بائیو میٹرک اسکین اور چہرے کی شناخت پر مبنی ٹیکنالوجی، عوامی دفاتر، اسپتالوں اور اسکولوں میں مناسب حفاظتی انتظامات کے بغیر استعمال کی جا رہی ہے، جس سے شہریوں کا انتہائی اہم ڈیٹا خطرے میں ہے۔
EPAPER
Updated: October 01, 2024, 10:02 PM IST | New Delhi
بائیو میٹرک اسکین اور چہرے کی شناخت پر مبنی ٹیکنالوجی، عوامی دفاتر، اسپتالوں اور اسکولوں میں مناسب حفاظتی انتظامات کے بغیر استعمال کی جا رہی ہے، جس سے شہریوں کا انتہائی اہم ڈیٹا خطرے میں ہے۔
ملک میں مختلف سرکاری و غیر سرکاری ڈپارٹمنٹ میں آدھار بائیو میٹرک اور چہرہ کی شناخت پر مبنی حاضری سسٹم کو تیزی سے نافذ کیا جارہا ہیں۔ ڈیجیٹل حقوق کیلئے سرگرم غیر سرکاری تنظیم انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن (آئی ایف ایف) نے ان اداروں کو اس ٹیکنالوجی کے ممکنہ نقصانات سے خبردار کیا ہے۔ آئی ایف ایف نے آدھار بائیو میٹرک اور چہرہ شناختی سسٹم کے نقصانات کے واضح نقصانات کا خاکہ پیش کرتے ہوئے حکام کو لکھا کہ حالیہ برسوں میں مرکزی اور ریاستی حکومتی ایجنسیوں کے ذریعے اہلکاروں کی حاضری کیلئے بائیو میٹرک اسکین اور چہرے کی شناخت پر مبنی ٹیکنالوجی کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا عوامی دفاتر، اسپتالوں اور اسکولوں میں مناسب حفاظتی انتظامات کے بغیر استعمال کیا جا رہا ہے، جس سے شہریوں کا انتہائی اہم ڈیٹا خطرے میں ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل نے اوسطاً ہر تین گھنٹہ میں غزہ کے بنیادی ڈھانچہ پر حملہ کیا: آکسفیم رپورٹ
فاؤنڈیشن کے مطابق انہوں نے دہلی ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ، دہلی ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ اور نیشنل میڈیکل کمیشن کے سکریٹری کو اپنے خدشات سے آگاہ کرنے کیلئے خط لکھا تھا اور زور دیا تھا کہ وہ تمام متعلقہ فریقوں کی رازداری کے تحفظ کیلئے ضروری اقدامات کریں اور اس (بائیو میٹرک کے نفاذ کے) اقدام کو فوری طور پر واپس لیں۔ واضح رہے کہ بائیو میٹرک اسکین اور چہرہ کی شناخت پر مبنی سسٹم، حاضری کے نظام میں انقلاب برپا کردیا ہے اور کمپنیاں اور ادارے اسے تیزی سے اپنا رہے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی میں بائیو میٹرک ڈیٹا مثلاً چہرے کی خصوصیات، آنکھ یا فنگر پرنٹس کا استعمال کرکے فرد کی حاضری کو درج کرتے ہیں یا لاگ ان کرتے ہیں۔ عملہ، عوامی شکایات اور پنشن کی وزارت نے ۲۰۱۴ء میں آدھار پر مبنی بایومیٹرک حاضری سسٹم AEBAS متعارف کرایا اور ۲۰۲۳ء میں مرکزی حکومت کے تمام دفاتر کو اس کا نفاذ کرنے پر زور دیا۔ یہ مختلف ریاستی حکومتوں نے بھی اسے اپنالیا ہے اور وہ سرکاری دفاتر، ہسپتالوں، بسوں اور سکولوں میں ملازمین کیلئے اسی طرح کے بائیو میٹرک سسٹم اور چہرے کی شناخت کے آلات کو فروغ دے رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: یوپی: لکھنو میں آئی فون کیلئے ڈیلیوری بوائے کا قتل کردیا گیا
آئی ایف ایف نے زور دیا کہ لوگوں کی شناخت اور نگرانی کیلئے بائیو میٹرک ٹکنالوجی کے استعمال کا پھیلاؤ اور بڑھتا رجحان، انسانی حقوق سے جڑے سنگین خدشات کو جنم دیتا ہے۔ اس قسم کے بائیو میٹرک سسٹم، بائیو میٹرک ڈیٹا کے علاوہ جیو لوکیشن و دیگر معلومات بھی جمع کرتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کا استعمال، طلبہ، اساتذہ اور ملازمین کی پرائیویسی کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے جو انہیں ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت فراہم کیا گیا ہے۔