کتابیںتقسیم کر چکے ہیں۔شادیوں میں عام طور پر چھوٹے بڑے سبھی لوگ شریک ہوتے ہیں۔ بچے بھی اپنے والدین کے ساتھ لازمی طور پر آتے ہیں۔ گھر میں خوشی کا موقع بھی تھا تو ہم نے سوچا کیوں نہ بطور مہمان آنے والے ان بچوں کو کوئی نایاب تحفہ دیا جائے؟ لہٰذا ہم نے انہیں کتابیں فرہم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ‘‘
اقراء ایجوکیشن سوسائٹی کے صدر عبدالکریم سالار نے کہا کہ ’’ موبائل سے کی گئی پڑھائی بچے بھول جاتے ہیں لیکن کتابوں کی پڑھائی برسوں یاد رہتی ہے یہ اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے ذمہ داران کی ذمہ داری ہے کہ لائبریری کے نظام کو فعال بنائیں ۔ ہماری اسکولوں میں بچوں کے رسالوں کا سالانہ چندہ داخلے کے وقت ہی وصول کر لیا جاتا ہے جب بچے اسکول آتے ہیں تو کلاس ٹیچر ہر بچے کے حوالے اسکی کاپی کردیتے ہیں ۔یہ سبھی اداروں کو کرنا چاہئے ۔‘‘جس وقت یہ تقریب جاری تھی اس وقت انتظار گاہ کی کرسیاں کچھا کچھا بھری ہوئی تھیں اور شرکاء بڑے غور سے تمام باتوں کو سن رہے تھے ۔
دعوت میں شریک عرفات عظیم نامی ایک طالب علم کتابی ملنے بڑاخوش تھا۔اس نے کہا’’مجھے بچوں کی دنیا اور تعلیمی انقلاب پڑھنا بہت اچھا لگتا ہے۔ جب بھی یہ پرچے میرے ہاتھ میں آتے ہیں تو بڑی خوشی ہوتی ہے۔مگر ہمارے شہر میں کوئی ایسا بک اسٹال نہیں جہاں سے ہم دوسرے پرچے خرید سکیں۔‘‘ بچوں کی کتابوں میں دلچسپی دیکھ کرتقریب میںموجود سبکدوش معلم محمد عاصم کہنے لگے’’میں نے محسوس کیا کہ آج بھی بچے کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں۔اب یہ ہم بڑوں کی ذمہ داری ہے کہ انہیں کتابیں دستیاب کروائیں اور تحفوں میں کتابیں دینے کا چلن عام کریں۔ عام طور پر شادیوں میں بچے اور بڑے سبھی آئسکریم کے اسٹال اور برف کے گولوں کی جانب لپکتے ہیں لیکن نامہ نگار نے دیکھا کہ یہاں کتابوں کی تقسیم کے بعد بچے کرسیوں پر بیٹھے ورق گردانی کر رہے تھے۔ ان کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے۔ اسٹیج پر موجود شہر کی معزز شخصیات ان بچوں کی خوشی سے مسرور نظر آ رہی تھیں۔